BEST RESULT

Custom Search

Saturday, August 27, 2016

بچوں کی جنسی تربیت کیسے کریں؟


بچوں کی جنسی تربیت کیسے کریں؟

ہم سب اس الجھن کا شکار ہیں کہ
بچوں اور نوجوانوں کو جنسی تعلیم دینی چاہئے یا نہیں؟

اس موضوع پہ اب الیکٹرانک اور سوشل میڈیا پر بحث و مباحثے ہو رہے ہیں.مگر ابھی تک کسی حتمی نتیجے پر نہیں پہنچ سکے. یہ بات طے ہے کہ الیکٹرانک و پرنٹ میڈیا اور سیکولر و لبرل طبقہ ہمارے بچوں کی اس معاملے میں جس قسم کی تربیت کرنا چاہتا ہے یا کر رہا ہے وہ ہر باحیا مسلمان کے لیے ناقابل قبول ہے. مگر یہ بھی ضروری ہے کہ نوعمر یا بلوغت کے قریب پہنچنے والے بچوں اور بچیوں کو اپنے وجود میں ہونے والی تبدیلیوں اور دیگر مسائل سے آگاہ کیا جائے ورنہ حقیقت یہ ہے کہ اگر گھر سے بچوں کو اس چیز کی مناسب تعلیم نہ ملے تو وہ باہر سے لیں گے جو کہ گمراہی اور فتنہ کا باعث بنے گا. چند فیصد لبرل مسلمانوں کو چھوڑ کر ہمارے گھروں کے بزرگوں کی اکثریت آج کی نوجوان نسل میں بڑھتی بے راہ روی سے پریشان ہے. وہ لوگ جو اپنے گھرانوں کے بچوں کے کردار کی بہترین تربیت کے خواہشمند ہیں، انکی خدمت میں کچھ گزارشات ہیں جن سے ان شاءاللّہ تعالیٰ آپ کے بچوں میں پاکیزگی پیدا ہوگی.

1- بچوں کو زیادہ وقت تنہا مت رہنے دیں
آج کل بچوں کو ہم الگ کمرہ، کمپیوٹر اور موبائل جیسی سہولیات دے کر ان سے غافل ہو جاتے ہیں…. یہ قطعاً غلط ہے. بچوں پر غیر محسوس طور پر نظر رکھیں اور خاص طور پر انہیں اپنے کمرے کا دروازہ بند کر کے بیٹھنے مت دیں. کیونکہ تنہائی شیطانی خیالات کو جنم دیتی ہے. جس سے بچوں میں منفی خیالات جنم لیتے ہیں اور وہ غلط سرگرمیوں کا شکار ہونے لگتے ہیں.

2- بچوں کے دوستوں اور بچیوں کی سہیلیوں پہ خاص نظر رکھیں* تاکہ آپ کے علم میں ہو کہ آپکا بچہ یا بچی کا میل جول کس قسم کے لوگوں سے ہے.

3- *بچوں بچیوں کے دوستوں اور سہیلیوں کو بھی ان کے ساتھ کمرہ بند کرکے مت بیٹھنے دیں.* اگر آپ کا بچہ اپنے کمرے میں ہی بیٹھنے پر اصرار کرے تو کسی نہ کسی بہانے سے گاہے بہ گاہے چیک کرتے رہیں.

4- بچوں کو فارغ مت رکھیں.
فارغ ذہن شیطان کی دکان ہوتا ہے اور بچوں کا ذہن سلیٹ کی مانند صاف ہوتا ہے. بچپن ہی سے وہ عمر کے اس دور میں ہوتے ہیں جب انکا ذہن اچھی یا بری ہر قسم کی چیز کا فوراً اثر قبول کرتا ہے. اس لیے انکی دلچسپی دیکھتے ہوئے انہیں کسی صحت مند مشغلہ میں مصروف رکھیں. ٹی وی وقت گزاری کا بہترین مشغلہ نہیں بلکہ سفلی خیالات جنم دینے کی مشین ہے اور ویڈیو گیمز بچوں کو بے حس اور متشدد بناتی ہیں.

5- ایسے کھیل جن میں جسمانی مشقت زیادہ ہو وہ بچوں کے لیے بہترین ہوتے ہیں تاکہ بچہ کھیل کود میں خوب تھکے اور اچھی، گہری نیند سوئے.

6- بچوں کے دوستوں اور مصروفیات پر نظر رکھیں.
یاد رکھیں والدین بننا فل ٹائم جاب ہے. اللّہ تعالیٰ نے آپکو اولاد کی نعمت سے نواز کر ایک بھاری ذمہ داری بھی عائد کی ہے.

