BEST RESULT

Custom Search

Wednesday, May 24, 2023

عربی عبارتوں کی افہام وتفہیم کے لئے بعض معتمد عربی ڈکشنریاں

عربی عبارتوں کی افہام وتفہیم کے لئے بعض معتمد عربی ڈکشنریاں

✒️ فاروق عبد اللہ نراین پوری

کسی بھی عربی کتاب میں بہت سارے ایسے الفاظ اور علمی اصطلاحات ہوتے ہیں جہاں تک بہت سارے قارئین کی رسائی نہیں ہوتی، خصوصًا علمائے متقدمین کی کتابوں میں ایسے بے شمار کلمات اور اصطلاحات ہوتے ہیں جن کا صحیح معنی ہمیں معلوم نہیں ہوتا۔ ان مشکل الفاظ کی معرفت اور تفہیم کے لئے ہمیں ڈکشنریوں کی طرف رجوع کرنا پڑتا ہے۔  
اسی طرح جب ہم کوئی علمی مقالہ لکھتے ہیں تو بہت سارے الفاظ کے معانی بیان کرنے کے لئے ڈکشنریوں کا حوالہ دینا پڑتا ہے، لیکن منہجیت کے فقدان کی وجہ سے بسا اوقات بعض مقالےاہل علم کے مابین معیوب بلکہ مضحکہ خیز شمار کئے جاتے ہیں۔ بعض مقالہ نگارشروحاتِ حدیث یا کتبِ تفاسیر یا کتبِ فقہ وغیرہ سے ایسے مشکل الفاظ کا معنی بیان کرتے ہیں جو کہ علمی مقالوں میں ایک معیوب چیز  مانی جاتی ہے، الا یہ کہ وہ معنی کتبِ معاجم یا کتبِ غریب میں مقالہ نگار کو کہیں نہ ملے تو ان ثانوی مصادر سے بھی مدد لے سکتا ہے۔ہاں اگر اصل مصادر میں اس کا معنی وضاحت کے ساتھ نہ ہو، اجمال کے ساتھ ہو تو پہلے مصادر اصلیہ سے استفادہ کرنے کے بعد مزید وضاحت کے لئے ان ثانوی مصادر کا حوالہ  دے سکتا ہے۔
”ڈکشنری“ کے لئے عربی میں ”معجم“ یا ”قاموس“ کا لفظ مستعمل ہے۔ کسی معجم  (ڈکشنری) کا انتخاب کرتے وقت یہ خیال رکھنا چاہئے کہ حتی الامکان وہ متقدم ہو۔  متقدم معاجم میں مطلوبہ معلومات موجود ہونے کے باوجود متأخر معاجم کی طرف رجوع کرنا مناسب نہیں۔ بلکہ بسا اوقات دیکھا جاتا ہے کہ متأخر  معجم کے مصنف نے کوئی چیز اپنے متقدمین سے نقل کی ہے اور مقالہ نگار اصل مصدر کا حوالہ نہ دے کر متأخر معاجم کا حوالہ پیش کرتا ہے۔عام طلبہ کے مابین گرچہ یہ چل جاتا ہو لیکن علمی مقالوں میں یہ مناسب نہیں۔ 
اس لئے کسی معجم سے کسی مشکل کلمہ کا معنی نقل کرتے وقت یہ دھیان رکھنا چاہئے کہ یہ چیز انہوں نے اپنے کسی متقدم سے نقل کی ہے یا نہیں، کیونکہ اکثر متأخرین مصنفین نے اپنے سابقین کی کتابوں پر کام کیا ہے یا سابقین  کی کتابیں ان کا اہم مصدر رہی ہیں۔ 

🔷 بطور مثال ملاحظہ فرمائیں: 
(1) ابن فارس فرماتے ہیں کہ مقاییس اللغہ میں ان کا اعتماد  علمائے سابقین کی ان پانچ کتابوں پر ہے: كتاب العين للخليل، إصلاح المنطق لابن السكيت، جمهرة اللغة لابن دريد، غريب الحديث اور الغريب المصنف لأبي عبيد۔  [مقاییس اللغہ: مقدمہ/504]
(2)  امام صغانی کی ”العباب“  نے گویا سابقہ معاجم کو اپنے اندر سمیٹ لیا ہے، خصوصًا  كتاب العين، جمهرة اللغة، الصحاح، تهذيب اللغة، اور  مقاييس اللغة وغیرہ کو۔ [المعاجم اللغویہ لمحمد احمد ابی الفرج: ص28]
(3)  ابن منظور نے لسان العرب میں پانچ کتابوں پر اعتماد کیا ہے، وہ ہیں:  تهذيب اللغة للأزهري، المحكم لابن سيده، الصحاح للجوهري، حواشي ابن بري على الصحاح، والنهاية لابن الأثير۔  فرماتے ہیں: "میری اس کتاب سے نقل کرنے والا یہ سمجھے کہ گویا وہ انہیں پانچ  اصولوں (کتابوں ) سے نقل کر رہا ہے"۔ [لسان العرب: 1/8]
(4) فیروز آبادی کی القاموس المحیط کے مراجع میں سے چند  اہم مراجع یہ  ہیں:   العين للخليل، الجمهرة لابن دريد، الصحاح للجوهري، المحكم لابن سيده، تهذيب اللغة للأزهري، العباب للصغاني۔  [المعاجم اللغویہ لمحمد احمد ابی الفرج: ص29]
(5) فیروزآبادی  کی القاموس  المحیط پر تاج العروس جیسی ضخیم قاموس  کی بنیاد ہے۔ زبیدی نے اس میں القاموس المحیط  کی شرح کی ہے اور اس پر کافی استدراک کیا ہے۔ 
لہذا ان  جیسی کتابوں سے کوئی چیز نقل کرتے وقت اصل مصادر کی طرف  رجوع کرنا چاہئے اور حتی الامکان اصل مصادر سے ہی اسے نقل کرنا چاہئے۔ 
کتب المعاجم سے استفادہ سے پہلے ان معاجم میں الفاظ کی ترتیب کا علم ہونا ضروری ہے۔ متأخرین علما کے یہاں حروف معجم (ا ، ب، ت، ث، ج، ح...) پر ترتیب  دینا  رائج ومعروف ہے لیکن متقدمین علماکے یہاں بعض کتابوں میں یہ ترتیب موجود نہیں ہے۔ بعض نے اسے مخارج الحروف اور مقلوبات الکلمہ پر مرتب کیا ہے تو بعض نے  کلمہ کے آخری حرف پر اسے مرتب کیا ہے۔ اس لئے کسی بھی معجم سے استفادہ سے پہلے اس کی ترتیب کا علم ہونا ضروری ہے تاکہ مطلوبہ کلمہ تک بآسانی  پہنچ سکے۔ ذیل میں بطور نمونہ  چند مشہور ومعتبر معاجم کی ترتیب بیان کی جارہی ہے۔  

🔷 مخارج الحروف اور مقلوبات الکلمہ پر مرتب بعض معاجم یہ ہیں: 
(1) كتاب العين للخليل بن أحمد الفراهيدي (ت170هـ ، وقيل: 175هــ) 
یہ پہلی ڈکشنری ہے جو ہم تک پہنچی ہے۔ اسے خلیل نے مخارج الحروف پر مرتب کیا ہے، حلق کے سب سے آخری حصے سے ادا ہونے والے حروف سے شروع کیا ہے  اور ہونٹوں سے ادا ہونے  والے حروف پر اسے ختم کیا ہے۔ اس لئے اس کی ترتیب اس طرح ہے: ع ح ھ خ  غ ق  ک ج ش  ض ص س ز ط ت د ظ ذ ث ر ل ن ف ب م و ی ا ۔ 
ان میں سے ہر حرف کو کتاب کا نام دیا ہے۔  مثلًا پہلے حرف کا نام کتاب العین ہے۔ اسی سے کتاب کا نام بھی کتاب العین سے مشہور ہے۔ 
کتاب میں وارد الفاظ  کو  انہوں نے الٹ پلٹ کرکے ایک لفظ سے متعدد الفاظ تیار کیے ہیں اور ان پر بحث کی ہے، جسے قلب کہا جاتا ہے۔ مثلًا لفظ "رب" کو  لیں، اسے قلب (الٹ پلٹ) کر دیا  جائے تو یہ "بر" بن جاتا ہے۔  لفظ "حبر" کو قلب کیا جائے تو یہ الفاظ بنتے ہیں: ربح، بحر، رحب، حرب، برح۔ وقس علی ہذا۔  
اس سے بعض کلمات ایسے تیار ہو سکتے ہیں جن کا کوئی معنی نہیں ہے۔ اسی لئے بعض کلمات کے متعلق خلیل نے کہا ہے کہ عرب نے اسے استعمال نہیں کیا ہے، یہ ایک مہمل لفظ ہے۔ حالانکہ ان کے بعد آنے والے علما نے ان پر استدراک بھی کیا ہےاور بعض جن الفاظ کو خلیل نے مہمل قرار دیا تھا انھیں دلائل کی روشنی میں مستعمل قرار دیا ہے۔ 
اس طریقے پر علمائے مقتدمین میں سے اور بھی دوسرے علما نے کتابیں لکھی ہیں۔ مثلًا: 

(2) البارع في اللغة لأبي علي القالي (ت356هـ) 
کتاب العین سے قالی نے کافی استفادہ کیا ہے۔ اور  ان پر کافی اضافہ بھی کیا ہے خصوصًا جن الفاظ کو خلیل نے مہمل کہا تھا ان میں سے بہت سارے کلمات کے معانی اور کلام عرب سے ان کے شواہد کو ذکر کیا ہے۔ حالانکہ ابو علی القالی پربھی  اس حوالے سے ان کے شاگرد ابو بکر الزبیدی نے استدراک کیا ہے اور ”المستدرک من الزیادۃ فی کتاب البارع علی کتاب العین“ نامی کتاب لکھی ہے۔  کتاب البارع کا اکثر حصہ مفقود ہے، اور صرف ایک ٹکڑا مطبوع ہے۔ 

