BEST RESULT

Custom Search

Wednesday, April 16, 2014

تربیت اولاد کے لیے مختلف اسلوب

تربیت کے مختلف اسلوب: محبت کے اظہار کے لئےآپ اپنی صواب دِید ﴿حالات، صحت، ماحول، فاصلے﴾ کے مطابق تدابیر متعین کر سکتے ہیں اور تعلق بڑھا سکتے ہیں۔
۱۔براہ راست تعلق:
۲۔تحفے تحائف دینا:
۳۔مشاغل میں دلچسپی:
۵۔توہین آمیز رویہ:
۶۔اپنی رائے پر اصرار اور ضد:
۷۔منفی طرز عمل:
۸۔بچوں کو مشتعل کرنا:
۹۔بچوں میں امتیاز برتنا:
۱۰۔بے جا خود نمائی:
۱۱۔ننھیال ددھیال کا فرق رکھنا:
۱۲۔خواہ مخواہ کا رعب ڈالنا:

------------------------------------------
۱۔براہ راست تعلق:
اظہار محبت اور شفقت کےلئے براہ راست تعلق کی حسب ذیل صورتیں ہو سکتی ہیں: سکول لانا اور لے جانا، ہوم ورک میں تھوڑی بہت مدد، بچوں کے دوستوں سے دل چسپی، سکول کے معمولات پہ خوش دلی سےبات چیت، شام کو ہلکی پھلکی تفریح، ہفتہ وار مجلس، کارکردگی پہ انعام﴿ چاہے معمولی ہی ہو﴾، بچوں کی باتوں کو توجہ سے سننا، حوصلہ افزائی، شاباشی دینا…… محبت وشفقت کی بنیاد ہیں۔
دوسرے شہر میں رہنےوالے بچوں کے ساتھ فون کے ذریعے بات کرنا، کوئی دلچسپ بات جو بچے کو یاد رہے، گاہےبگاہے ان کو خطوط، ای میل، تصاویر بھیجنا، اور ان سے خصوصی طور پر خط اپنے ہاتھ کی ڈرائنگ، تصویر کا تقاضا کرنا، باہم دلوں کو قریب رکھنے کا باعث بنے گا۔ بچوں کےارسال کردہ خطوط اور اشیا کو امانت سمجھ کر محفوظ رکھیں گے تو بڑے ہونے پر یہی چیزیں لازوال اور سچی خوشی کا باعث بنیں گی۔
۲۔تحفے تحائف دینا:
یہ ایک عظیم الشان عمل ہے جس سے محبتیں پروان چڑھتی ہیں۔ اگر بچے کو لازمی ضرورت کی چیز خرید کر تحفہ میں دی جائے تو سونے پہ سہاگہ ہے، خصوصاً وہ چیز جو بچے کے والدین خرید کر دینے کی استعداد نہ رکھتے ہوں۔ بچوں کے ہاتھ میں رقم دینے کے بجائے سکول/کالج کی لازمی ضرورت کی چیز خرید کر دینا ان کے اور ان کے والدین کے دلوں میں قدر و منزلت بڑھادے گی۔
۳۔مشاغل میں دلچسپی:
بچوں کے ساتھ مل کر کچھ تخلیقات عمل میں لائی جائیں۔ اگر آپ ترنم کے ساتھ گا سکتے ہوں، دستکاری، سلائی یالکڑی کا کوئی ہنر جانتے ہوں تو اپنے ان پیارے بچوں کو ایسے مشاغل سے روشناس کرایئے۔ اس طرح کے مشاغل میں بچوں کو شریک کرنے سے ان کی شخصیت پر بہت مثبت اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ شخصیت کی تعمیر میں آپ کا یہ ہنر یادگار حیثیت اختیار کر جائے گا۔قریب رہنے والے، بیرون شہر یا بیرون ملک رہنے والے بچوں سے جب بھی رابطہ ہو، ان کےساتھ ہر ملاقات کو یادگار بنانے کا خصوصی پلان ہونا چاہئے۔ ہفتہ وار، ماہانہ،ششماہی یا سالانہ، جب بھی ملاقات ہو، بزرگ والدین کا نقش بچے اپنی عمر کے ساتھ ساتھ مضبوط تر اور حسین تر اور یادگار بناتے جائیں۔
۴۔ذوق مطالعہ کی حوصلہ افزائی:
بچوں کو پڑھ کر سناناایک انتہائی دلچسپ عمل ہے۔ اپنے بچپن کی کتابیں ان کو پڑھنے کے لیئے دی جائیں یاان کے والدین کے بچپن میں زیر استعمال رہنے والی کتابوں کو مل کر پڑھنے پڑھانے میں خاص مزہ ہے۔ بچوں کو بھی پڑھنے کی تلقین کی جائے۔ اس سے تلفظ، روانی عبارت، لہجہ اور تقریر کی مشق ہو گی۔