7- بچوں کو رزق کی کمی کے خوف سے پیدائش سے پہلے ہی ختم کردینا ھی قتل کے زمرے میں نہیں آتا بلکہ اولاد کی ناقص تربیت کرکے انکو جہنم کا ایندھن بننے کے لئے بے لگام چھوڑ دینا بھی انکے قتل کے برابر ہے.

8- اپنے بچوں کو نماز کی تاکید کریں اور ہر وقت پاکیزہ اور صاف ستھرا رہنے کی عادت ڈالیں. کیونکہ جسم اور لباس کی پاکیزگی ذہن اور روح پر بھی مثبت اثرات مرتب کرتی ہے.

9- بچیوں کو سیدھا اور لڑکوں کو الٹا لیٹنے سے منع کریں.
حضرت عمر رضی اللّہ تعالیٰ اپنے گھر کی بچیوں اور بچوں پر اس بات میں سختی کرتے تھے. ان دو پوسچرز میں لیٹنےسے سفلی خیالات زیادہ آتے ہیں. بچوں کو دائیں کروٹ سے لیٹنے کا عادی بنائیں.

10- بلوغت کے نزدیک بچے جب واش روم میں معمول سے زیادہ دیر لگائیں تو کھٹک جائیں اور انہیں نرمی سے سمجھائیں. اگر ان سے اس معاملے میں بار بار شکایت ہو تو تنبیہ کریں. لڑکوں کو انکے والد جبکہ لڑکیوں کو ان کی والدہ سمجھائیں.

11- بچوں کو بچپن ہی سے اپنے مخصوص اعضاء کو مت چھیڑنے دیں. یہ عادت آگے چل کر بلوغت کے نزدیک یا بعد میں بچوں میں اخلاقی گراوٹ اور زنا کا باعث بن سکتی ہے.

12- بچوں کو اجنبیوں سے گھلنے ملنے سے منع کریں. اور اگر وہ کسی رشتہ دار سے بدکتا ہےیا ضرورت سے زیادہ قریب ہے تو غیر محسوس طور پر پیار سے وجہ معلوم کریں.* بچوں کو عادی کریں کہ کسی کے پاس تنہائی میں نہ جائیں چاہے رشتہ دار ہو یا اجنبی اور نہ ہی کسی کو اپنے اعضائے مخصوصہ کو چھونے دیں.

13- بچوں کا 5 یا 6 سال کی عمر سے بستر اور ممکن ہو تو کمرہ بھی الگ کر دیں تاکہ انکی معصومیت تا دیر قائم رہ سکے.

14- بچوں کے کمرے اور چیزوں کو غیر محسوس طور پر چیک کرتے رہیں. آپ کے علم میں ہونا چاہیے کہ آپ کے بچوں کی الماری کس قسم کی چیزوں سے بھری ہے. مسئلہ یہ ہے کہ آج کے دور میں پرائویسی نام کا عفریت میڈیا کی مدد سے ہم پر مسلط کر دیا گیا ہے
اس سے خود کو اور اپنے بچوں کو بچائیں. کیونکہ نوعمر بچوں کی نگرانی بھی والدین کی ذمہ داری ہے. یاد رکھیں آپ بچوں کے ماں باپ ہیں، بچے آپکے نہیں. آج کے دور میں میڈیا والدین کا مقام بچوں کی نظروں میں کم کرنے کی سرتوڑ کوشش کر رہا ہے. ہمیں اپنے بچوں کو اپنے مشفقانہ عمل سے اپنی خیرخواہی کا احساس دلانا چاہیے اور نوبلوغت کے عرصے میں ان میں رونما ہونے والی جسمانی تبدیلیوں کے متعلق رہنمائی کرتے رہنا چاہیے تاکہ وہ گھر کے باہر سے حاصل ہونے والی غلط قسم کی معلومات پہ عمل کرکے اپنی زندگی خراب نہ کر لیں.

15- بچوں کو بستر پر تب جانے دیں جب خوب نیند آ رہی ہو. اور جب وہ اٹھ جائیں تو بستر پر مزید لیٹے مت رہنے دیں.

16- والدین بچوں کے سامنے ایک دوسرے سے جسمانی بے تکلفی سے پرہیز کریں. ورنہ بچے وقت سے پہلے ان باتوں کے متعلق با شعور ہو جائیں گے جن سے ایک مناسب عمر میں جا کر ہی آگاہی حاصل ہونی چاہئے . نیز والدین بچوں کو ان کی غلطیوں پہ سر زنش کرتے ہوئے بھی با حیا اور مہذب الفاظ کا استعمال کریں. ورنہ بچوں میں وقت سے پہلے بے باکی آ جاتی ہے جس کا خمیازہ والدین کو بھی بھگتنا پڑتا ہے.