(3) تهذيب اللغة لأبي منصور الأزهري (ت370هــ) 
یہ ایک  ضخیم ڈکشنری ہے۔ اس کا مقدمہ بڑا اہم ہے۔ شرعی نصوص سے شواہد کا خوب اہتمام کیا ہے کیونکہ اس کے مؤلف نا صرف لغوی بلکہ معروف شافعی فقیہ بھی تھے۔ اکثر متأخرین لغویوں کا یہ ایک اہم مصدر رہا ہے۔ مثلًا مختار الصحاح، العباب اور لسان العرب وغیرہ کا۔

(4) المحكم والمحيط الأعظم لابن سيده الأندلسي (ت458هـ) 
اس کا مقدمہ بڑا طویل ہے۔ اس میں بھی بہ کثرت شواہد  کا استعمال کیا گیا ہے۔ صرفی ونحوی مسائل پر کافی بحث موجود ہے۔  اور یہ  بعد کی ڈکشنریوں کا ایک اہم مصدر ہے۔  

🔷 ڈکشنریوں میں الفاظ  کی ترتیب کا دوسرا طریقہ یہ ہے کہ انہیں حروف معجم  (ا ب ت ث ج ح ..الخ) پر مرتب کیا جائے۔ اس نہج پر بے شمار ڈکشنریوں کو مرتب کیا گیا ہے۔ بعض نمونے ملاحظہ فرمائیں:

(1) كتاب الجيم لأبي عمرو الشيباني (ت206هـ) 
یہ بہت مختصر لیکن بہترین ڈکشنری ہے، مگر صرف نوادر لغت پر مشتمل ہے۔ 

(2) جمهرة اللغة لابن دريد (ت321هـ) 
یہ حروف معجم پر مرتب ہے لیکن کتاب العین کی طرح مقلوبات الکلمہ کا اس میں استعمال ہے۔ اس کا اکثر حصہ ابن درید نے اپنے حافظہ سے املا کروایا ہے، اس لئے اس میں کچھ  جگہوں پر انہیں وہم بھی  ہوا ہے۔ 

(3) مقاييس اللغة لابن فارس (ت395هـ) 
اس کتاب کی سب سے بڑی خوبی یہ ہے کہ اس میں ہر مادے کا اصل بیان کیا گیا ہے۔ ہر مادے کے مفردات کو بیان کرنے کے ساتھ ابن فارس ایک یا زائد  ایسا مشترک معنی بیان کرتے ہیں جس میں اس کے تمام مفردات شامل  ہوں۔ چھ جلدوں میں شیخ المحققین عبد السلام محمد ہارون کی تحقیق سے مطبوع ہے۔  

(4) مجمل اللغة لابن فارس (395هـ) 
یہ کتاب مختصر ہے، مگر بہت ہی محرر  انداز میں لکھی گئی ہے۔ غریب القرآن کی خاص رعایت کی ہے۔ 
دونوں کتابوں میں ابن فارس نے ترتیب میں ہر حرف میں اس کے بعد والے حرف سے ابتدا کی ہے، اور اسی ترتیب سے آگے بڑھے ہیں۔ مثلًا را میں اس کلمہ کو پہلےذکر کیا ہے جو را اور زا سے شروع ہوتا ہے، پھر جو را اور سین سے شروع ہوتا ہے، یہاں تک کہ را اور ذال کی باری آجائے، وقس علی ہذا۔  

(5) أساس البلاغة للزمخشري (ت538هـ) 
اس میں لفظ کے حقیقی معنی اور پھر اس کے مجازی استعمال کا ذکر ہے۔ اُدَبا کے لئے بہت مفید ہے۔ 

🔷 ڈکشنریوں میں الفاظ  کی ترتیب کا تیسرا طریقہ یہ ہے کہ کلمہ کے آخری حرف پر انہیں مرتب کیا جائے۔ مثلًا "کتب" کو حرف الباء میں رکھنا، حرف الکاف میں نہیں۔ اس ترتیب کا فائدہ یہ ہے کہ کلمہ کے پہلے حرف میں تصریفات اور قلب کی صورت میں تبدیلی کا ہمیشہ ڈر لاحق ہوتا ہے لیکن آخری حرف میں نہیں۔ اس نہج پر بھی بہت ساری ڈکشنریوں کو مرتب کیا گیا ہے۔ بعض نمونے ملاحظہ فرمائیں۔ 

(1) الصحاح للجوهري (ت393هـ قريبًا) 
یہ ایک ضخیم ڈکشنری ہے جس میں چالیس ہزار  لغوی مادے موجود ہیں۔ یہ عمدہ ڈکشنریوں میں سے ایک ہے۔ اس کتاب کو جو مقبولیت حاصل ہوئی دیگر کو کم ہی حاصل ہو سکی۔ اسی  لئے علمائے کرام کی ایک بہت بڑی جماعت نے اس پر متعدد  کتابیں تصنیف کی ہیں جن کی تعداد سو سے زائد ہے۔ کسی نے تعلیق چڑھائی تو کسی نے اس پر  تکملہ کا کام کیا، کسی نے استدراک کیا  تو کسی نے مقارنہ، کسی نے نقد  کیا تو کسی نے دفاع، کسی نے اختصار کیا  تو کسی نے اسے منظومہ کی شکل دی۔ ان تمام خدمات کی تفصیلات جاننے کے لئے الصحاح  پر استاد عباس محمود العقاد کا مقدمہ (ص157-212)  پڑھیں جس میں انہوں نے ایک سو نو (109) کتابوں کا ذکر  کیا ہے۔  

(2) العباب الزاخر واللباب الفاخر للصغاني (ت650هــ)  
اس کتاب کے مؤلف کا تعلق قدیم غیر منقسم ہندوستان سے ہے۔  صحیح بخاری کا ان کا نسخہ "نسخہ بغدادیہ" کے نام سے مشہور ہے جس سے حافظ ابن حجر نے فتح الباری میں کافی استفادہ کیا ہے۔ ان کی سوانح حیات اور علمی خدمات پر خاکسار کا ایک مقالہ بعنوان: ”علامہ صغانی: متحدہ ہندوستان کا ایک راویِ صحیح بخاری“ فری لانسر میں شائع ہو چکا ہے۔ یہ ایک محدث اور فقیہ کے ساتھ  بہت بڑے لغوی تھے۔ ان کی یہ کتاب بڑی اہمیت کی حامل ہے لیکن افسوس کہ غیر مکمل ہے۔ امام سیوطی اس کی اہمیت کو بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں:  "أعظمُ كتابٍ أُلِّفَ في اللغة بعد عَصْرِ الصحاح كتابُ المُحْكَم والمحيط الأعظم لأبي الحسن علي بن سِيدَه الأندلسي الضَّرير ثم كتابُ العُباب للرضي الصَّغاني"۔ [المزہر فی علوم اللغہ وانواعہا: 1/76]
(زمانۂ ”الصحاح“ کے بعد لغت میں جو سب سے عظیم کتاب لکھی گئی وہ ابو الحسن علی بن سیدہ الاندلسی الضریر کی کتاب المحکم والمحیط الأعظم ہے ، پھر رضی صغانی کی کتاب العباب ہے۔)  

(3) لسان العرب لابن منظور الأفريقي (ت711هــ) 
یہ ان کے زمانے تک کی سب سے ضخیم ڈکشنریوں میں سے ایک تھی۔ اس میں  اسی ہزار سے زائد  لغوی مادے موجود ہیں۔ اس میں نصوص سے شواہد، کلمات پر ضبط، روایات کے مابین ترجیح جیسی سبھی خوبیاں موجود ہیں۔  بہت سارے علما نے اس کی علمی  خدمت  کی ہے۔  

(4) القاموس المحيط للفيروزآبادي (ت817هـ) 
یہ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ کے استاد ہیں جن سے حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے کافی استفادہ کیا ہے۔  یہ بھی ایک ضخیم ڈکشنری ہے جس میں ساٹھ ہزار لغوی مادے موجود ہیں۔ انہوں نے پہلے "اللامع المعلم العجاب الجامع بين المحكم والعباب" کے نام سے ایک ڈکشنری تصنیف کرنی شروع کی تھی۔ پانچ جلدوں کے بعد انہیں لگا کہ یہ بہت طویل ہو جائےگی اور سو جلدوں تک پہنچ جائےگی جس کا مراجعہ طلبہ کے لئے مشکل ہوگا، پس سابقہ ارادہ ترک کرکے  اس سے مختصر یہ کتاب تصنیف کی جو کہ پھر بھی  بہت ضخیم ہے۔  
 یہ بہت ہی مفید ڈکشنری ہے۔ اسی لئے علمائے کرام کی ایک جماعت نے اس پر مستقل کتابیں تصنیف کی ہیں، جن میں سے سب سے مشہور زبیدی کی ”تاج العروس“ ہے۔ 

(5)  تاج العروس من جواهر القاموس للزبيدي (ت1205هـ)  
یہ القاموس للفیروزآبادی کی شرح ہے، اور اس پر کافی استدراک بھی کیا ہے۔ اس کے مؤلف  اگرچہ  متأخر  الوفات ہیں لیکن ان کی یہ کتاب بہت ہی مفید اور ضخیم ہے، بلکہ یہ اب تک کی سب سے بڑی ڈکشنری ہے۔ اس میں ایک لاکھ بیس ہزار لغوی مادے موجود ہیں جنہیں مؤلف نے چودہ سال سے زائد مدت میں چھ سو مصادر سے  جمع کیا ہے۔   