۵۔ماضی کی یادیں اور تجربات:
بچوں کو اپنے ماضی کی دلچسپ کہانیاں اور واقعات سنائیں، اپنے محلے اور شہر کے خاص کرداروں کا اور ماحول کا تذکرہ کریں۔ دور رہنے والے بچوں کو اپنی آواز میں کہانی، نظم، باہم بچوں کی مجلس، بات چیت کو ریکارڈ کر کے بھیجا جائے یا ویڈیو فلم بنا لی جائے۔ اپنے بچپن اور جوانی کے تجربات کی روشنی میں بچوں کی عمر کے مطابق گفت و شنید کی جائے۔ اپنی ناکامیوں اور نقصانات کو واضح کریں کہ ان کی کیا وجوہات تھیں۔ بچوں سے سوال کیاجائے کہ اگر ان کے ساتھ ایسا ہوتا تو وہ کیا کرتے؟ بچوں کی ذہنی استعداد جاننے کایہ بہترین ذریعہ ہے اور ان کی رہنمائی کرنے کا بھی۔
۶۔شخصیت کی تعمیر:
جب بھی موقع ملے بچوںکی عمر اور ذہنی استعداد کے مطابق ان کے ساتھ کھیلا جائے۔ ان کے بنائے ہوئے گھروںمیں مہمان بن کر جایا جائے۔ فٹ بال، لوڈو، کیرم اور اندرون خانہ کھیلوں میں شریک ہوا جائے۔ بچوں میں ہار جیت کا صحیح تصور پیدا کیا جائے اور اعلیٰ ظرفی اور دوسروںکی کامیابی پہ خوش ہونے کی تربیت کی جائے۔
بچے ننھے ہوں یانوجوان، ان کو بولنے اور اپنا ما فی الضمیر بیان کرنے کا پورا موقع دیا جائے۔انہماک اور توجہ سے بات سننا، بچے کی شخصیت پہ مثبت اثرات مرتب کرتا ہے۔ بچوں میں یہ ظرف اور حوصلہ پیدا کیا جائے کہ جب ایک بچہ بات سنا رہا ہو تو دوسرا بچہ اس میں مخل نہ ہو۔
ہر عمر کے بچوں کے ذاتی رجحانات آپ کے علم میں ہونے چاہئیں۔ ہر بچہ آپ کو اپنا رازداں ساتھی سمجھے۔ یقین کیجئے اگر آپ اپنے ان معصوم بچوں کے رازداں ساتھی بن گئے، ان کے ننھے منے دکھ اورسکھ آپ کے دل میں ارتعاش اور ولولہ پیدا کرنے میں کامیاب ہو گئے تو یہ پھول مرجھانے سے بچ جائیں گے۔
اپنے بیٹے اور بیٹی کےبچوں سے دلی محبت پیدا کرنے کا ایک کارگر نسخہ یہ ہے کہ ان کے والدین کو اچھےالفاظ سے یاد کریں۔ یہ نہ ہو کہ بچے کو اپنے دکھوں کی داستان ﴿اپنی اولاد کی نافرمانیوں کے قصے﴾ سنانے لگیں۔ ننھے بچوں کے دل میں ان کے والدین کی عزت و توقیربڑھانا آپ کے لئے ہی نافع ہے۔ خصوصاً بہو اور داماد کے بارے میں۔
بچوں کو ترجیحات کےتعین کا احساس دلانا ایک اہم فریضہ ہے، یعنی کسی وقت کون سا کام اہم ہے، کون سابچہ کس عمر میں ہے، اس کے لئے کیا اہم ہے۔ اس ضمن میں نماز، قرآن، اسلامی لٹریچرکی طرف توجہ دلانا، ان کی نگرانی کرنا، بچوں میں باہم مسابقت کرانا اور انعام دیناجیسے امور اہم ہیں۔ پیار و محبت سے تعلیمی مدارج اور کارکردگی کے بارے میں پوچھنا،مشکل میں آسانی تلاش کر کے دینا، بچوں کے تعلیمی رجحانات کا اور دیگر مشاغل کابنظر غائر جائزہ لینا اور ان کے والدین کے ساتھ گفت و شنید کرنا اور مسائل کا حلتلاش کرنا، ترجیحات کے تعین میں اہم کردار ادا کر سکتے ہیں۔
۵۔گھریلو امور میں دلچسپی لینا:
اگر والدین اور بچوںمیں کوئی تنازعہ ہو جائے، ﴿تعلیم، روزگار یا شادی کے معاملے میں﴾ تو غیر جانب داریسے حالات کا جائزہ لینا اور بچے کے مؤقف کو ٹھنڈے دل سے سننا اور والدین اور بچوںکے درمیان مفاہمت کی راہ تلاش کر کے دینا، بزرگ والدین کا فرض ہے۔ ۶۔بچیوں سے خصوصی لگاؤ:
لڑکیوں کی تعلیم وتربیت اور ان کو شائستگی اور رکھ رکھاو سکھانا خصوصی توجہ چاہتا ہے۔ بچیوں کےرجحانات کا ان کی عمر کے مطابق خیال رکھا جانا چاہئے۔ بچیوں کی جذباتی عمر ایک مضبوط، با اعتماد شخصیت کا سہارا چاہتی ہے۔ لڑکیاں قاہرانہ نظر سے زیادہ محبت وشفقت اور رحمت کی نظر کی طلب گار ہوتی ہیں۔ بزرگوں کا دستِ شفقت ان کی شخصیت کی تکمیل کرتا ہے۔
چند احتیاطیں
کچھ معاملات اور باتیں ایسی بھی ہیں جن سے پرہیز کرنا چاہیئے۔
۱۔کھلانے پلانے میں بے اعتدالی:
بزرگ والدین کو اپنےبچوں کی نسبت ان کے بچوں کو کھلانے پلانے، ہر وقت کچھ نہ کچھ دینے میں لطف آتا ہے۔لیکن بعض اوقات یہ معاملہ خرابی کا باعث بھی بن سکتا ہے۔ بچوں کو ان کی عادتیں خراب کرنے میں آپ کا کوئی عمل دخل نہیں ہونا چاہئے۔ قریب رہنے والے بچے اور دوررہنے والے بچوں میں یہ فرق بھی ہوتا ہے کہ قریب رہنے والے بچوں کی عادات، مزاج،گھریلو ماحول اور روز مرہ کے اتار چڑھاؤ سے آپ واقف ہوتے ہیں۔ عقل مندی کا تقاضایہ ہے کہ بچوں کے والدین خصوصاً والدہ نے ان کے کھانے پینے کا جو معمول بنایا ہےاس میں خلل واقع نہ ہو۔ ماں سے بڑھ کر کوئی نہیں جانتا کہ بچے کو کس وقت ، کتنااور کیا کھانے کو دیا جائے۔ ضروری نہیں کہ جو چیزیں آپ اپنے بچپن میں کھاتے تھے یااپنے بچوں کو بے دریغ کھلاتے تھے ، ان کے لئے بھی مناسب ہوں۔
۲۔والدین کو بے وقعت کرنا:
بچوں کے قلب و نظر میں انکے والدین کو بے وقعت کرنا ایک اخلاقی گراوٹ ہے۔ خصوصاً بہو یا داماد کے بارے میں منفی طرز عمل اختیار کرنا، ان کی گستاخیوں یا نافرمانیوں کو بچوں کے سامنے زیر بحث لانا، یا بچوں کے ذریعے اپنی کسی حق تلفی یا رنجش کا انتقام لینا، اپنے پاؤں پہ کلہاڑی مارنا ہے۔ بچے ایسے لوگوں کی ہرگز قدر نہیں کرتے جو ان کے والدین کے بارےمیں منفی سوچ رکھتے ہوں۔ بہو اور داماد کا آپ سے، صہر‘‘ کا رشتہ ہے مگر ان کےحوالے سے بچوں کے ساتھ آپ کا ’’نسب‘‘ کا رشتہ ہے۔ اپنے نسب کے بارے میں حد درجہ حساس اور محتاط رویہ اسی صورت ممکن ہے جب آپ ان کے والدین کو عزت و توقیر سےنوازیں گے۔
۳۔رویے میں فرق:
گھروں میں جہاں ایک سےزیادہ بیٹے بیٹیاں موجود ہوتے ہیں، ان کے بچوں کے ساتھ بڑوں کا رویہ بھی قابلِ غورہے۔ جس بیٹے سے ماں باپ خوش ہیں، اس کی بیوی بھی پیاری لگتی ہے۔ اور اسی لحاظ سےاس کے بچے بھی دادا دادی کے دلارے ہوتے ہیں۔ دوسری طرف بہت سی بہوؤں میں سے کسی سےکسی خاص رشتہ داری یا نسبت یا کوئی اور وجہ بہوؤں کے درمیان تفریق کا باعث بنتی ہے، اور پھر بچے بھی خواہ مخواہ خاندانی سیاست کا شکار ہوتے ہیں۔ یہ رویہ بھی غیرمناسب ہے۔ ساس سسر ﴿خصوصاً ساس کو﴾ گھریلو معاملات میں عقل و دانش کا ثبوت دیناچاہئے۔ اسی طرح دامادوں کے ساتھ یا نواسے نواسیوں کے ساتھ معاملہ ہوتا ہے۔ لگاؤاور محبت اپنی جگہ، مگر معاملات مبنی بر عدل اور یکساں ہونے چاہئیں۔