17- تیرہ، چودہ سال کے ہوں تو لڑکوں کو انکے والد اور بچیوں کو انکی والدہ سورۃ یوسف اور سورۃ النور کی تفسیر سمجھائیں. یا کسی عالم ، عالمہ سے پڑھوائیں. کہ کس طرح حضرت یوسف علیہ السلام نے بے حد خوبصورت اور نوجوان ہوتے ہوئے ایک بے مثال حسن کی مالک عورت کی ترغیب پر بھٹکے نہیں. اس طرح بچے بچیاں انشاءاللّہ تعالیٰ اپنی پاکدامنی کو معمولی چیز نہیں سمجھیں گے اور اپنی عفت و پاکدامنی کی خوب حفاظت کریں گے.

آخر میں گذارش یہ ہے کہ ان کے ذہنوں میں بٹھا دیں کہ اس دنیا میں حرام سے پرہیز کا روزہ رکھیں گے تو انشاءاللّہ تعالیٰ آخرت میں اللّہ سبحان وتعالیٰ کے عرش کے سائے تلے حلال سے افطاری کریں گے.

اللّہ تعالیٰ امت مسلمہ کے تمام بچوں کی عصمت کی حفاظت فرمائے اور ان کو شیطان اور اس کے چیلوں سے اپنی حفظ و امان میں رکھے.!!!

آمین ثم آمین یا رب العالمین!

●●● منقول۔۔۔

Thursday, August 18, 2016

علماء ومصلحین امت اور ان کے فتنے

*علماء ومصلحین امت اور ان کے فتنے*

از قلم : محدث العصر حضرت مولانا سید محمد یوسف بنوری رحمہ اللہ 

سب سے بڑا صدمہ اس کا ہے کہ مصلحین کی جماعتوں میں جو فتنے آج کل رونما ہورہے ہیں‘ نہایت خطرناک ہیں‘ تفصیل کا موقعہ نہیں‘ لیکن فہرست کے درجہ میں چند باتوں کا ذکر ناگزیر ہے:

*1- مصلحت اندیشی کا فتنہ*

یہ فتنہ آج کل خوب برگ وبار لارہاہے‘ کوئی دینی یا علمی خدمت کی جائے‘ اس میں پیش نظر دنیاوی مصالح رہتے ہیں‘ اس فتنہ کی بنیاد نفاق ہے‘ یہی وجہ ہے کہ بہت سی دینی وعلمی خدمات برکت سے خالی ہیں۔

*2- ہر دلعزیزی کا فتنہ*

جوبات کہی جاتی ہے‘ اس میں یہ خیال رہتا ہے کہ کوئی بھی ناراض نہ ہو‘ سب خوش رہیں‘ اس فتنہ کی اساس حب جاہ ہے۔

*3- اپنی رائے پر جمود واصرار*

اپنی بات کو صحیح وصواب اور قطعی ویقینی سمجھنا‘ دوسروں کی بات کو درخور اعتناء اور لائق التفات نہ سمجھنا‘ بس یہی یقین کرنا کہ میرا موقف سو فیصد حق اور درست ہے اور دوسرے کی رائے سو فیصد غلط اور باطل- یہ اعجاب بالرائے کا فتنہ ہے اور آج کل سیاسی جماعتیں اس مرض کا شکار ہیں- کوئی جماعت دوسرے کی بات سننا گوارا نہیں کرتی‘ نہ حق دیتی ہے کہ ممکن ہے کہ مخالف کی رائے کسی درجہ میں صحیح ہو یا یہ کہ شاید وہ بھی یہی چاہتے ہوں جو ہم چاہتے ہیں‘ صرف تعبیر اور عنوان کا فرق یا الا ہم فالا ہم کی تعیین کا اختلاف ہو۔

*4-سوء ظن کا فتنہ*

ہرشخص یا ہر جماعت کا خیال یہ ہے کہ ہماری جماعت کا ہر فرد مخلص ہے اور ان کی نیت بخیر ہے اور باقی تمام جماعتیں جو ہماری جماعت سے اتفاق نہیں رکھتیں‘ وہ سب خود غرض ہیں‘ ان کی نیت صحیح نہیں‘ بلکہ اغراض پر مبنی ہیں‘ اس کا منشاء بھی عجب وکبر ہے۔

