BEST RESULT

Custom Search

Friday, October 2, 2015

حدود اختلاف

        منشی نورالحسن صاحب ساکن دورالہ حکیم الامت مولانا اشرف علی تھانویؒ سے بیعت ہیں نیک صالح شخص ہیں۔ وہ اپنا واقعہ بیان فرماتے ہیں کہ چونکہ حضرت تھانویؒ مسلم لیگ کے حامی تھے۔ حضرت تھانویؒ نے اس کی حمایت میں ایک رسالہ بھی تحریر فرمایا تھا اسلئے میرا رجحان بھی لیگ کی طرف تھا اور میرٹھ حلقہ کی مسلم لیگ کا ممبر بھی تھا۔ ایک دن ایک میٹینگ میں میں نے کہا کہ بھائی ہمارے حضرت تھانویؒ لیگ کی حمایت فرماتے ہیں اور حضرت مولانا حسین احمد مدنیؒ بھی بزرگ ہیں وہ کانگریس کی حمایت فرماتے ہیں، ہم کیا کریں؟ میٹنگ میں ایک شخص نے جواب دیا کہ وہ( حضرت مدنیؒ) کہاں کے بزرگ آئے، وہ کیسے بزرگ؟ مجھے ان کے جواب سے سخت صدمہ ہوا اور میں نے ان سے کہا کہ اگر مسلم لیگ کے اندر بزرگوں کی شان میں گستاخی کی جاتی ہے تو ایسی مسلم لیگ سے میرا تو استعفی میں آئندہ شریک نہیں ہوں گا۔ اور اسی صدمہ میں میں تھانہ بھون حاضر ہوا۔ شب میں بھائی سلیمان صاحب سے جو حضرت تھانویؒ کے خادم تھے ملاقات ہوئی، ان سے اس واقعہ کا ذکر کیا اس نے کہا۔ مدنی صاحب آپ کی نظر میں بزرگ ہیں؟ بزرگ تو شیطان بھی ہوتا ہے۔ میں نے کہا یہ جواب صبح کو حضرت سے کہونگا۔ اس نے کہا، ہاں کہدینا، مجھے اور صدمہ ہوا کہ جب حضرت کے خادم کا یہ حال ہے تو اوروں کا کیا حال ہوگا۔ پوری رات بے چینی میں گذری۔ صبح کو مجلس میں حاضر ہوا میری ہمت نہیں تھی کہ عرض کروں۔ اتفاق ایسا ہوا کہ ایک خط جو حضرت کے پاس کسی نے لکھا تھا حضرت نے سنایا۔ خط کا مضمون یہ تھا:-
     "حضرت! میں دیوبند بھی گیا ہوں، وہاں رحمت ہی رحمت دیکھی اور یہاں زحمت۔ گویا وہاں عفو بے انتہا اور یہاں بات بات پر پکڑ اور نکتہ چینی اس کی کیا وجہ ہے"
حضرت نے جواب لکھا اور پھر جواب بھی سنایا، جس کا مضمون یہ تھا:-
        "کیا تمہارے نزدیک دریا اور ڈوکرہ میں کوئی فرق نہیں، میں چھوٹا سا ڈوکرہ ہوں اور حضرت مدنی دریا ہیں۔ ڈوکرہ ذرا سی ناپاکی کا متحمل نہیں ہوتا اور دریا میں اگر پیشاب بھی کردیا جائے تب بھی وہ ناپاک نہیں ہوتا"
یہ جواب سن کر مجھے ہمت ہوئی اور میں نے عرض کیا حضرت تو اپنے آپ کو ڈوکرہ اور حضرت مدنی کو دریا فرمارہے ہیں۔ اور یہ ملاّ سلیمان ان کو ایسا ایسا کہتا ہے اور اپنا واقعہ بیان کیا۔ حضرت نے فرمایا: کیا یہ بات آپ ان کے سامنے کہدیں گے۔ میں نے عرض کیا ضرور کہدونگا۔ ملاّ سلیمان کو بلایا گیا۔ حضرت نے ان سے فرمایا کہ تم ان کو جانتے ہو۔ انھوں نے جواب دیا: جی ہاں یہ میرے دوست کے بھائی ہیں۔ حضرت نے فرمایا تمہاری ان سے کوئی لڑائی تو نہیں۔ اس نے کہا نہیں، پھر حضرت نے میری طرف اشارہ کرکے فرمایا اپنا واقعہ بیان کرو۔ میں نے پورا واقعہ بیان کیا جو میرٹھ مسلم لیگ کی میٹنگ میں پیش آیا تھا کہ یہ واقعہ میں نے سلیمان سے بیان کیا اسنے کہا کہ مدنی صاحب کو تم بزرگ سمجھتے ہو، بزرگ تو شیطان بھی تھا۔ حضرت تھانویؒ نے سلیمان سے کہا یہ ٹھیک کہتے ہیں۔ انھوں نے اقرار کرلیا کہ جی ہاں ٹھیک کہتے ہیں۔ حضرت تھانویؒ نے ایکدوسرے خادم کو آواز دی اور فرمایا سلیمان کا کان پکڑ کر خانقاہ سے نکالدو اور فرمایا: آج سے میرا تعلق ختم، نہ مجھ سے بات چیت کی اجازت ہے نہ خط و کتابت کی نہ مجلس میں حاضری کی'
        سلیمان صاحب خانقاہ سے چلے گئے مگر انتہائی پریشان تھے۔ حافظ محمد اسماعیل پانی پتی( جو حضرتؒ سے خصوصی تعلق رکھتے تھے) کے واسطہ سے حضرت سے خط و کتابت کی اور معافی کی درخواست کی۔ حضرت نے ارشاد فرمایا جن کی شان میں گستاخی کی ہے ان سے معافی مانگیں اور ان سے( حضرت مدنی‌ؒ) سے لکھوا کر لائیں کہ میں نے معاف کیا۔ اس کے بعد سوچونگا کہ کیا فیصلہ کروں۔ سلیمان صاحب حضرت مدنیؒ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور صورتِ حال بیان کی اور معافی چاہی۔ حضرت مدنی نے معاف کیا اور لکھ دیا "میں نے سلیمان کو معاف کیا آپ بھی معاف فرمائیں" یہ تحریر لاکر حضرت تھانویؒ کی خدمت میں پیش کی۔ حضرت تھانویؒ نے فرمایا: کیا معلوم پورا واقعہ بیان بھی کیا یا نہیں، پورا واقعہ جاکر بیان کریں اور حضرت مولانا اپنے قلم سے لکھیں کہ سلیمان نے یہ واقعہ بیان کیا اور میں نے معاف کیا۔ چنانچہ یہ دوبارہ حضرت مدنیؒ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور درخواست کی کہ حضرت یہ واقعہ لکھ کر پھر معافی تحریر فرما دیں۔ حضرت مدنی نے اپنے قلم سے تحریر فرمایا کہ سلیمان نے یہ واقعہ بیان کیا اور میں نے اس کو معاف کیا اور سفارش کرتا ہوں کہ آپ بھی معاف فرمادیں۔ اس کے بعد حضرت تھانویؒ نے معاف فرمایا اور مجلس میں حاضری کی اجازت دی مگر گفتگو کی اجازت نہیں دی، گفتگو کی اجازت اور بعد میں ہوئی۔۔۔۔۔۔