🔷 اب تک جن معاجم کی بات کی گئی ان کا شمار "معاجم الالفاظ" میں ہوتا ہے۔ بہت سارے ایسے معاجم بھی ہیں جن کا تعلق معانی کے ساتھ ہے۔ یعنی ایک معنی اور موضوع سے متعلق  الفاظ  کو ایک  جگہ جمع کردیا گیا ہے۔ چاہے ایک ہی موضوع پر مستقل کتاب میں ہو  یا ایک کتاب میں کئی ایک موضوعات کو جمع کیا گیا ہو۔بطور نمونہ  درج ذیل معاجم ملاحظہ فرمائیں:
 
(1) خلق الإنسان للأصمعي (ت216هـ) 
(2) كتاب الإبل للأصمعي 
(3) خلق الفرس لمحمد بن زياد الأعرابي (ت231هـ) 
(4) كتاب الخيل لمعمر بن المثنى (ت210هـ)
اس کتاب کے مختصر تعارف پر خاکسار کا ایک مضمون فری لانسر میں شائع ہو چکا ہے۔ 
(5) كتاب الخيل للأصمعي 
(6) كتاب الشاء للأصمعي
(7) كتاب الوحوش للأصمعي
(8) كتاب النخل لأبي حاتم السجستاني (ت255هـ) 
(9) كتاب السلاح للأصمعي 
(10) كتاب البئر لمحمد بن زياد الأعرابي (ت231هـ)
(11) كتاب الريح لابن خالويه (ت370هـ) 

🔷 ان تمام کتب میں ایک ہی قسم کے معنی کو موضوع بحث بنایا گیا ہےاور اس کے متعلق الفاظ پر بحث کی گئی ہے۔ جب کہ بعض ایسی کتابیں بھی ہیں جن میں مختلف موضوعات پر بحث کی گئی ہے۔ بطور نمونہ ملاحظہ فرمائیں: 
(1) الغريب المصنف لأبي عبيد القاسم بن سلام (ت224هـ) 
(2) كتاب الألفاظ لابن السكيت (ت244هـ)
(3) فقه اللغة وسر العربية للثعالبي (ت429هـ) 
(4) المخصص لابن سيده (ت458هـ)
(5) تهذيب الألفاظ للخطيب التبريزي (ت502هـ)  
مقالہ نگاروں اور مصنفین کو چاہیے کہ مشکل الفاظ کی شرح کے لئے ان مذکورہ معروف ومعتبر متقدم  معاجم کی طرف رجوع کریں۔ ان معاجم میں مطلوبہ لفظ موجود ہونے کے باوجود معاصرین کی ڈکشنریوں کی طرف رجوع کرنا صحیح نہیں۔ مثلًا بعض باحثین مذکورہ متقدم ڈکشنریوں کی طرف رجوع نہ کرکے ان درج ذیل ڈکشنریوں کی طرف رجوع کرتے ہیں:  
المعجم الكبير، المعجم الوسيط, المعجم الوجيز  (انہیں مجمع اللغہ العربیہ مصر نے شائع کیا ہے)، معجم الفرائد للدكتور إبراهيم السامرائي، القاموس الجديد للجنة من اللغويين في تونس, المنجد للويس معلوف، البستان لعبد الله الميخائيل البستاني، الرائد لجبران مسعود, الشامل لمحمد سعيد إسبر وبلال جنيدي, المعجم العربي الحديث لاروس للدكتور خليل البحر وغیرہ ۔
ان کا یہ عمل قابل تعریف نہیں۔ 
ہاں اگر متقدم ڈکشنریوں میں مطلوبہ معلومات نہ ملیں تو ان جدید ڈکشنریوں کی طرف رجوع کرنے میں کوئی حرج نہیں۔ 
ان معاصر ڈکشنریوں میں سب سے معتمد ”المعجم الوسیط“ ہے۔ شیخ محمد عزیر شمس حفظہ اللہ اس کے متعلق  فرماتے ہیں: "جدید ڈکشنریوں میں یہ سب سے زیادہ معتمد ہے۔ اسے ماہرین لغت کی ایک ٹیم نے ترتیب دیا ہے۔ اس لئے قابل اعتماد ہے۔ اس کا حال ”المنجد“ جیسا نہیں"۔

🔵 اب تک عام مشکل الفاظ کی بات چل رہی تھی۔ لیکن اگر ان کا تعلق احادیث نبویہ  سے ہے تو ان کے لئے غریب الحدیث پر لکھی گئی کتابوں کی طرف رجوع کرنا چاہئے۔ مثلًا:
 
(1) غريب الحديث لأبي عبيد القاسم بن سلام (ت224هـ)
(2) غريب الحديث لابن قتيبة الدينوري (ت276هـ) 
(3) غريب الحديث لإبراهيم بن إسحاق الحربي (ت285هـ) 
(4) غريب الحديث للخطابي (ت388هـ)
(5) تفسير غريب ما في الصحيحين للحميدي (ت488هـ) 
(6) الفائق في غريب الحديث للزمخشري (ت538هـ)
(7) مشارق الأنوار على صحاح الآثار للقاضي عياض (ت544هـ)  
اس میں صحیحین اور موطا امام مالک کی حدیثوں  کے غریب الفاظ پر ہی صرف  بحث کی گئی ہے۔ اس میں اعلام، انساب اور جگہوں کا بھی ذکر ہے۔ مختلف الفاظ کی روایت میں روات کے اختلافات کا ذکر اور ان کے اوہام کا بھی بیان ہے۔  اس کی ترتیب حروف المعجم پر ہے ، لیکن ہمارے یہاں کے حروف معجم کی  معروف ترتیب پر نہیں بلکہ مغاربہ کی ترتیب پر ہے، جو کہ اس طرح ہے: ا ب ت ث ج ح خ د ذ ر ز  ط ظ ک ل م ن ص ض  ع غ ف ق  س ش ھ  و ی ۔ 
اس کتاب کی اہمیت کا اندازہ امام کتانی کے اس قول سے لگایا جا سکتا ہے:  "وهو كتاب لو وزن بالجوهر أو كتب بالذهب كان قليلًا فيه"۔ [الرسالہ المستطرفہ: ص157]
(اگر اس کتاب کو جواہرات سے تولا جاتا یا سونے سے لکھا جاتا پھر بھی کم تھا۔) 
(8) غريب الحديث لابن الجوزي (ت597هـ)
(9) النهاية في غريب الحديث والأثر لابن الأثير (ت606هـ)  
اس موضوع کی  یہ سب سے بہترین اورجامع کتاب  ہے۔ 
(10) مجمع بحار الأنوار في غرائب التنزيل ولطائف الأخبار لمحمد بن طاهر الفتني الغجراتي (ت986هـ)   
اس میں غریب القرآن اور غریب الحدیث دونوں ہیں۔ علامہ مبارکپوری رحمہ اللہ کی تحفۃ الاحوذی کے مطالعہ سے پتہ چلتا ہے کہ یہ کتاب ان کے اہم مصادر میں سے ہے۔ اس کتاب سےانھوں نے تحفہ الاحوذی میں کافی استفادہ کیا ہے۔

🔵 جہاں تک مشکل اور غیر معروف اصطلاحات کا معاملہ ہے تو اس کے لئے متعلقہ فن کی امہات کتب کی طرف رجوع کرنا چاہئے اور اس کا معنی ومفہوم بیان کرنا چاہیے۔ نیز اصطلاحات پر جو کتابیں لکھی گئی ہیں ان کی طرف بھی رجوع کرنا چاہیے۔ اگر ان اصطلاحات کا تعلق فقہ سے ہے تو درج ذیل کتابوں کی طرف رجوع کرنا مفید ہوگا: 

♦️ حنفی مذہب کے لئے: 
(1) طلبة الطلبة لنجم الدين النسفي (ت537هـ)  
(2) المُغرِب في ترتيب المُعْرِب للمطرزي (ت610هـ)
(3) أنيس الفقهاء لقاسم القونوي (ت978هـ) 

♦️ شافعی مذہب کے لئے:
(4) الزاهر في غريب ألفاظ الشافعي لأبي منصور الأزهري (ت370هـ) 
شروع میں بیان کیا جا چکا ہے کہ یہ بہت بڑے لغوی ہونے کے ساتھ ساتھ علمائے شوافع کے بہت بڑے عالم تھے۔ان کی کتاب تہذیب اللغہ اور الزاہر اس کی بہترین دلیل ہے۔ 
(5) حلية الفقهاء لابن فارس (ت395هـ) 
(6) تهذيب الأسماء واللغات للنووي (ت676هـ)
 یہ بہت ہی مفید کتاب ہے۔ اس کا پہلا حصہ شخصیات کے تعارف پر اور دوسرا حصہ  مشکل کلمات اور اصطلاحات پر مشتمل  ہے۔ اسی کتاب کی وجہ سے امام نووی کو امام جرح وتعدیل بھی کہا جاتا ہے۔  
(7) تحرير ألفاظ التنبيه للنووي
(8) النظم المستعذب في شرح غريب المهذب للركبي (ت633هـ) 
(9) المصباح المنير في غريب الشرح الكبير للفيومي (ت770هـ) 

♦️ مالکی مذہب کے لئے:
(10) شرح غريب ألفاظ المدونة للجبي (توفي في القرن الرابع أو الخامس)
(11) الحدود لابن عرفة المالكي (تت803هـ) 

♦️ اور حنبلی مذہب کے لئے:
(12) المطلع على أبواب المقنع للبعلي (ت709هـ)  

🔵 اور اگر ان مصطلحات کا تعلق شریعت کے دوسرے فنون مثلًا عقیدہ  وغیرہ سے ہے تو ان کتابوں کی طرف رجوع کرنا مفید ہوگا:  
(1) غریب الحدیث لابن قتیبہ کا مقدمہ 
(2) الزينة في الكلمات الإسلامية العربية لأحمد بن حمدان الرازي (ت322هـ)
(3) الحدود الأنيقة والتعريفات الدقيقة لزكريا الأنصاري  الشافعي (ت926هـ)