*5- سوء فہم کا فتنہ*

کوئی شخص کسی مخالف کی بات جب سن لیتا ہے تو فوراً اسے اپنا مخالف سمجھ کر اس سے نہ صرف نفرت کا اظہار کرتاہے‘ بلکہ مکروہ انداز میں اس کی تردید فرض سمجھی جاتی ہے۔ مخالف کی ایک ایسی بات میں جس کے کئی محمل اور مختلف توجیہات ہوسکتی ہیں‘ وہی توجیہ اختیار کریں گے جس میں اس کی تحقیر وتذلیل ہو‘ کیا ”ان بعض الظن اثم“ ( یقیناً بعض گمان گناہ ہیں) اور ”ایاکم والظن فان الظن اکذب الحدیث“ ( بدگمانی سے بچاکرو‘ کیونکہ بدگمانی سب سے جھوٹی بات ہے اور بڑے بڑے جھوٹ اسی سے پیدا ہوتے ہیں) کی نصوص مرفوع العمل ہوچکی ہیں؟․

*6-بہتان طرازی کا فتنہ*

مخالفین کی تذلیل وتحقیر کرنا‘ بلاسند ان کی طرف گھناؤنی باتیں منسوب کرنا۔ اگر کسی مخالف کی بات ذرا بھی کسی نے نقل کردی‘ بلاتحقیق اس پر یقین کرلینا اور مزے لے لے کر محافل ومجالس کی زینت بنانا‘ بالفرض اگر خود بہتان طرازی نہ بھی کریں‘ دوسروں کی سنی سنائی باتوں کو بلاتحقیق صحیح سمجھنا‘ کیا یہ نص قرآنی ”ان جاء کم فاسق بنباء فتبینوا“ الآیة ( اگر آئے تمہارے پاس کوئی گناہ گار خبر لے کر تو تحقیق کرلو) کے خلاف نہیں؟

*7- جذبہٴ انتقام کا فتنہ*

کسی شخص کو کسی شخص سے عداوت ونفرت یا بدگمانی ہے‘ لیکن خاموش رہتاہے لیکن جب ذرا اقتدار مل جاتاہے ‘ طاقت آجاتی ہے تو پھر خاموشی کا سوال پیدا نہیں ہوتا‘ گویا یہ خاموشی معافی اور درگذر کی وجہ سے نہیں تھی‘ بلکہ بیچارگی وناتوانی اور کمزوری کی وجہ سے تھی‘ جب طاقت آگئی تو انتقام لینا شروع کیا‘ رحم وکرم اور عفو درگذر سب ختم۔

*8-حب شہرت کا فتنہ*

کوئی دینی یا علمی یا سیاسی کام کیا جائے‘ آرزو یہی ہوتی ہے کہ زیادہ سے زیادہ داد ملے اور تحسین وآفرین کے نعرے بلند ہوں‘ درحقیقت اخلاص کی کمی یا فقدان سے اور خود نمائی ورباکاری کی خواہش سے یہ جذبہ پیدا ہوتا ہے‘ صحیح کام کرنے والوں میں یہ مرض پیدا ہوگیا اور درحقیقت یہ شرکِ خفی ہے‘ حق تعالیٰ کے دربار میں کسی دینی یا علمی خدمت کا وزن اخلاص سے ہی بڑھتا ہے اور یہی تمام اعمال میں قبول عند اللہ کا معیار ہے‘ اخبارات‘ جلسے‘ جلوس‘ دورے زیادہ تر اسی سلسلہ کی کڑیاں ہیں۔

*9- خطابت یا تقریر کا فتنہ*

یہ فتنہ عام ہوتا جارہاہے کہ لن ترانیاں انتہا درجہ میں ہوں‘ عملی کام صفر کے درجہ میں ہوں‘ قوالی کا شوق دامن گیر ہے‘ عمل وکردار سے زیادہ واسطہ نہیں۔ ”لم تقولون ما لاتفعلون کبر مقتا عند اللہ ان تقولوا مالاتفعلون“ ۔ ترجمہ:۔کیوں کہتے ہو منہ سے جو نہیں کرتے‘ بڑی بیزاری کی بات ہے اللہ کے یہاں کہ کہو وہ چیز جو نہ کرو “۔ (ترجمہ شیخ الہند) خطیب اس انداز سے تقریر کرتاہے گویا تمام جہاں کادرد اس کے دل میں ہے‘ لیکن جب عملی زندگی سے نسبت کی جائے تو درجہ صفر ہوتاہے۔