      حضرت تھانویؒ سے کسی شخص نے کہا حضرت مدنیؒ کے بارے میں کہ سیاست میں حصہ لیتے ہیں۔ حضرت تھانویؒ نے ارشاد فرمایا: "بس یہی دیکھا، یہ نہیں دیکھا کہ رات کو بارہ بجے تک بخاریؒ شریف بھی پڑھاتے ہیں"۔

آداب الاختلاف
افادات: مفتئ اعظم حضرت مولانا مفتی محمودالحسن صاحب گنگوہیؒ
مرتب: مولانا مفتی محمد فاروق صاحب دامت برکاتہم صفحہ نمبر141

Thursday, October 1, 2015

موبائل استعمال کرنے والوں کے لیے ایک نصیحت

سم اللہ الرحمن الرحیم

موبائل استعمال کرنے والوں کے لیے ایک نصیحت
رونگٹے کھڑے کر دینے والی کام کی بات

ایک فاضل اہل علم نے اللہ تعالی کی طرف سے ان کو سجھائی ہوئی ایک بہترین بات تحریر فرمائی ہے۔ 
🔹وہ لکھتے ہیں: کیا آپ جانتے ہیں کہ اللہ تعالی نے حضرات ِصحابہ کرام ؓ کا امتحان لیا تھا، جب کہ وہ حالت ِ احرام میں تھے- حج و عمرہ کے احرام کی حالت میں شکار ممنوع ہوتاہے- امتحان اس طرح ہوا کہ شکار کو ان کے اتنے قریب تک پہنچا دیا کہ اگر ان میں سے کوئی اسلحہ و آلات کے بغیرہاتھ سے شکار پکڑنا چاہے تو پکڑ سکے۔
قرآن میں ہے : 
’’ اے ایمان والو! اللہ تمہیں شکار کے کچھ جانوروں کے ذریعہ ضرور آزمائے گا جن کو تم تمہارے نیزوں اور ہاتھ سے پکڑ سکوگے ، تاکہ وہ یہ جان لے کہ کون ہے جو اس کو دیکھے بغیر بھی اس سے ڈرتا ہے۔ پھر جو شخص اس کے بعد بھی حد سے تجاوز کرے گا وہ دردناک سزا کا مستحق ہوگا۔‘‘ (مائدہ: ۹۴)
اس زمانے میں بھی ایسا ہی امتحان اور ابتلاء بکثرت پیش آرہا ہے، البتہ اس کا انداز اور طریقہ قدرے مختلف ہے۔
وہ کیا ہے اور کیسے ہے ؟
آج سے تقریباً ۱۰-- ۲۰ سال پہلے فحش تصاویر اور ناجائز ویڈیو کلپس وغیرہ کا حصول کافی حد تک دشوار اور مشکل ہوا کرتا تھا؛ لیکن آج کل موبائل اسکرین یا کمپیوٹر کے بٹن کو ہلکا سا ٹچ کرنے سے یہ سارے مناظر آنکھوں کے سامنے آجاتے ہیں۔ اعاذنا للہ منہ