🔵  ساتھ ہی ان کتابوں کی طرف رجوع کرنا بھی مفید ہوگا جو کہ تعریفات اور مصطلحات کے پر ہی لکھی گئی ہیں، مثلًا: 
(1) التعريفات للجرجاني (816هـ)
(2) التوقيف على مهمات التعاريف للمناوي (ت1031هـ) 
(3) الكليات (معجم في الاصطلاحات والفروق اللغوية) لأبي البقاء  الكفوي (ت1094هـ) 
(4) كشاف اصطلاحات الفنون للتهانوي (ت1158هـ) 

♦️ ہر خاص کلمہ یا اصطلاح کے لئے متخصص اور مناسب مصدر کی طرف رجوع کرنا اور اس کا حوالہ دینا علمی مقالوں میں جان پھونک دیتا ہے، اور یہ اس مقالے کی ایک بڑی خوبی مانی جاتی ہے۔ اور اس کی رعایت نہ کرنا اہل علم کے نزدیک خلل تصور کیا جاتا ہے، بلکہ معیوب مانا جاتا ہے اور ایسے مقالوں کو وہ خاص اہمیت نہیں دیتے۔ اس لئے ان امور کی طرف مقالہ نگاروں اور مصنفین کو خصوصی توجہ دینا چاہیے۔ اللہ ہمیں نفع بخش علم کی نشر واشاعت کی توفیق عطا فرمائے۔

Sunday, August 21, 2022

ہندوستان اور ہندو مسلم تنازع ۔۔ ایک مختصر تجزیہ

 ہندوستان اور ہندو مسلم تنازعہ ۔۔ ایک مختصر تجزیہ 
یہاں کے دونوں طبقوں میں دو قسم کی فکر و سوچ پہلے سے چلی آ رہی ہے ۔
مسلمانوں میں جناح والی فکر اور مولانا آزاد و مولانا مدنی والی سوچ ، 
ہندووں میں سنگھ و ساورکر والی سوچ اور گاندھی و نہرو والی سوچ ۔

تقسیم کے وقت مسلمانوں کے اس طبقے نے الگ ملک لے لیا ۔ جب کہ ہندووں کے ساورکر والے طبقے کو الگ ملک نہ ملا ۔ یا تو اس لیے کہ 
وہ قلیل تھے اور کوئی  مستقل علاقہ ان کی سوچ والا نہ تھا جسے الگ مانگ سکتے ۔ یا
گاندھی و نہرو کے سامنے مغلوب ہوگئے ۔ یا
چالاکی سے یوں سوچ کر خاموش ہو گئے کہ یہاں کی اکثریت میں اب ہم ہی ہیں،  سو اب الگ ملک کی ضرورت نہیں ۔
خیر ۔ 
یہ مختصر تجزیہ ہے ۔

دونوں طبقوں میں دونوں قسم کی فکر و سوچ آج بھی موجود ہے اور اپنا اثر دکھاتی رہتی ہے ۔

یہ بھی حقیقت ہے کہ دونوں طرف کے اکابر علماء ایک دوسرے کو مخلص مسلمان و مومن سمجھتے تھے ۔ کسی نے کفر و شرک کا سہارا لے ایک دوسرے کی تردید نہیں کی ۔ ہاں !  سطحی سوچ والے اور ایمان و شرک کی حقیقت نہ سمجھنے والے جذباتی سیاسی قائدین اور کم علم مقررین یا اخبار نویسوں نے کفر کی دکان کھول رکھی تھی ۔
اس حقیقیت کو اقبال تک نہ سمجھ سکے اور حضرت شیخ الاسلام رح پر بو العجبی و بو لہبی کا الزام لگا دیا ۔

یہ بھی ذہن نشین رہے کہ آج بھی وہاں ایسے علماء موجود ہیں جو تقسیم کو نادرست کہتے ہیں اور اقرار کرتے ہین کہ تقسیم بے فائدہ رہی اور مولانا مدنی و آزاد کا موقف زیادہ بہتر تھا  ۔