*10- پروپیگنڈہ کا فتنہ*

جو جماعتیں وجود میں آئی ہیں‘ خصوصاً سیاسی جماعتیں ان میں غلط پروپیگنڈہ اور واقعات کے خلاف جوڑ توڑ کی وبا اتنی پھیل گئی ہے جس میں نہ دین ہے اور نہ اخلاق‘ نہ عقل ہے نہ انصاف‘ محض یورپ کی دین باختہ تہذیب کی نقالی ہے‘ اخبارات‘ اشتہارات ریڈیو‘ ٹیلی ویژن‘ تمام اس کے مظاہر ہیں۔

*11- مجلس سازی کا فتنہ*

چند اشخاص کسی بات پر متفق ہوگئے یا کسی جماعت سے اختلاف رائے ہوگیا‘ فوراً اخبار نکالا جاتاہے بیانات چھپتے ہیں کہ اسلام اور ملک ‘ بس ہماری جماعت کے دم قدم سے باقی رہ سکتاہے۔ نہایت دل کش عنوانات اور جاذبِ نظر الفاظ وکلمات سے قرار دادیں اور تجویزیں چھپنے لگتی ہیں‘ امت میں تفرق وانتشار اور گروہ بندی کی آفت اسی راستے سے آئی ہے۔

*12- عصبیت جاہلیت کا فتنہ*

اپنی پارٹی کی ہربات خواہ وہ کیسی ہی غلط ہو‘ اس کی حمایت وتائید کی جاتی ہے اور مخالف کی ہربات پر تنقید کرنا سب سے اہم فرض سمجھا جاتا ہے‘ مدعئی اسلام جماعتوں کے اخبار ورسائل‘ تصویریں‘ کا رٹون‘ سینما کے اشتہار‘ سود اور قمار کے اشتہار اور گندے مضامین شائع کرتے ہیں‘ مگر چونکہ ”اپنی جماعت “ کے حامی ہیں‘ اس لئے جاہلی تعصب کی بنا پر ان سب کو بنظر استحسان دیکھا جاتاہے‘ الغرض جو اپنا حامی ہو وہ تمام بدکرداریوں کے باوجود پکا مسلمان ہے اور جو اپنا مخالف ہو‘ اس کا نماز روزہ کا بھی مذاق اڑایاجاتاہے۔

*13- حب مال کا فتنہ*

حدیث میں تو آیاہے کہ ”حب الدنیا رأس کل خطیئہ“ دنیا کی محبت تمام گناہوں کی جڑ ہے‘ حقیقت میں تمام فتنوں کا قدر مشترک حب جاہ یا حب مال ہے‘ بہت سے حضرات ”ربنا آتنا فی الدنیا حسنة“ کو دنیا کی جستجو اور محبت کے لئے دلیل بناتے ہیں‘ حالانکہ بات واضح ہے کہ ایک ہے دنیا سے تعلق اور ضروریات کا حصول- اس سے انکار نہیں‘ نیز ایک ہے طبعی محبت ‘ جو مال اور آسائش سے ہوتی ہے‘ اس سے بھی انکار نہیں‘ مقصد تو یہ ہے کہ حب دنیا یا حب مال کا اتنا غلبہ نہ ہو کہ شریعت محمدیہ اور دین اسلام کے تمام تقاضے ختم یا مغلوب ہوجائیں‘ اقتصاد واعتدال کی ضرورت ہے‘ عوام سے شکایت کیا کی جائے‘ آج کل عوام سے یہ فتنہ گذر کر خواص کے قلوب میں بھی آرہاہے‘ الا ماشاء اللہ! اس فتنے کی تفصیلات کے لئے ایک طویل مقالے کی ضرورت ہے‘ حق تعالیٰ توفیق عطا فرمائے‘ ہم ان مختصر اشاروں کو حضرت رسول اللہ کی محبت کی ایک دعا پر ختم کرتے ہیں:

*”اللہم! رزقنی حبک وحب من یحبک وحب عمل یقربنی الیک‘ اللہم ما رزقتنی مما احب فا جعلہ قوة فیما یحب وما زویت عنی مما احب فاجعلہ فراغاً لی فیما تحب‘ اللہم اجعل حبک احب الاشیاء الیّ من نفسی واہلی ومن الماء البارد“*