۴۔بے جا طرف داری:
ایک اہم معاملہ جوعموماً گھروں میں بے چینی کا باعث بنتا ہے، بیٹی کی اولاد کے سامنے بیٹوں کی اولادیا اس کے مخالف معاملے میں ترجیح اور افراط و تفریط ہے۔ ماموں، پھوپھی یا چچا،تایا کے بچوں میں دوری، منافرت، بلاوجہ مسابقت، کا احساس پیدا کرنا، بزرگوں کے طرز عمل کا شاخسانہ ہو سکتا ہے۔ کسی ایک داماد یا بہو کی بے جا حمایت، طرف داری بچوں پر بھی برے اثرات ڈالتی ہے۔
۵۔توہین آمیز رویہ:
عموماً دادی کی طرف سےاس طرح کے جملے، میرا بیٹا تو بہت اچھا تھا، جب سے تمہاری ماں آئی ہے……..، سنکر بچے ہرگز اپنی دادی سے الفت محسوس نہیں کر سکتے۔ ان سے لازماً اجتناب کیا جائے۔
۶۔اپنی رائے پر اصرار اور ضد:
اگر بچوں کی تربیت کےمعاملے میں بزرگ والدین، کی رائے بچوں کے والدین سے مطابقت رکھتی ہو تو بزرگوں کوزیادہ اعلیٰ ظرفی اور وسعت قلبی کا مظاہرہ کرنا چاہئے۔ اختلاف کی صورت میں والدین کی خواہشات کے پیش نظر اپنی رائے سے دست بردار ہو جانا چاہئے، تاہم اولاد کو بھی ادب و احترام کو ملحوظ رکھتے ہوئے خواہ مخواہ اور بے جا ضد نہ کرنی چاہئے اور درست بات کو تسلیم کرنا چاہیئے۔ بعض اوقات بچے کا نام رکھنے سے لے کر جو مخالف شروع ہوتی ہے تو بچوں کے رشتے کرنے تک برقرار رہتی ہے۔ بچوں کے معاملات میں فیصلہ اورحتمی رائے بہر حال ان کے والدین کا حق ہے۔
بعض بزرگ والدین ،رشتوں ناطوں کے معاملے میں ایسا رویہ بنا لیتے ہیں جس سے اپنی اولاد اور بچوں کوباغی تو بنایا جا سکتا ہے، اپنا حامی نہیں۔ یہ طرز عمل سخت نقصان دہ غیر شرعی اورقابلِ گرفت ہے۔ رشتے ناطے کرنے کی ذمہ داری بہر حال اپنے والدین کی ہی ہوتی ہے۔اپنی رائے دینا، اپنے تجربات اور دلائل کی بنا پر کچھ اصرار کرنا آپ کا حق ہے مگرجبر کرنا، ضد سے اپنی اہمیت کو کیش کرانا، بچوں کی شادیوں میں رخنے ڈالنا، خوشی سےشریک نہ ہونا، دل میں رنجش رکھنا، قطع تعلق کر لینا یا دھمکی دینا سخت معیوب ہےاور بزرگ والدین کے شایانِ شان ہرگز نہیں ہے۔
۷۔منفی طرز عمل:
اگر آپ نے بچوں کے دلوںمیں اپنی اہمیت اجاگر کرنے کے لیے کوئی ایسا قدم اٹھایا کہ جس کام سے بچے کےوالدین منع کرتے ہوں اور آپ نے چوری چھپے اس کو موقع دیا، مدد کی، پھر چھپانے کےطریقے بتائے تو آپ نے اپنی نظروں میں بھی اور بچوں کی نظروں میں بھی خود کو گرالیا۔ یہ طرز عمل جتنا بچوں کے لیے نقصان دہ ہے اس سے کہیں زیادہ آپ کی شخصیت کےلیے باعث وبال ہے۔ ہاں، یہ امر قابلِ تعریف ہے کہ آپ اپنے بچوں کو اس کام میں مدددیں، تعاون کریں جس کو بچے کے والدین مشکل سمجھ کر ان کو کرنے نہیں دیتے اور آپ اسکو اپنے تجربے سے کروا لیتے ہیں۔ بچوں میں خود اعتمادی پیدا کرنے کے لیے آپ کیاکیا چھوٹے بڑے کام کر سکتے ہیں، اس پر غور کیا کیجئے۔
۸۔بچوں کو مشتعل کرنا:
بچوں کو ہر وقت دوسرےکے سامنے نظمیں، تقریریں وغیرہ سنانے پر مجبور نہ کریں۔ بچے کی ذہنی اور قلبی کیفیت ہر وقت ایک جیسی نہیں ہو سکتی۔ ہر ملاقات پر ان کو کتابیں سنانے یا ان کوپڑھنے پر مجبور کرنا دل میں تنگی اور انقباض پیدا کرتا ہے۔ ہر وقت ہر کام، ہر کھیل، ہر واقعہ، کہانی، لطیفہ یا ایک ہی جیسا طرزِ عمل ﴿ہر بچے کے ساتھ﴾ مناسب نہیں ہوتا۔ اگر آپ کو بچوں سے قلبی تعلق پیدا کرنا ہے تو جبر سے یہ کام نہیں ہوتا۔ یہ پورے صبر و ثبات کا متقاضی ہے۔ بچوں کو بلاوجہ قابو میں لانے کی کوشش کرنا ان کومشتعل کرناہے۔
۹۔بچوں میں امتیاز برتنا:
اپنے پوتے پوتیوں،نواسے نواسیوں میں کسی ایک سے کبھی ایسی بات نہ کیا کیجئے کہ یہ تو سب سے ہوشیارہے، ذہین ہے، یہ میرا فرماں بردار ہے، یہ تو اپنے باپ کی طرح فرماں بردار ہے اوریہ اپنے باپ یا ماں کی طرح ہمیشہ سے ضدی اور گستاخ ہے۔ اپنے ان بچوں کی کامیابیوںپہ یکساں خوشی کا اظہار کیجئے۔ اپنی کسی بیٹی یا بیٹے کی حد درجہ محبت میں آ کر انکے بچوں کے ساتھ ہمیشہ نرم رویہ رکھنا اور کسی دوسری اولاد کے بچوں کے ساتھ معاندانہ رویہ، ان کی کامیابیوں اور خوشیوں میں دل کے پورے افراح کے ساتھ شریک نہ ہونا سخت ناانصافی ہے۔ یقین کیجئے اللہ تعالیٰ نے آپ سے اس رعیت کے بارے میں سوال کرنا ہے۔ جذبات، احساسات ، خوشی، غمی اور مالی و اخلاقی طور پر سب کے ساتھ انصاف کرنا آپ کے اجر و ثواب کو قائم رکھے گا۔ کسی بچے کو خوب بڑھانا اور کسی کی اہمیت کو گھٹانا اپنے خاندان کی دیواروں میں شگاف ڈالنے کے مترادف ہے۔ اپنے دل کے میلان دوسروں کی طرف سے اکسانے پہ بچوں کی صلاحیتوں کو گھٹانا بڑھانا اپنی عزت وتوقیر کم کرنے کے مترادف ہے۔ بچوں میں باہم رقیبانہ اور حاسدانہ جذبات پیدا کرناایک بہت بڑا اخلاقی عیب ہے۔
۱۰۔بے جا خود نمائی:
اپنی جوانی کی غیراخلاقی سرگرمیوں کو فخر سے بچوں کو بتانا حد درجہ حماقت ہے، یا پھر اپنے کارناموںکو نمک مرچ لگا کر پیش کرنا کہ بچے جان جائیں کہ یہ سراسر جھوٹ ہے۔ بچہ فطرت کےقریب ہوتا ہے۔ وہ سچ اور جھوٹ کا ادراک کر لیتا ہے اگرچہ اس کو اس کے اظہار کاطریقہ نہ آتا ہو۔ ہر بات میں اپنی تعریف کرنا، اپنے گن گانا، ہر وقت دوسروں پہ خودکو ترجیح دینا، شیخی بگھارنا، درحقیقت اپنی کمزور شخصیت کا اظہار ہے۔
۱۱۔ننھیال ددھیال کا فرق رکھنا:
لڑکوں کو لڑکیوں پرترجیح دینا، یا ننھیال /ددھیال والوں کی برائیاں کرنا، یا بچوں کا ننھیال/ددھیال والوں سے قلبی تعلق برداشت نہ کرنا، لڑکیوں کی پے درپے پیدائش سے دل تنگ ہونا اوران کے مقابلے میں لڑکے کی آؤ بھگت کرنا، لڑکیوں کے والد کو بے چارہ، بوجھ کے تلےدبا ہوا جیسے احساسات دلانا، ایک طرح کا گناہ میں ملوث ہونا ہے ۔لڑکیوں کی پیدائش پہ انقباض محسوس کرنے والوں کی مذمت قرآن پاک میں کی گئی ہے۔
۱۲۔خواہ مخواہ کا رعب ڈالنا:
بزرگوں کو اپنی بزرگی اور مقام و مرتبے کا احساس دلانے کے لیے رعب ڈالنے کی ضرورت نہیں ہونی چاہئے۔ سلام کروانے کے لئے بچوں پہ سختی کرنا کوئی اعلیٰ اخلاق کی مثال نہیں۔ اعلیٰ اخلاق تویہ ہے کہ آپ خود بڑھ کر بچوں کو سلام کریں، محبت سے، پیار سے، اور یہی سنت رسولاللہ محمد ؎ﷺ ہے۔ بچے آپ کو وہی کچھ لوٹائیں گے جو آپ ان کو پہلے عطا کریں گے۔