حاصل تحریر یہ ہے کہ اس بحث میں کفر و شرک کا سہارا لینا قطعی درست نہیں ۔

Saturday, October 16, 2021

كيف يتمُّ تفسير الرؤيا التي فيها بلاء أو همٌّ أو مصيبة للمسلم الصالح؟

تناولنا في إجابة السؤال السابق بعض الأحوال والأشكال التي قد تظهر فيها رؤى صادقة سيِّئة الظاهر، والتي قد يراها المسلم الصالح.
وفي هذا السؤال نتناول نوعين فقط من هذه الرؤى نظنُّ أنـَّهما أكثر خطورة وحساسية من غيرهما؛ لأنَّ تأثيرهما المؤلم على نفس المسلم الصالح قد يكون كبيرًا، وهما بترتيب الخطورة:
1. الرؤى السيِّئة كلُّها التي لا تحتوي على أيِّ بشرى بخير قطٍّ: ومن أمثلتها أن يرى المسلم نفسه في المنام قد سقط في حُفرة عميقة، أو غرق في البحر، أو أنَّ زوجته تطلب منه الطلاق أو تخونه، أو أنـَّه قد رسب في الاختبار، أو أنَّ شركته قد أفلست، أو أنَّ سيارته قد احترقت أو تحطَّمت في حادث، أو أنَّ بيته قد تهدَّم…إلخ.
2. الرؤى التي تبدأ بخير وتنتهي بسوء: كرؤيا شخص أنـَّه تزوَّج وعاش سعيدًا، ثم طلَّق زوجته، أو أنـَّه أنجب طفلًا جميلًا، ثم مات الطفل، أو أنـَّه عمل في وظيفة مرموقة، ثم فصلوه منها، أو أنـَّه حصل على تأشيرة دولة، وسافر إليها، ثم قامت السلطات بترحيله، أو أنـَّه نجح في الجامعة ثلاث سنوات، ثم رسب وتركها في الرابعة…إلخ.
وأبدأ حديثي عن هذين النوعين من الرؤى مستعيذًا بالله (تعالى) منهما لي ولكلِّ مسلم صالح، لا أراني الله (تعالى) ومن صلح من المسلمين إلَّا الرؤى الصالحة والخير والبشرى والسرور.
أمَّا عن تفسير النوع الأوَّل من الرؤى، وهي السيِّئة كلُّها، والتي قد يراها المسلم الصالح، فلا تخرج عن واحد من ثلاثة عادة:
1. أن تكون من الشيطان، وبالتالي فلا تفسير لها. وهذا هو الغالب عليها، فقد وردت جملة من الأحاديث الصحيحة دلَّت على أنَّ الأصل في هذه النوعيَّة من الرؤى أنـَّها تكون من الشيطان؛ ليحزن الذين آمنوا (تناولنا الرؤى التي تكون من الشيطان في سياق هذا البحث).
2. أن يكون ظاهرها فقط سِّيئًا، بينما يكون تفسيرها خيرًا: وهذا الذي يقوم به المفسِّرون من خلال ما يُعرف بقلب المعنى (راجع قاعدة تفسير الرؤى بقلب المعنى).
3. أن تدلَّ على مشكلة فعلًا: وهذه نادرة جدًّا عند المسلم الصالح بفضل الله (تعالى)، ولتفسيرها أحكام مهمة، وهي:
1. ينبغي أن يعرف المفسِّر أوَّلًا أهمَّ أحوال الرائي المسلم الصالح وهمومه في ماضيه وحاضره، فإن استطاع أن يفسِّر هذه الرؤيا على شيء سيِّء حدث في ماضٍ أو على شيء سيِّء حاصل فعلًا، فليفعل، ولا يفسِّرها على شيء سيِّء سوف يحدث في المستقبل.
2. إذا لم يكن لها تفسير في ماضٍ أو حاضر، فإذا استطاع المفسِّر أن يقلب معناها إلى خير، فليفعل (راجع قاعدة تفسير الرؤى بقلب المعنى).
3. إذا لم يستطع المفسِّر أن يفعل هذا ولا ذاك، فليتأكَّد من خلال البحث في أحوال الرائي وظروفه أنَّ ما قد يحتمله تفسير الرؤيا من شرٍّ هو شيء محبوب أو غير مكروه عند رائيه. فإذا تأكَّد المفسِّر من ذلك، فليفسِّرها له على هذا المعنى (كرؤيا عُمر بن الخطَّاب (رضي الله تعالى عنه) التي تقدَّم الحديث عنها في إجابة السؤال السابق).
4. فإذا لم يستطع المفسِّر أن يفعل أيَّ شيء من كلِّ ما سبق، فليس أمامه إلَّا خياران:
الأوَّل: أن يخبر رائيها أن يستعيذ بالله (تعالى) منها، وأنَّ الاحتمال الأكبر فيها أنـَّها من الشيطان، وأنـَّها لا تفسير لها. وهذا هو الأولى بالمفسِّر والأفضل للرائي.
الثاني: أن يفسِّرها له على أهون، وأقل، وأبسط معنى سيِّء يحتمله تفسيرها. فإذا كان لتفسير الرؤيا أكثر من احتمال سيِّء، اختار المفسِّر أيسرها على نفس الرائي.
فإذا قرَّر المفسِّر أن يفعل ذلك، فعليه أن يلتزم بأحكام وشروط مهمَّة، وهي:
1. «إذا قام مفسِّر بتفسير رؤيا لمسلم صالح على أنـَّها بلاء أو همٌّ أو مصيبة، فلا بدَّ أن يبشِّره بالفرج بعدها، ولو لم تكن هناك بشرى بذلك في الرؤيا». وهذه قاعدة.
والدليل الأوَّل على هذه القاعدة هو أنَّ البلاء أو الهمَّ أو المصيبة للمسلم الصالح لا بدَّ وأن يعقبهم فرج وتيسير، وهذه سُنَّة من سُنَن الله (تعالى) في الكون، يقول الله (عزَّ وجلَّ): ﴿فَإِنَّ مَعَ الْعُسْرِ يُسْرًا (5) إِنَّ مَعَ الْعُسْرِ يُسْرًا (6)﴾ (سورة الشَّرح)، وكذلك قوله (تبارك وتعالى): ﴿سَيَجْعَلُ اللَّهُ بَعْدَ عُسْرٍ يُسْرًا﴾ (الطلاق:7)، وكذلك قوله (عزَّ وجلَّ): ﴿وَلَنَبْلُوَنَّكُمْ بِشَيْءٍ مِّنَ الْخَوفِ وَالْجُوعِ وَنَقْصٍ مِّنَ الأَمَوَالِ وَالأنفُسِ وَالثَّمَرَاتِ وَبَشِّرِ الصَّابِرِينَ﴾ (البقرة:155)، وأيضًا قوله (جلَّ جلاله): ﴿سَيَهْدِيهِمْ وَيُصْلِحُ بَالَهُمْ﴾ (محمد:5).
أمَّا الدليل الثاني فهو أنَّ تفسير الرؤيا على البلاء أو الهمِّ أو المصيبة هو ممَّا يَحزُن المسلم الصالح ويؤلمه، ولا يَحزُن مؤمن مؤمنًا أبدًا، فإنـَّه لا يَحزُن المؤمن إلَّا شيطان رجيم، يقول الله (تعالى): ﴿إِنَّمَا النَّجْوَى مِنَ الشَّيْطَانِ لِيَحْزُنَ الَّذِينَ آمَنُوا وَلَيْسَ بِضَارِّهِمْ شَيْئًا إِلَّا بِإِذْنِ اللَّهِ وَعَلَى اللَّهِ فَلْيَتَوَكَّلِ الْمُؤْمِنُونَ﴾ (المجادلة:10). وكذلك فإنَّ تفسير الرؤيا على همٍّ أو مصيبة أو بلاء دون بشرى هو من المنهيِّ عنه في الحديث الشريف: «إذا عبرتم للمسلم الرؤيا، فاعبروها على خير، فإنَّ الرؤيا تكون على ما يعبرها صاحبها» (حديث حسن – فتح الباري).
أمَّا الدليل الثالث فهو أنَّ يوسف (عليه السلام) قد فعل هذا عندما فسَّر رؤيا الملك الوثنيِّ، أفلا نفعلها نحن عندما نفسِّر رؤى المؤمنين الصالحين؟! وأعني بذلك ما جاء في القرآن الكريم عن تفسير يوسف (عليه السلام) لرؤيا ملك مصر، فقد فسَّرها له يوسف (عليه السلام) كما جاء في قول الله (تعالى): ﴿قَالَ تَزْرَعُونَ سَبْعَ سِنِينَ دَأَبًا فَمَا حَصَدتُّمْ فَذَرُوهُ فِي سُنبُلِهِ إِلَّا قَلِيلًا مِّمَّا تَأْكُلُونَ (47) ثُمَّ يَأْتِي مِن بَعْدِ ذَلِكَ سَبْعٌ شِدَادٌ يَأْكُلْنَ مَا قَدَّمْتُمْ لَهُنَّ إِلَّا قَلِيلًا مِّمَّا تُحْصِنُونَ (48)﴾، فهذا هو تفسير الرؤيا.
ثم بشَّره يوسف (عليه السلام) بانتهاء هذه الأزمة بعد ذلك، ولم يكن يدلُّ على هذه البشرى أيُّ رمز في الرؤيا. يقول الله (تعالى) على لسان يوسف (عليه السلام) عن هذه البشرى: ﴿ثُمَّ يَأْتِي مِن بَعْدِ ذَلِكَ عَامٌ فِيهِ يُغَاثُ النَّاسُ وَفِيهِ يَعْصِرُونَ﴾ (يوسف:49).
قد يقول قائلٌّ معترضًا على هذه النقطة أنـَّه على الرغم ممَّا قاله مفسِّروا القرآن الكريم في كتبهم عن هذه البشرى أنـَّها بالفعل ليست من تفسير الرؤيا، إلَّا أنـَّهم قد بيَّنوا في كتبهم أنـَّها ممَّا أوحى الله (تعالى) به إلى يوسف (عليه السلام) من أمور الغيب حتَّى يَظهر للمَلِك فضل يوسف (عليه السلام) وعِلمه. نقول لهم: ونحن أيضًا قد بيَّن الله (تعالى) لنا في القرآن الكريم من أمور الغيب ما يدلُّ على أنَّ كلِّ بلاء أو شدَّة أو مصيبة لا بدَّ أن يعقبها فرج وتيسير للمسلم الصابر الصالح، فلا وجه للاعتراض.
2. أن يكون للتفسير السيِّء لهذه الرؤيا مقدِّمات واضحة في الواقع تدلُّ على احتمال تحقُّقه، كرؤيا طالب جامعيٍّ لم يذاكر طوال العام أنـَّه رسب في الاختبار النهائيِّ، أو كرؤيا شخص له زوجة هوائيَّة سيِّئة الطباع أنـَّه طلَّقها، أو كرؤيا شخص مريض بمرض قاتل أنـَّه مات (عافانا الله تعالى والمسلمين)، أو كرؤيا شخص متَّهم بجريمة خطيرة وقد ثبتت عليه جميع الأدلَّة أنـَّه قد تمَّ إعدامه.
ويُحتمل أن تكون الرؤيا التي فسَّرها يوسف (عليه السلام) لصاحبه في السجن من هذا النوع، فربَّما دخل السجن لجريمة خطيرة ارتكبها تستوجب حكم الإعدام، فرأى في المنام كما جاء في القرآن الكريم، في قول الله (تعالى): ﴿إِنِّي أَرَانِي أَحْمِلُ فَوْقَ رَأْسِي خُبْزًا تَأْكُلُ الطَّيْرُ مِنْهُ﴾ (يوسف:36). فيُحتمل أنـَّه بناء على هذه المقدِّمات الواضحة فسَّرها له يوسف (عليه السلام) على معنى السوء كما جاء في قول الله (تعالى): ﴿وَأَمَّا الآخَرُ فَيُصْلَبُ فَتَأْكُلُ الطَّيْرُ مِن رَّأْسِهِ﴾ (يوسف:41). فإن لم تكن هذه المقدمات موجودة، فليمتنع المفسِّر عن تفسير الرؤيا على احتمال سيِّء.
ومع ذلك، فقد تأتي بعض الرؤى أحيانًا لتدلَّ على حدوث مشاكل بسيطة دون أيـَّة مقدِّمات واقعيَّة تشير إليها كرؤيا رجل مسلم مثلًا أنـَّه سيقابل رجلًا لا يحب أن يقابله، أو أنـَّه ستحدث له مشكلة بسيطة في العمل أو نحو ذلك. ومن الملاحظ في العديد من هذه النوعيَّة من الرؤى سرعة التحقُّق حتَّى لا يحزن المسلم بسببها طويلًا. 
3. ألَّا يكون الرائي قد رأى رؤى سابقة تدلُّ على عكس ما قد تدلُّ عليه الرؤيا السيئة الحالية من معانٍ دون أن يكون هناك تغيُّر في أحداث الواقع يُعبر عنه هذا التغيُّر في الرؤى.
ومعنى ذلك أنـَّه لو افترضنا مثلًا أنَّ رجلًا مُسلِمًا رأى في منامه عددًا من الرؤى فيها تزكية لزوجته وبشرى بالحياة الطيِّبة معها، ثم رأى بعد ذلك رؤيا أخرى بأنـَّها امرأة سيِّئة وأنـَّه طلَّقها، مع العلم أنـَّه لم يحدث أيُّ تغيُّر في أحداث الواقع يؤيِّد هذا التغيُّر في الرؤى، فالزوجة ما زالت طيِّبة، وذات أخلاق كريمة، ومحبَّة لزوجها، ولم تتبدَّل أخلاقها في شيء. فبناء على ذلك، فالأرجح أن الرؤيا السيِّئة هذه كاذبة. ولا ينبغي للمفسِّر في هذه الحالة أن يفسِّرها على المعنى السيِّء.
وكذلك فقد يرى طالب جامعيٌّ مجتهد ومتفوِّق بعض الرؤى التي تبشِّره بالنجاح والمستقبل العلميِّ الجيِّد، ثم يرى رؤيا بعد ذلك أنـَّه فشل في دراسته ورسب، مع العلم أنَّ الطالب ما زال مجتهدًا، ولم يحدث أيُّ تغيُّر في الواقع يبرِّر هذا التغيُّر في الرؤى. فبناء على ذلك، فإنَّ رؤى الخير هذه قد تَجُبُّ أو تُلغي هذه الرؤيا السيِّئة التي قد تدلُّ على عكس معنى رؤى الخير السابقة عليها.
4. ألَّا يكون الرائي قد رآها في وقت حُزن، أو همٍّ، أو ضيق، أو اكتئاب، أو مشاكل، فإنَّ الله (تعالى) أرحم بعبده المسلم الصالح من أن يكون همَّه وضيقه يقظة ومنامًا في نفس الوقت، إلَّا لحكمة يعلمها (عزَّ وجلَّ). فإذا رأى المسلم الصالح هذه الرؤيا في وقت هموم وضيق ومشاكل، فالراجح أنـَّها كاذبة لا تفسير لها. ولا ينبغي على المفسِّر في هذه الحالة أن يفسِّرها له على معنى الشرِّ.
5. ألَّا يكون الرائي قد رآها بعد عبادة وتضرُّع ودعاء لله (تعالى). فالأرجح والغالب أنَّ الرؤى لا تكون سيِّئة بعد هذه الأعمال الصالحة، وإلَّا كانت من الشيطان غالبًا.
6. في حالة كون في الرؤيا معصية، فيُشترط لتفسيرها على معنى السوء أن يكون الرائي مرتكبًا لهذه المعصية في الواقع، أو لمعصية ترتبط بالرمز أو يمكن قياسها عليه، كأن يرى العاصي في المنام أنَّه يشرب الخمر، فيشترط أن يكون شاربًا لها فعلًا، أو أن يكون متعاطيًا للمخدِّرات (والعياذ بالله تعالى) قياسًا على الخمر، أو أن يكون مشتهرًا بالكلام السيِّء؛ لأنَّ شرب الخمر والكلام السيءِّ يشتركان في المحلِّ وهو الفمُّ…وهكذا.
أمَّا عن تفسير النوع الثاني من الرؤى، والذي يبدأ بخير وينتهي بسوء، فلعلَّه يكون أقرب إلى الصدق من النوع الأول؛ لأنَّ فيه من الخير والسوء، فليس كلُّه سوءًا. والنصيحة التي أنصح بها المفسِّرين في تفسير مثل هذا النوع من الرؤى أن يبشروا رائيها بالفرج بعد تفسير الرؤيا (وقد تناولنا هذه النقطة بالشرح التفصيليِّ في إجابة هذا السؤال). وكذلك أن يفسِّروا له الأمر السيِّء على أهون وأبسط وأقلِّ ما يمكن أن يحتمله (وقد تناولنا هذه النقطة أيضًا في سياق إجابة هذا السؤال).
وقد يتسائل البعض عن الحكمة في أن يرى المسلم أحيانًا بعض الرؤى الصادقة التي تدلُّ على أمور سيِّئة سوف تحدث له. نقول أنَّ الحكمة الأبرز في ذلك هو تهيئة المسلم لقبول قدر الله (تعالى) دون مفاجأة، أو جزع، أو صدمة.
وفي النهاية، ننبِّه المفسِّرين على ضرورة الاحتراس الشديد عند التعامل مع هذه النوعيَّة من الرؤى عند المسلم الصالح – الذي هو محور حديثنا في إجابة هذا السؤال -، وقد رأينا ما لها من أحكام كثيرة ومعقَّدة.
واعلموا أنـَّه أهون علينا أن نبشِّر شخصًا فاسدًا بالخير بطريق الخطأ من أن نحزن مُسلِمًا مؤمنًا بطريق الخطأ. ومن جاءه مؤمن برؤيا سوء فقال له أنـَّها من الشيطان، فأخطأ، وتبيَّن أنـَّها صادقة، فقد أصاب أيضًا؛ لأنَّ ترويع وإخافة المسلم هي من الأمور الخطيرة والمنهيِّ عنها شرعًا. هذا بالإضافة إلى ما قد يسبِّبه تفسير الرؤيا على الشرِّ من زعزعة حُسن الظنِّ بالله (تعالى) عند بعض المسلمين.
أمَّا عن المسلم البسيط الذي قد يرى هذه الرؤى، ولا يعرف كيف يتعامل معها، ولا يثق في أيِّ شخص يمكن أن يسأله عنها، فلا أفضل له من تطبيق الوصايا النبويَّة في التعامل مع الرؤى المُحزنة والمفزعة، ولا أفضل له من الاستعاذة من قضاء السوء، وأن يسأل الله (عزَّ وجلَّ) العفو والعافية دينًا ودنيا، وهو (جلَّ جلاله) أفضل من دُعي وأكرم من أجاب.
والله (تعالى) أعلم.