Sunday, August 14, 2016

پاکستان بنانے کا گناہ

’’پاکستان بنانے کا گناہ‘‘ اور مولانا مفتی محمودؒ
ازقلم: حضرت مولانا علامہ زاہد الراشدی صاحب
گزشتہ ایک کالم میں قارئین سے وعدہ کیا تھا کہ حضرت مولانا مفتی محمودؒ سے منسوب کیے جانے والے اس جملے کے بارے میں اصل صورتحال کی وضاحت کروں گا کہ
’’ہم پاکستان بنانے کے گناہ میں شریک نہیں تھے۔‘‘
یہ بات میرے سامنے ہوئی تھی اس لیے اس سلسلہ میں اصل قصہ کو تاریخ کے ریکارڈ پر لانا اپنی ذمہ داری سمجھتا ہوں۔ لیکن پہلے اس پس منظر کا ذکر ضروری ہے کہ مولانا مفتی محمودؒ کا تعلق اصلاً جمعیۃ علماء ہند سے تھا جس نے قیام پاکستان کی مخالفت کی تھی۔ جمعیۃ علماء ہند کے ساتھ مجلس احرار اسلام نے بھی تحریک پاکستان کی مخالفت کی تھی اور ہندوستان کی تقسیم سے اختلاف کیا تھا اور روایتی جوش و خروش کے ساتھ کیا تھا۔ جبکہ علماء دیوبند کی ایک بڑی تعداد نے جمعیۃ علماء ہند سے الگ ہو کر جمعیۃ علماء اسلام کے نام سے تحریک پاکستان میں سرگرم کردار ادا کیا تھا۔
اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جا سکتا اور نہ ہی اس انکار کی ضرورت ہے کہ جمعیۃ علماء ہند اور مجلس احرار اسلام دونوں قیام پاکستان کے خلاف تھیں اور انہوں نے اس کی مخالفت میں اپنی طرف سے کوئی کمی نہیں کی۔ ان جماعتوں کا موقف یہ تھا کہ:
مسلم لیگی قیادت نفاذ اسلام میں سنجیدہ نہیں ہے اور نہ ہی اس کی اہلیت رکھتی ہے۔
قیام پاکستان سے برصغیر کے مسلمان تقسیم ہو جائیں گے اور ایک دوسرے کے کسی کام نہیں آسکیں گے۔
مسلمانوں کی ایک بہت بڑی تعداد بھارت میں ہندوؤں کے رحم و کرم پر رہ جائے گی۔
جہاں تک نتائج کا تعلق ہے نصف صدی بعد ہمیں انہی نتائج کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے جن کا اظہار ان جماعتوں کے قائدین تحریک پاکستان کی مخالفت میں خدشات کی صورت میں کیا کرتے تھے۔ چنانچہ مسلم لیگی قیادت کئی بار اقتدار ملنے کے باوجود نفاذ اسلام کی طرف نصف صدی میں کوئی پیش رفت نہیں کر سکی۔ اور برصغیر کے مسلمانوں کی عظیم قوت کے تقسیم ہو جانے کے بعد مسلم لیگی راہنما چودھری خلیق الزمان مرحوم کے اس اعتراف کے بعد مزید کچھ کہنے کی ضرورت باقی نہیں رہ جاتی جو انہوں نے سقوط ڈھاکہ کے فورًا بعد ’’اخبار جہاں‘‘ کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا تھا۔ انہوں نے کہا تھا کہ
’’ہمارے طرز عمل کے باعث برصغیر کے مسلمان تین حصوں میں تقسیم ہوگئے ہیں جو ایک دوسرے کی کسی مشکل میں کام نہیں آسکتے۔‘‘
تاہم اس سب کچھ کے باوجود قیام پاکستان کی مخالفت ایک سیاسی رائے تھی جسے جمعیۃ علماء ہند اور مجلس احرار اسلام کے راہنماؤں نے اپنی انا کا مسئلہ نہیں بنایا۔ بلکہ جب دیکھا کہ مسلمانان ہند نے ان کی رائے کی حمایت نہیں کی اور مسلم لیگ کا ساتھ دیا ہے تو انہوں نے خوش دلی کے ساتھ اس فیصلہ کو قبول کر لیا۔ چنانچہ اس سلسلہ میں کچھ حقائق قارئین کے سامنے لانا ضروری سمجھتا ہوں۔تحریک پاکستان کی مخالفت میں علماء کرام میں سب سے نمایاں تین نام ہیں:
مولانا سید حسین احمد مدنیؒ
امیر شریعت سید عطاء اللہ شاہ بخاریؒ
مولانا ابوالکلام آزادؒ
بلاشبہ ان تینوں حضرات نے قیام پاکستان کے خلاف اپنی رائے کو پورے شد و مد کے ساتھ پیش کیا مگر پاکستان بن جانے کے بعد ان کا طرز عمل کیا تھا اسے بھی سامنے رکھ لیجیے۔
حضرت مولانا حسین احمد مدنیؒ سے ان کے پاکستان میں رہنے والے عقیدت مندوں نے آئندہ کے بارے میں راہنمائی طلب کی تو انہوں نے واضح طور پر ہدایت کی کہ پاکستان کی سالمیت و استحکام کے لیے کام کریں اور ماضی کو بھول جائیں۔ مولانا مدنیؒ نے اس سلسلہ میں بڑی خوبصورت مثال دی جو ان کے مکتوب کی صورت میں شائع ہو چکی ہے۔ انہوں نے کہا کہ مسجد بننے سے پہلے اہل محلہ کا اختلاف ہو سکتا ہے کہ مسجد یہاں بنے وہاں نہ بنے، اتنی جگہ میں بنے اور اتنی میں نہ بنے۔ لیکن جب ایک فریق کی رائے غالب آگئی اور انہوں نے دوسرے فریق کی رائے کے خلاف مسجد بنا لی تو اب یہ مسجد سب کے لیے مسجد ہی ہے۔ اور اس کا احترام اور اس کے تقدس کی حفاظت سب کی ذمہ داری ہے۔
اسی طرح امیر شریعت سید عطاء اللہ شاہ بخاریؒ نے لاہور میں جلسہ عام منعقد کر کے اعلان کیا کہ قوم نے ان کی رائے کو قبول نہیں کیا اس لیے وہ قوم کا فیصلہ تسلیم کرتے ہوئے اس کے حق میں دستبردار ہوتے ہیں، اور اب وہ پاکستان کی سالمیت و استحکام کے لیے بھرپور کردار ادا کریں گے۔ چنانچہ کشمیر پر پاکستان اور بھارت کی پہلی جنگ میں مسلم لیگ کے ساتھ جس جماعت نے جہاد کشمیر کی حمایت میں رائے عامہ کو بیدار کرنے کے لیے سب سے زیادہ کام کیا وہ مجلس احرار اسلام تھی۔
اور مولانا ابوالکلام آزادؒ کے بارے میں بھی یہ بات تاریخ کے ریکارڈ پر آچکی ہے کہ تقسیم ہند کے موقع پر جب ریاستوں کو اس بات کا اختیار ملا کہ وہ اپنی مرضی سے پاکستان یا بھارت میں سے کسی کے ساتھ شامل ہو سکتے ہیں تو بلوچستان کی ریاست قلات کے نواب میر احمد یار خان مرحوم نے بھارت کے ساتھ الحاق کا فیصلہ کیا۔ مگر اس کے اعلان سے قبل کانگریسی راہنماؤں سے رابطہ کے لیے اپنے وزیر دربار میر غوث بخش بزنجو مرحوم کو بھیجا تاکہ بھارتی حکومت سے گفت و شنید کے بعد بھارت کے ساتھ قلات کے الحاق کا باقاعدہ اعلان کر دیا جائے۔ میر غوث بخش بزنجو مرحوم دہلی پہنچے تو اس خیال سے پہلے مولانا ابوالکلام آزادؒ سے ملے کہ اس طرح کانگریس کی ہائی کمان کے ساتھ معاملات طے کرنے میں آسانی رہے گی۔ مولانا آزادؒ نے نواب قلات کے فیصلے پر ناراضگی کا اظہار کیا۔ انہوں نے میر غوث بزنجو کو دوسرے کانگرسی راہنماؤں کے ساتھ ملنے سے روک دیا اور یہ تلقین کر کے واپس بھیج دیا کہ پاکستان بن چکا ہے اس لیے آپ لوگ پاکستان کے ساتھ الحاق کریں اور اسے مضبوط بنائیں۔