.—★— للمتزوجين مفيد وللعزابيين معلومة : اولاد سے محبت اور ان كي تربيت كے بهترين اصول..عربي ميں..—★—

للمتزوجين مفيد وللعزابيين معلومة :
تمتع بأبنائك وهم صغار فسوف تمر الأيام بسرعة ولن يبقى لك من براءتهم وطفولتهم إلا مجرد ذكريات ،
لاعبهم ؛ اضحك معهم ؛ مازحهم ؛ 
اخرج معهم ؛ كن كالطفل بينهم ؛
واجعل التعليم والأدب مع اللهو واللعب .

اترك الجوال قليلا لو سمحت ، واغلق التلفاز أيضا لو تكرمت ، واعتذر من الأصدقاء لو تفضلت .
إني مشغول بأطفالي أيها الأحبة .

وكل هذا لا يعني سقوط الهيبة وضياع الشخصية وترك التأديب فالعاقل يعرف گيّــِْـفٍ يوازن الأمور ويتقن التربية .
وعليك بالدعاء وطلب التوفيق من الله
فهم سندك برحمة الله في الدنيا والآخرة .
مشكلات و‏​‏​​حّلـِو‏ل :

١- طفلك يكذب ؟ 
الحل :  اعطه الامان ، فالطفل لا يكذب إلا إذا كان خائف وتحت ضغط التهديد ، أشعره بالأمان ثم عزز لديه قيمة الصدق .

٢- طفلك عنيد ؟ 
الحل : لا تعانده اثناء عناده فهو يطبق ما يرى ! 
امنحه مزيدا من الحب والحضن .

٣-طفلك كثير الحركة ؟ 
الحل : أشغله بأنشطة حركية ، وليخفف من تناول الشوكلاته لانها تزيد من حيويته ، أعطه مسؤوليات .

٤- طفلك لا يأكل جيدا ؟ 
الحل : لا تغصبه أبدا ، حول تناوله للطعام إلى لعبة او منافسة ، زيّن له الطعام بالفواكه الملونة .