Thursday, July 22, 2021

امارت ‏شرعیہ ‏، ‏جمعیت ‏علماء ‏ہند ‏اور ‏امیر ‏الھند

پہلے یہ سمجھ لیں کہ حکومت  (چاہے اسلامی ہو غیر اسلامی) اور عدلیہ کا نظام دونوں الگ ہوتے ہیں ۔ حکومت کی ذمہ داری عدلیہ کے نظام کو قائم کرنا اور اس کے فیصلوں کے نفاذ کے لیے ضرورت پڑنے پر قوت نفاذ فراہم کرنا ہے ۔ یہ قوت عدلیہ کے پاس نہیں ہوتی ، حکومت کے پاس ہوتی ہے ، اور حکومت کے ہاتھ میں نظام عدل نہیں ہوتا ، وہ عدلیہ کے پاس ہوتا ہے ۔ 
اگر آپ ایک اسلامی حکومت کا تصور کریں،  اور فرض کریں کہ کسی قاضی نے نکاح فسخ کیا، یا دو شخصوں کے مابین آپسی معاملہ میں ظلم و عدل کا فیصلہ کیا جس میں کوئی تعزیر یا حد نہیں ۔۔۔
تو ۔۔۔
ایسا فیصلہ قاضی کے فیصلہ کرتے ہی نافذ ہو جاتا ہے ۔ اس کے لیے کسی کوتوال،  سپہ سالار  یا گورنر کی منظوری ضروری نہیں ۔ خاص کر فریقین مان لیں تو پھر فیصلہ کے نافذ  ہونے میں کوئی رکاوٹ نہیں،  قوت نفاذ کے بغیر بھی وہ نافذ ہوگا ۔ 
اور اسی مسئلہ میں اگر کوئی فریق نہ مانے تو حکومت کی قوت نفاذ کا سہارا لے کر قاضی ، صاحب حق کو اس کا حق دلوائے گا ۔ 
پس 1۔  آپسی تنازعات کے وہ مسائل جو فریقین کے راضی ہونے پر قوت کے بغیر بھی نافذ ہو سکتے ہیں، اور 2  بعض وہ شرعی امور جس کے لیے شرعا فضاء قاضی ضروری ہے ، جیسے فسخ نکاح، ۔۔۔ ایسے معاملات میں شرعی تقاضے کو پورا کرنے کے لیے امارت کا نظام شروع کیا گیا ہے ۔
یہاں پھر سے ابتداء میں لکھی گئی بات ذہن نشین رکھے اور ساتھ میں یہ ملا لیں کہ اسلامی کہی جانے والی حکومتوں میں بھی اگر عدلیہ کے کسی فیصلے پر اسلامی کہی جانے والی حکومت تعاون نہ کرے ، نفاذ میں مدد فراہم نہ کرے تو بھی قاضی کا فیصلہ اپنی جگہ درست رہے گا اور ہر ایک پر دیانتا اس کا ماننا لازم ہے ۔ 
خلاصہ یہ ہوا کہ یہ ہندوستان مین امارت کا یہ نظام قضا کی ضرورتوں کو پورا کرنے کے لیے ہے ۔ امیر المؤمنین یا خلیفہ کہ طرح پوری مملکت یا معاشرہ کی تمام ذمہ داریوں کو احاطہ کرنے کے لیے نہیں ۔