مولانا مفتی محمودؒ کا تعلق اسی قافلہ سے تھا اور اپنے ان اکابر کے اسی طرز عمل کے مطابق انہوں نے خود کو پاکستان کی سالمیت و استحکام میں اسلامی نظام کے نفاذ کی جدوجہد کے لیے وقف کر رکھا تھا۔ اس سلسلہ میں ایک تاریخی واقعہ کا ذکر بھی مناسب معلوم ہوتا ہے کہ 1970ء کے عام انتخابات کے بعد جب صدر یحییٰ خان نے پارلیمنٹ کا طلب کردہ اجلاس ملتوی کر دیا اور شیخ مجیب الرحمن نے اس کے رد عمل میں ہڑتال کا اعلان کر کے مشرقی پاکستان کا پورا نظام جام کر دیا تو پاکستان کی تقسیم کا خطرہ حقیقی طور پر بالکل سامنے نظر آنے لگا۔ اس موقع پر معاملات کو سلجھانے کے لیے قومی اسمبلی کی چھوٹی پارلیمانی پارٹیوں نے لاہور میں اجلاس منعقد کر کے فریقین سے مذاکرات کرنے کا فیصلہ کیا۔ ان کے وفد میں مولانا مفتی محمودؒ بھی مذاکرات میں شرکت کے لیے ڈھاکہ گئے اور شیخ مجیب الرحمن سے ملے۔
مولانا مفتی محمودؒ نے جمعیۃ علماء اسلام کی مرکزی مجلس شوریٰ میں ان مذاکرات کی تفصیل بیان کرتے ہوئے بتایا کہ وہ اور خان عبد الولی خان دونوں شیخ مجیب سے ملے اور ان سے دیگر بہت سی باتوں کے علاوہ یہ بھی کہا کہ:
’’شیخ صاحب! یہ بات یاد رکھیں کہ آپ مسلم لیگی ہیں اور ہم کانگرسی۔ کل آپ پاکستان بنا رہے تھے تو ہم نے کہا تھا کہ نہ بنائیں اس سے مسلمانوں کا نقصان ہوگا۔ اور آج آپ پاکستان توڑ رہے ہیں تو ہم آپ سے یہ کہنے آئے ہیں کہ اسے نہ توڑیں مسلمانوں کو نقصان ہوگا۔‘‘
اس پس منظر میں بعض مجالس میں اس وقت کے وزیراعظم جناب ذوالفقار علی بھٹو مرحوم کے ایک بیان کا جواب دیتے ہوئے، جس میں بھٹو مرحوم نے اپوزیشن پر پاکستان کی تقسیم کی ذمہ داری کا الزام عائد کیا تھاا ور مفتی صاحبؒ اس وقت اپوزیشن لیڈر تھے، مولانا مفتی محمودؒ نے کہا تھا کہ:
’’ہم پاکستان کی تقسیم کے ذمہ دار نہیں ہیں، اس کی ذمہ داری تم پر عائد ہوتی ہے۔ ہم تو ہندوستان کی تقسیم کے حق میں بھی نہیں تھے پاکستان کی تقسیم کے کس طرح حق میں ہو سکتے ہیں؟ یہ تقسیم کرنا تمہارا ہی کام ہے، کل بھی ملک تم نے تقسیم کیا اور آج بھی تم نے ملک کو دولخت کیا ہے۔ اگر یہ تقسیم گناہ ہے تو اس گناہ میں ہم نہ کل شریک تھے اور نہ آج اس گناہ میں ہم حصہ دار ہیں۔‘‘
الفاظ اور جملوں کی ترتیب میں کمی بیشی ہو سکتی ہے لیکن میں نے پوری کوشش کی ہے کہ مولانا مفتی محمودؒ نے جو کچھ کہا اس کا پورا مفہوم بیان ہو جائے۔ یہ بات انہوں نے اکتوبر 1975ء کے دورن جامع مسجد نور مدرسہ نصرۃ العلوم گوجرانوالہ میں جمعیۃ علماء اسلام کے ملک گیر کنونشن سے خطاب کرتے ہوئے تفصیل کے ساتھ کی تھی، اور میں اس کنونشن کا اسٹیج سیکرٹری تھا۔ جبکہ بعض دیگر مجالس میں بھی انہوں نے یہ بات کہی جسے یار دوستوں نے اس جملے میں تبدیل کر دیا کہ ’’ہم پاکستان بنانے کے گناہ میں شریک نہیں تھے۔‘‘ اور اس کے بعد سے اس بات کو مسلسل دہرایا جا رہا ہے۔
بہرحال علماء کا وہ حلقہ جس نے ایک سیاسی رائے اور موقف کے طور پر پاکستان کے قیام کی مخالفت کی تھی اور اسے جنوبی ایشیا کے مسلمانوں کے مجموعی مفاد میں مفید نہیں سمجھا تھا، انہوں نے پاکستان بن جانے کے بعد نہ صرف اسے خوش دلی کے ساتھ تسلیم کیا بلکہ آج وہی علماء پاکستان کے استحکام و سالمیت اور اسے ایک اسلامی نظریاتی ریاست بنانے کے لیے سب سے زیادہ سرگرم عمل ہیں، اور غالباً تحریک پاکستان کی اصل منزل بھی یہی ہے۔
www.zahidrashdi.org/tanqidat/pakistan-banany-ka-gunah-aur-maulana-mufti-mahmud