BEST RESULT

Custom Search

Saturday, September 24, 2016

پہلی چوری اور پہلا گناہ

پہلی چوری​ اور پہلا گناہ

حضرت ابوبکر صدیق رضی اﷲعنہ کے پاس ایک چورلایاگیا۔
جرم ثابت ہونے پر آپ نے حکم دیا کہ اسکا ہاتھ کاٹ دیاجائے۔
حضرت ابوبکر صدیق رضی اﷲعنہ نہایت رفیق القلب تھے،چور نے انکی طرف دیکھا عرض کی؛
خلیفہ رسول ! میرے اوپر رحم کیجیے۔ درگزر فرمائیے۔ میں نے اس سے پہلے کبھی چوری نہیں کی۔
ابوبکر صدیق رضی اﷲعنہ نے فرمایاۛۛ:
"تو جھوٹ بولتاہےکہ میری پہلی چوری ہے،اس ذات کی قسم جسکے ہاتھ میں میری جان ہے اﷲ اپنے بندے کے پہلے جرم اور گناہ پر اسکو کبھی سزا نہیں دیتا۔"
---------    ---------  ----------
انس بن مالک رضی اﷲ عنہ بیان کرتے ہیں عمر بن خطاب رضی اﷲ عنہ کے پاس ایک چور لایاگیا۔اس نے کہا:
'اﷲ کی قسم!اس سے پہلے میں نے کبھی چوری نہیں کی۔'
عمر بن خطاب رضی اﷲ عنہ نے فرمایا؛
توجھوٹا ہے عمر کے رب کی قسم!اﷲتعالی اپنے بند کے پہلے گناہ کی بدولت اسے کبھی نہیں پکڑتا۔
اس مجلس میں حضرت علی رضی اﷲ عنہ بھی موجود تھے۔انھوں نے فرمایا کہ اﷲ تعالی بہت زیادہ حلیم وبردبارہے اور وہ اپنے بندے کو پہلے گناہ کی بدولت نہیں پکڑتا کیونکہ وہ تو رحیم اور کریم ہے۔حضرت عمر فاروق رضی اﷲ عنہ نے اپنا فیصلہ سنایا اور چور کا ہاتھ کاٹ دیا۔
ہاتھ کٹنے کے بعد حضرت علی رضی اﷲ عنہ اس چور کے پاس گئے اور پوچھا :
"تمہیں اﷲ کی قسم دےکر پوچھتاہوں کتنی مرتبہ چوری کے مرتکب ہوئے ہو؟"
اس نے کہا؛اکیس مرتبہ ۔
(سنہرے فیصلے)​

گھر کے لئے ضابطہ و دستور بنائیے

گھر کیلئے بھی ویسا ہی ایک دستور اور قانون ہو
جیسے کسی ریاست یا ملک کیلئے ہوتا ہے۔
--------------------------------
ڈاکٹر عبدالکریم بکار صاحب شامی شہری ہیں اور معاشرے میں ذات و اجتماعی تعلق/تربیت اور اسلامی احیاء پر ریسرچر ہیں، دنیا بھر میں اپنے منفرد مقالات کی بناء پر جانے پہچانے جاتے ہیں، اسی موضوع پر چالیس سے زیادہ کتابوں کے مولف ہیں، سعودی عرب کی ہر یونیورسٹی میں پڑھا چکے ہیں۔ کئی ٹی وی چینلز پر اپنے اختیار کردہ شعبے کے بانی اور سینکڑوں رسالوں اور اخبارات کی جان ہیں ہیں۔ آپ کہتے ہیں:

والدین ہرگز ہرگز اس بات کے انتظار میں نا رہیں کہ تربیت گاہیں اپنے فرائض پورے کر کے ان کی اولاد کو اچھا شہری بنائیں، انہیں خود اس ذمہ داری کو پورا کرنا ہوگا کہ انفرادی طور پر اپنے بچوں کو معاشرے کا ذمہ دار فرد بنائیں۔

کیا ہی اچھا ہو کہ والدین گھروں میں ہی کچھ ایسے ہلکے پھلکے قانون بنا دیں جن پر عمل کر کے بچوں کے کردار میں پختگی آئے اور ان میں احساس ذمہ داری پیدا ہو۔