Monday, May 17, 2021

جھاد، ‏مجاھد، ‏جھادی ‏تنظیمیں ‏اور ‏یھودی ‏سازش ‏کا ‏الزام

اس وقت حماس اور دیگر فلسطینی تنظیموں کو یہودی الہ کار یا ایجنٹ بتانے کا سلسلہ زور پر ہے ۔
لطف کی بات یہ ہے کہ ہر کس و ناکس اس پر اپنی رائے بلکہ حتمی فیصلہ سنا رہا ہے ۔
حقیقت یہ ہے کہ ایسی بڑی تنظیموں کے بارے ایسی دور از قیاس رائے قائم کرنا درست نہیں ۔
عجب یہ ہے کہ ایسی رائے کی بنیاد میں چند واقعات اور تخمینوں کو جوڑ کر خود ساختہ نتیجہ نکالنے کی کوشش ہوتی یے ۔ عالمی سیاست - بلکہ ملکی و دیہی سیاست کے نادیدہ کرداروں سے بھی ناواقف لوگ - ایسے مسائل میں اپنی علمی ،عملی اور ذہنی سطح سے بالا تر جا کر رائے زنی کرتے ہیں ۔ ایسی باتوں کی بنیاد بھی واٹساپ،  یو ٹیوب ، اور کچھ مضامین و مقالات ہوتے ہیں،  جن کے مصنف و مرتب بھی سطحی قسم کے لوگ ہوتے ہیں ۔ واٹساپ پر آنے سے کوئی خبر سچی نہیں ہو جاتی ۔ 
کچھ تصاویر جوڑ کر یو ٹیوب پر ویڈیو اپ لوڈ کرنا بچوں کا کھیل ہے ، اس سے کوئی خبر حقیقت نہیں بن جاتی ۔
*ماضی قریب میں دیکھیں تو اسامہ بن لادن ، ضیاء الحق،  سید احمد شہید ، تحریک آزادی میں حصہ لینے والے علماء دیوبند ، پاکستان کے حمایتی علماء اور متحدہ ہندوستان کے حمایتی علماء،  ہر ایک پر انگریز کے ایجنٹ ہونے کا الزام لگ چکا ہے* مذکورہ بالا ہر ایک موضوع پر لکھی گئی کتابیں آج بھی کتب خانوں میں،  بلکہ انٹرنیٹ پر بھی موجود ہیں ۔
یاد رکھئے !
 ہر موضوع اور فن تخصص چاہتا ہے ۔  چند کتابوں یا مضامین پڑھ لینے سے یا واقعات جوڑنے سے *واقفیت* کا زعم پالنا نادانی ہے ۔
اصول فقہ کی ایک آدھ  کتاب پڑھ لینے آدمی مجتہد نہیں بن جاتا ، طب کی چند معلومات بلکہ نرسنگ کا کورس کر لینے سے کوئی طبیب نہیں بن جاتا ۔ ایسے ہی چند عالمی واقعات کو اپنے زعم کے مطابق سمجھ لینے سے آدمی عالمی سیاست کا ماہر نہیں بن جاتا ۔ بد قسمتی سے علماء کرام آج کل اس غلط روش کے زیادہ شکار ہیں ۔ علماء کا اپنا ایک تخصص کا میدان ہے ۔ اس میں تخصص تک پہنچنے میں انہیں کس قدر محنت صرف کرنی پڑی ہے وہ خود جانتے ہیں،  بس یہی حال دوسرے میدانوں اور موضوعات کا ہے ۔
ہمیں سوچنے کی ضرورت ہے کہ کہیں اس طرح ہم خود یہود کی سازش کا شکار تو نہیں ہو رہے ؟ ہمیں اپنی جماعتوں،  تنظیموں اور قائدین سے بد گمان کرنے اور ایک دوسرے کو آپسی اعتماد و تعاون سے کاٹنے میں ان کی سازش کو ہم خود کامیاب نہیں بنا رہے ہیں؟
متحدہ مقاصد کے لیے ، بلکہ خالص اپنے مفاد کے لیے متحدہ دشمن سے ، بلکہ دشمن کے ہی کسی فرد سے مدد لینا ۔۔ غلط نہیں ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہود سے قرضے بھی لیے تھے اور ہتھیار بھی عاریت لیے تھے ۔ 
افغانوں نے روس کو ہرانے کے لیے امریکہ و یورپ سے بھر پور مدد لی تھی ، اور آج جب وہ امریکہ سے پر سر پیکار ہیں تو روس سے مدد لے رہے ہیں اور ایران سے بھی ان کے *اچھے تعلقات* ہیں ۔ 
ہم لوگ ایک طرف بھارت سے مطالبہ کرتے ہیں کہ فلسطین کی حمایت کرے ، مان لیجئے اگر بھارت ان کی حمایت کر دے ، فوج بھی بھیج دے!!! تو پاکستان والے کہیں گے کہ فلسطینی مجاہد تو ہندو برہمن کے ایجنٹ ہیں ۔ 
طیب اردگان ہمارے ہیرو ہیں ۔ فلسطینیوں کے حق میں کھل کر بولتے ہیں، زور سے بولتے ہیں ۔ مگر اسرائیل سے ان کے سفارتی تعلقات بہت اچھے ہیں، کچھ سالوں پہلے ان کے سفینہ آزادی فریڈم فلوریتا پر اسرائیلی کاروائی کے بعد کشیدہ ہوئے تعلقات اب بحال ہو گئے ہیں،  مگر پھر بھی وہ یقینا فلسطینیوں کے سچے حمایتی ہیں ۔ 
ایسی سینکڑوں مثالیں ہیں ۔ اور حقائق سمجھے بغیر رطب  و یابس ہر قسم کی باتوں پر یقین کرنا اور پھر اس کے قائل بن جانا اور پھر اس کے داعی اور مؤید بن جانا سمجھ داروں کا شیوہ نہیں ۔
*اس طرح کے مضامین پڑھنے سے سمجھ میں آتا ہے کہ ایسے لوگ خود سوشل میڈیا کے پروپیگنڈا کے شکار ہیں، یاد رہے سوشل میڈیا کچھ لینے کے لیے نہیں،  دینے کے لیے ہیں ۔ اور آدمی وہی چیز دے سکتا ہے جو اس کے پاس وافر مقدار میں موجود ہو ۔ ہم اگر سوشل میڈیا پر آنے والی باتوں کو ہی اپنے علم کی بنیاد بنا کر کچھ کہیں گے تو یہ سوشل میڈیا کا شکار ہونا کہا جائے گا ۔ اور یقینا یہ خطرناک چیز ہے۔*

Friday, May 7, 2021

ٹیچر کسے کہتے ہیں؟

ٹیچر کسے کہتے ہیں؟

ﺁﭖ ﮐﮯ ﻧﺰﺩﯾﮏ ﺍﯾﮏ ٹیچر ﮐﯽ ﺗﻌﺮﯾﻒ ﮐﯿﺎ ﮨﮯ؟
ﮨﻢ ﻣﯿﮟ ﺳﮯ اکثر ﮐﺎ ﺟﻮﺍﺏ ﮨﻮﮔﺎ ﮐﮧ ٹیچر ﻭﮦ ﮨﮯ ﺟﻮ ﮨﻤﯿﮟ ﭘﮍﮬﺎﺗﺎ ﮨﮯ , ﺳﮑﮭﺎﺗﺎ ﮨﮯ ....
ﺁﭖ ﮐﺎ ﺟﻮﺍﺏ ﺩﺭﺳﺖ ﮨﮯ , ﻣﮕﺮ Teacher ﮐﯽ ﺩﻭﺭِ ﺟﺪﯾﺪ ﮐﯽ , ﻣﺎﮈﺭﻥ Definition ﮐﯿﺎ ﮨﮯ؟
ﺗﻮ ﻭﮦ definition ﮐﭽﮫ ﯾﻮﮞ ﮨﮯ ﮐﮧ
*TEACHER is equal to Motivator*۔۔
ﺍﮔﺮ ﭨﯿﭽﺮ Motivate ﻧﮩﯿﮟ ﮐﺮﺗﺎ ﻭﮦ ﭨﯿﭽﺮ ﻧﮩﯿﮟ ﮨﮯ , ﭘﮍﮬﺎ ﺩﯾﻨﺎ , ﺑﺘﺎﺩﯾﻨﺎ , ﺳمجھا دینا ﮨﯽ ﮐﺎﻓﯽ ﻧﮩﯿﮟ ﮨﮯ , ﺍﯾﮏ Spark ﭘﯿﺪﺍ ﮐﺮﻧﺎ will, ﭘﯿﺪﺍ ﮐﺮﻧﺎﯾﮧ ﺍﺻﻞ ﮐﺎﻡ ﮨﮯ .
ﺗﺮﻗﯽ ﯾﺎﻓﺘﮧ ﻣﻤﺎﻟﮏ ﻣﯿﮟ ﭨﯿﭽﻨﮓ ﮐﺎ ﺑﺎﻗﺎﻋﺪﮦ licence ( ﺍﺟﺎﺯﺕ ﻧﺎﻣﮧ ) ﻟﮯ ﮐﺮ Teach ﮐﺮ ﺳﮑﺘﮯ ﮨﯿﮟ 
ﺍﺏ ﺍﺱ Teaching licence ﮐﻮ ﺍﯾﺸﻮ ﮐﺮﻧﮯ ﺳﮯ ﭘﮩﻠﮯ 6 ﻣﯿﺠﺮ ﮐﻮﺍﻟﭩﯿﺰ ﮐﻮ ﭼﯿﮏ ﮐﯿﺎ ﺟﺎﺗﺎ ﮨﮯ ...

.1 Subject Grip

ﺟﺲ ﮐﯽ ﺍﭘﻨﮯ ﻣﻄﻠﻮﺑﮧ ﺳﺒﺠﯿﮑﭧ ﭘﺮ ﮐﻤﺎﻧﮉ ﮨﮯ ﻭﮦ ﺍﯾﮏ ﺍﭼﮭﺎ ﭨﯿﭽﺮ ﮨﮯ ﻭﯾﺴﮯ ﯾﮧ ﺑﺎﺕ ﺗﻮ ﮨﻤﺎﺭﮮ ﮨﺎﮞ ﺑﮭﯽ common ﮨﮯ . ﻟﯿﮑﻦ ﺗﺮﻗﯽ ﯾﺎﻓﺘﮧ ﻣﻤﺎﻟﮏ ﻣﯿﮟ ﺁﭘﮑﯽ ﺳﺒﺠﯿﮑﭧ ﮔﺮﭖ ﮐﮯ ﺳﺎﺗﮫ ﺳﺎﺗﮫ ﺍﺱ ﭼﯿﺰ ﮐﻮ ﺑﮭﯽ ﻓﻮﮐﺲ ﮐﯿﺎ ﺟﺎﺗﺎ ﮨﮯ ﮐﮧ ﮐﯿﺎ ﺁﭘﮑﯽ ﺳﺒﺠﯿﮑﭧ ﮔﺮﭖ Upgraded ﺑﮭﯽ ﮨﮯ ؟
ﻋﻤﻮﻣﯽ ﻃﻮﺭ ﭘﺮ ﻭﮨﯽ knowledge ﮨﻢ carry ﮐﺮ ﺭﮨﮯ ﮨﻮﺗﮯ ﮨﯿﮟ ﺟﻮ ﺁﺧﺮﯼ ﮈﮔﺮﯼ ﻣﯿﮟ ﺣﺎﺻﻞ ﮐﯿﺎ ﮨﻮﺗﺎ ﮨﮯ ...

.2 Communication Skills

ﯾﮧ ﺑﮩﺖ important ﭘﻮﺍﺋﻨﭧ ﮨﮯ , ﮐﻤﯿﻮﻧﯿﮑﺸﻦ skill ﮐﺎ ﻣﻄﻠﺐ ﮐﮧ ﺁﭖ ﮐﮯ ﭘﺎﺱ ﯾﮧ ﻓﻦ ﮨﻮﻧﺎ ﭼﺎﮨﯿﮯ ﮐﮧ ﺁﭖ ﺩﻭﺳﺮﮮ ﺑﻨﺪﮮ ﮐﯽ ﺳﻄﺢ ﭘﺮ ﺁﮐﺮ ﺍﺳﮑﻮ ﺳﻤﺠﮭﺎﺋﯿﮟ .