٥- طفلك يضرب اخوانه الصغار ؟ 
الحل : لا تقارنه باخوانه الأصغر ، وليكن حبك لهم بالعدل ولا تظهر ميلان قلبك لاحد منهم على الآخر .

٦- طفلك مدمن الالعاب الالكترونية؟
الحل : تدرج معه حتى يقلل من ساعات اللعب ولا تحرمه فجأة فيقبل عليها بشغف اكثر من قبل .

٧- طفلك يتلفظ بألفاظ بذيئة ؟
الحل : لا تصرخ عليه بل نبّه باللين وأخبره بأن نظافة اللسان من نظافة القلب وحاول معرفة المصدر .

٨- طفلك لا يصلي ؟ 
الحل : نحبّبه في الله ، نشعره بأن كل النعم بما فيها النقود التي يشتري بها الالعاب والحلـِوى هي من الله .

٩- طفلك يمص اصبعه أو يقضم أظافره ؟ 
الحل : طفلك يحتاج إلى الأمان فهو خائف من شيء ما يهدده او يشعر بدونية نتيجة مقارنته .

١٠-  طفلك سريع الغضب ؟
الحل : لا تعره اهتماما ولا ترد عليه بغضب مماثل وعلمه أن يتوضأ إن غضب ، وقل له اهدأ ثم نتفاهم .

١١-  ابنك ضعيف شخصية ؟ 
الحل : 
امنحه ثقة ، واعطه مسؤوليات ، أعطه الأمان ، لا تشعره بضعف شخصيته، ادخله في أندية رياضيّة فلها أثر عجيب على النفس والجسم .

١٢- طفلك ظهرت عليه علامات التالية : 
عدم رغبة بالدراسة  - صمت مفاجئ
قضم اظافر - خوف من الناس 
قد تكون بوادر اعتداء ( انتبهوا )

١٣- طفلك يتأتئ أثناء النطق؟ 
امدحه واكثر من تشجيعه ، لا تضحك على ما يقول واعرضه على أخصائي نطق لتدريبه على حسن النطق .

١٤- طفلك لا يقبل يدك ولا رأسك؟ 
الحل : بادر أنت بذلك حتى يقلدك إلى أن يعتاد على ذلك .

١٥- ابنك سرق ؟
الحل : لا تنعته بكلمة سارق !!
بل انصحه على انفراد ، دعه يرجع ما اخذه ، وابحث عن الأسباب التي ألجأته للسرقة وعالجها ، أشبع احتياجاته الماديّة والمعنويّة .

١٦- ابنك ظهرت عليه علامات البلوغ؟ علّمه آداب الطهارة وعزّز ثقته بنفسه ولا تسخر من شكله وصوته وبين له أنه أصبح مسؤلا عن سلوكه .
١٧- طفلك لديه بوادر صعوبات تعلم؟
الحل : اعرضه على أخصائي موثوق لدى جهة معتمدة فورا لتدارك الصعوبة قبل أن تتضخم .

١٨- ابنك بدأت تظهر عليه علامات الانوثة؟
الحل : قلل احتكاكه بالبنات بالتدرج ، اصحبه لمجالس الرجال ، ودرّبه على الخشونة المعتدلة .
وافعل العكس مع البنات إذا ظهرت عليها تصرّفات ذكوريّة .

١٩- طفلك يعاند ويبكي أثناء استيقاظه؟ 
الحل : امسح على رأسه بالهدوء وناده بأحب أسمائه واقرأ آية الكرسي بهدوء ، بدل الصراخ !

٢٠- طفلك بدأ يصرخ في محل الألعاب !؟ 
الحل : في عينيه ، حاوره دون انفعال لا ترضخ لطلبه حتى لو سكت حتى لا يتعلم هذا الاسلوب .

٢١- الإكثار من أسلوب : إن نفذت كلامي فسوف أعطيك نقودا أو حلاوة هذا الأسلوب يعلم الطفل أسلوب الانتهازية ومن بعدها الرشوة الخفية !
فضلاً أرسل هذه النصائح
لكل أب وأم 
فهي صيدلية تربوية رائعه

Thursday, April 10, 2014

مشہور ای نمبر اور ان کی شرعی حیثیت


مشہور ای نمبر کی اور ان کی شرعی حیثیت


























یہ کتاب درج ذیل لنک پر pdf شکل میں موجود ہے
https://www.dropbox.com/s/kfycbdb3rht42tc/E-Number%2BBook.pdf