ساتھ ہی انہوں نے اس ضمن میں چند لوائح العمل تیار کیئے ہیں، والدین کو ان میں جو مناسب لگیں وہ اختیار کرلیں یا ان میں ترمیم و اضافہ کر لیں۔

01: گھر کا ہر فرد نماز کو اس کے وقت پر ادا کرے گا۔

02: "برائے مہربانی" اور "شکریہ" کے کلمات بنیادی ضوابط ہونگے جن سے کوئی بھی بری نہیں ہوگا۔

03: کوئی "مار پٹائی"، کوئی "گالم گلوچ" یا کوئی بھی "لعن طعن" والی ایسی بات نہیں ہوگی جس سے بدذوقی کا احساس ہو۔

04: اپنے محسوسات اور خیالات کو ادب و احترام اور وضاحت کے ساتھ بتا دیجیئے۔

05: جو کوئی بھی جس جس چیز کو (دروازہ، کھڑکی، ڈبہ، پلیٹ) کھولے گا اُسے بند بھی کرے گا، کچھ گر جائے تو اُسے اٹھائے گا اور جگہ کو اُس سے زیادہ صاف کر کے رکھے گا جیسے پہلے تھی۔

06: آپ کا کمرہ خالص آپ کی ذمہ داری ہے۔

07: جو کوئی بات کرے گا اُسے ٹوکے بغیر سنی جائے گی اور بات کو درمیان میں سے کوئی نہیں کاٹے گا۔ 

08: گھر میں داخل اور خارج ہوتے ہوئے سلام کرنا ہوگا۔

09: گھر کا ہر فرد روزانہ قرآن مجید سے ایک حزب 
(منزل) کی تلاوت کرے گا۔

10: جو ہم سے ملنے آئے وہ ہمارے قوانین کا احترام کرے۔

11: گھر کا کوئی بھی فرد اپنے کمروں میں جا کر کچھ نہیں کھائے گا۔

12: رات کو (00:00) کے بعد کوئی بھی نہیں جاگے گا۔

13:وائی فائی، سمارٹ فون اور ڈیوائسز صرف (00:00) سے لیکر (00:00) کے درمیان میں استعمال کی جا سکتی ہیں۔

14: والدین کیلیئے احتراما کھڑا ہونا، اُن کے سر پر بوسہ دینا یا اُن کے ہاتھ چومنا ضروری شمار ہوگا۔

15: مل کر بیٹھنے کے وقت میں کسی قسم کی مواصلاتی ڈیوائس (فون/پیڈ/لیپ ٹاپ) کا استعمال منع ہوگا۔

16: کھانے پینے کے وقت میں سب کی حاضری اور شمولیت ضروری ہوگی۔

17: رات کو (00:00) کے بعد کسی قسم کی تعلیمی سرگرمی کی بھی اجازت نہیں ہوگی۔

18: گھر کے سارے افراد گھر اور گھر میں موجود ہر شئے کی حفاظت کے ذمہ دار ہیں۔

19: اپنا کام ہر کوئی خود کرے گا، کوئی کسی دوسرے پر حکم نہیں جھاڑے گا ہاں مگر گھر کے سربراہان اپنا کام کسی کو کہہ سکتے ہیں۔

20: خاندان اور اُس کی ضروریات کسی بھی دوسری ضرورت پر مقدم اور پہلے کی جانے والی شمار ہونگی۔

21: کوئی بھی کسی کے کمرے یا علیحدگی والی جگہ پر درزاہ کھٹکھٹائے یا اس کی اجازت کے بغیر داخل نہیں ہوگا۔

ڈاکٹر محمد راتب نابلسی کہتے ہیں کہ میں نے اس مضمون کو بہت ہی مفید پایا ہے۔ والدین کو چاہیئے کہ اسے اہمیت دیں کیونکہ اولاد کی تربیت ایک ایسا مشکل کام ہے جسے ہفتے کے سات دن اور دن کے چوبیس گھنٹے کرنا ہوتا ہے۔

۔۔ منقول ۔۔