.3 Social Genius

ﺍﺱ ﺧﺎﺹ terminology ﮐﺎ ﻣﻄﻠﺐ ﮨﮯ ﮐﮧ ﺍﺱ ﺑﻨﺪﮮ ﻣﯿﮟ ﮔﮭﻠﻨﮯ ﻣﻠﻨﮯ ﮐﯽ ﺻﻼﺣﯿﺖ ﮨﻮ , ﻣﻠﻨﺴﺎﺭ ﮨﻮﻧﺎ . ﺍﯾﮏ ﺑﻨﺪﮮ ﮐﺎ ﮐﺎﻡ ﮨﯽ ﺑﭽﻮﮞ ﮐﮯ ﺳﺎﺗﮫ ﮨﮯ ﺍﻥ ﮐﻮ ﺳﮑﮭﺎﻧﮯ ﮐﺎ ﮐﺎﻡ ﮨﮯ , ﺍﮔﺮ ﻭﮦ ﺑﭽﻮﮞ ﮐﻮ ﮨﯽ ﭘﺴﻨﺪ ﻧﮩﯽ ﮐﺮﺗﺎ ﺗﻮ ﻭﮦ ﮐﺒﮭﯽ ﺍﭼﮭﺎ ﭨﯿﭽﺮ ﻧﮩﯿﮟ ﮨﻮﺳﮑﺘﺎ .

4. Motivation
ﭨﯿﭽﺮ ﻣﯿﮟ motivation ﻧﮩﯿﮟ ﮨﮯ , ﺟﺬﺑﮧ ﻧﮩﯿﮟ ﮨﮯ *spark*, ﻧﮩﯿﮟ ﮨﮯ ﺗﻮ ﻭﮦ ﭨﯿﭽﺮ ﻧﮩﯿﮟ ﺑﻦ ﺳﮑﺘﺎ .

.5 A True Learner
ﺳﯿﮑﮭﻨﮯ ﮐﺎ ﺷﻮﻕ ﻻﺯﻣﯽ ﮨﻮ , ﺍﮔﺮﺁﭖ ﻣﯿﮟ ﻋﻠﻢ ﺳﯿﮑﮭﻨﮯ ﮐﯽ ﭘﯿﺎﺱ ﻧﮩﯿﮟ ﮨﮯ ﺗﻮ ﺁﭖ ﮐﺴﯽ ﺩﻭﺳﺮﮮ ﮐﻮ ﮐﯿﺎ  علم کا ﭘﯿﺎﺳﺎ ﺑﻨﺎﺋﯿﮟ ﮔﯿﮟ ؟

.6 Progressive Attitude

ایک ٹیچر کے لیے ﺁﮔﮯ ﺑﮍﮬﻨﮯ ﻭﺍﻻ ﺍﻧﺴﺎﻥ ﮨﻮﻧﺎ ﻻﺯﻣﯽ ﮨﮯ , ﮐﯿﻮﻧﮑﮧ ﭨﯿﭽﺮ ﻭﮦ ﮨﮯ جو ﺍﺱ ﻗﻮﻡ ﮐﻮ ﺁﮔﮯ ﺑﮍﮬﺎئے گا, ﺍﮔﺮ ﻭﮦ ﺧﻮﺩ ﺁﮔﮯ ﺑﮍﮬﻨﮯ ﻭﺍﻻ ﻧﮩﯿﮟ ﮨﮯ ﺗﻮ وہ ﻗﻮﻡ ﮐﻮﮐﯿﺎ ﺁﮔﮯ ﺑﮍﮬﺎئے گا ؟

Monday, August 12, 2019

دماغ کے لیے تباہ کن 8 عادتیں

دماغ کے لیے تباہ کن 8 عادتیں

عمر بڑھنے کے ساتھ ہمارا دماغ تنزلی کا شکار ہونے لگتا ہے، ہم چیزیں بھولنے لگتے ہیں اور معمے حل کرنا ماضی جیسا آسان کام نہیں رہتا۔ گرچہ بڑھاپے کے عمل کو واپسی کا راستہ دکھانا تو ممکن نہیں مگر اپنے ذہن کو ضرور ہم ہر عمر کے مطابق فٹ رکھ سکتے ہیں۔مگر کچھ عادتیں ایسی ہوتی ہیں جو دماغ کے لیے تباہ کن ثابت ہوتی ہیں اور ذہنی تنزلی کی جانب سفر تیز ہوجاتا ہے۔

رات گئے سونا یا کم نیند:
دماغ کے لیے تباہ کن عادات میں سے ایک نیند کی کمی یا رات گئے سونا ہے جو کہ ڈیمینشیا اور الزائمر امراض کا خطرہ بڑھاتی ہے، اگر رات کو 7 سے آٹھ گھنٹے کی نیند پوری نہ کی جائے تو یہ خطرہ بڑھ جاتا ہے اور بدقسمتی سے آج کل بیشتر افراد اس بری عادت کے شکار ہیں، ماہرین کے مطابق رات کو صحیح نیند نہیں آتی تو چائے یا کافی جیسے مشروبات سے گریز اور سونے سے کچھ دیر پہلے اسمارٹ فونز کا استعمال ترک کردینا چاہئے۔

تنہا زیادہ وقت گزارنا:
انسان میل ملاقات کو پسند کرتے ہیں، فیس بک پر چاہے کتنے بھی زیادہ دوست ہو مگر حقیقی زندگی میں کوئی دوست نہ ہونا دماغ کے لیے مضر ثابت ہوتا ہے، ایک تحقیق کے مطابق چند قریبی دوست زندگی کو خوش باش اور کیرئیر میں زیادہ بامقصد کام کرنے میں مدد دیتے ہیں، اسی طرح دماغی تنزلی اور الزائمر جیسے امراض کا خطرہ بھی کم ہوجاتا ہے۔

جنک فوڈ کا زیادہ استعمال:
دماغ کے وہ حصے سیکھنے، یاداشت اور دماغی صحت وغیرہ کے لیے ہوتے ہیں، ان کا حجم ایسے افراد میں بہت چھوٹا ہوتا ہے جو جنک فوڈ جیسے برگرز، فرنچ فرائز اور سافٹ ڈرنکس کے شوقین ہوتے ہیں، دوسری جانب بیریاں، اجناس، گریاں اور سبز پتوں والی سبزیاں دماغی افعال کو محفوظ رکھنے میں مددگار ثابت ہونے والی غذائیں ہیں۔

کانوں میں ہر وقت ہیڈ فون لگے رہنا:
جب کانوں کے پردے میں ہیڈفونز کا شور سنائی دے تو سننے کی سماعت متاثر ہونے کا خطرہ ہوتا ہے، مگر معاملہ صرف کانوں تک ہی محدود نہیں بلکہ یہ دماغی مسائل جیسے الزائمر اور دماغی ٹشوز ختم ہونے وغیرہ کا سبب بھی بن سکتا ہے۔ جس کی وجہ یہ ہوتی ہے کہ حس سماعت متاثر ہونے سے دماغ کو بات سمجھنے کے لیے بہت زیادہ محنت کرنا پڑتی ہے اور باتیں یاداشت میں محفوظ نہیں ہوتیں۔ تو ہیڈفونز کو ضرور لگائیں مگر ان کا والیوم 60 فیصد سے زیادہ نہ کریں اور ایک وقت میں دو گھنٹے سے زیادہ وقت تک انہیں کانوں پر نہ لگائیں۔

سست طرز زندگی:
جتنا آپ جسمانی سرگرمیوں سے دور ہوتے ہیں، اتنا ہی دماغی تنزلی کے مرض ڈیمینشیا کا خطرہ بڑھ جاتا ہے، اس کے علاوہ ذیابیطس، امراض قلب اور ہائی بلڈ پریشر جیسے امراض کا خطرہ بھی ہوتا ہے اور یہ سب الزائمر سے بھی جڑے ہوتے ہیں۔ ہفتے میں تین بار کچھ منٹ کی تیز چہل قدمی بھی اس خطرے سے بچانے میں مددگار ثابت ہوتی ہے۔

تمباکو نوشی:
تمباکو نوشی کے نتیجے میں دماغ سکڑ جاتا ہے اور یہ کوئی اچھی چیز نہیں، اس کے نتیجے میں یاداشت بدترین ہوتی ہے اور دماغی امراض کا خطرہ دوگنا زیادہ بڑھا جاتا ہے، تمباکو نوشی کے دیگر نقصانات کے بارے میں بتانا ضروری نہیں جو دل کے امراض، ذیابیطس، فالج اور ہائی بلڈ پریشر کا باعث بھی بن سکتے ہیں۔

حد سے زیادہ کھانا:
اگر آپ بہت زیادہ کھانا کھاتے ہیں چاہے وہ صحت کے لیے ضروری غذائیں ہی کیوں نہ ہو، آپ کا دماغ سوچنے اور یاد رکھنے کے لیے مضبوط نیٹ ورک کو تشکیل دینے کے قابل نہیں رہتا، حد سے زیادہ کھانا خطرناک حد تک جسمانی وزن بڑھا سکتا ہے جس کے نتیجے میں امراض قلب، ذیابیطس اور ہائی بلڈ پریشر جیسے امراض کا خطرہ بڑھتا ہے جو آگے بڑھ کر دماغی مسائل کا باعث بنتے ہیں۔

سورج سے دوری:
اگر آپ کے جسم کو مناسب مقدار میں قدرتی روشنی نہیں ملتی تو ڈپریشن کا خطرہ تو بڑھتا ہی ہے اس کے ساتھ ساتھ دماغ کی رفتار بھی سست روی کا شکار ہوسکتی ہے، تحقیق کے مطابق سورج کی روشنی دماغ کو ٹھیک طرح کام کرنے میں مدد دیتی ہے۔
٭٭•┈••✦✿✦••┈•٭٭
بشکریہ :
https://telegram.me/tibbimalumaat
٭٭•┈••✦✿✦••┈•٭٭