اللہ تعالی کے ارشاد کو یاد کیجئے اور غور فرمائیے :
لیعلم اللہ من یخافہ بالغیب۔ اللہ تعالی جاننا چاہتا ہے کہ کون کون اللہ تعالی سے غائبانہ ڈرتا ہے۔ 
تنہائی میں اپنے جسمانی اعضاء کی خاموشی و بے زبانی سے دھوکے میں نہ پڑو؛ اسلیے کہ ایک دن ان کے بولنے کا بھی آنے والا ہے۔ 
قرآن میں ہے :
’ آج ہم انکے منہ پر مہر لگا دیں گے اور ان کے ہاتھ ہم سے بات کریں گے اور ان کے پیر ان کے کرتوت کی گواہی دیں گے۔‘

اللہ تعالی کے ارشاد کو پھر سے ذہن نشین کر لیجئے:
’اے ایمان والو! اللہ تمہیں شکار کے کچھ جانوروں کے ذریعہ ضرور آزمائے گاجن کو تم تمہارے نیزوں اور ہاتھ سے پکڑ سکوگے ، تاکہ وہ یہ جان لے کہ کون ہے جو اسے دیکھے بغیر بھی اس سے ڈرتا ہے۔ پھر جو شخص اس کے بعد بھی حد سے تجاوز کرے گا وہ دردناک سزا کا مستحق ہوگا۔‘
خلوت میں معصیت زیادہ خطرناک ہے۔
ایک بزرگ کا ارشاد ہے :
’’ جب کوئی آدمی گناہ میں مبتلا ہو، عین اسی وقت ہوا کے جھونکے سے دروازے کا پردہ ہلنے لگے اور اس کے ہلنے سے آدمی یہ سمجھ کر ڈر جائے کہ کوئی آگیا، تویہ ڈرنا اس گناہ سے بڑا ہے جو وہ کر رہا تھا۔‘‘کیوںکہ یہ شخص مخلوق کے دیکھنے کے اندیشے سے بھی ڈرتا ہے ، جب کہ اللہ تعالی اس کو یقینا دیکھ رہے ہیں ، پھر بھی خوف نہیں کرتا۔

کوئی شخص تصاویر دیکھنے میں مشغول ہو اور دروازے پر کچھ آہٹ محسوس ہو تو اس کی کیا کیفیت ہوتی ہے؟
’ کلیجہ منہ کوآ جاتا ہے،سانس رک جاتی ہے اور دھڑکن تیز ہوجاتی ہے۔ پھر وہ اپنا کمپیوٹر بند کرکے دروازہ کھول کر دیکھتا ہے تووہاں بلی ہوتی ہے۔ ‘
اے میرے پیارے بھائی ! اللہ تعالی اس سے بھی زیادہ قریب ہے ، اس کا خوف کیوں نہیں ؟
مراقبہ کی دیوار
آدمی اور اس کے موبائل کی ناجائزاوررسواکن حرکتوں کے درمیان ’اللہ کے دھیان ‘ کی دیوار کے سوا کوئی دوسری چیز حائل نہیں۔
علامہ شنقیطی ؒ فرماتے ہیں :
 تمام علماء کا اس بات پر اتفاق ہے کہ اللہ تعالی نے مراقبہ یعنی ’اللہ کے دھیان‘سے بڑھ کر کوئی واعظ اور اس سے بڑی کوئی ڈرانے والی چیز زمین پر نہیں اتاری۔پس جس نے اس مراقبہ کی دیوار کو ڈھا دیا اس نے بڑی جسارت کا مظاہرہ کیا اور اللہ تعالی کو جسارت دکھلانابڑی خطرناک چیز ہے۔
اس زمانہ کا بزرگ شخص :
کسی بزرگ کا ارشاد ہے : ظاہر میں اللہ کا دوست اورباطن میں اللہ کا دشمن نہ بنو۔ 
اگر ایک طرف ہم یہ کہتے ہیں کہ :’’اس زمانہ میں پہلے کی بہ نسبت حرام کاموں تک رسائی بہت آسان ہو گئی ہے، ‘‘وہیں ہمیں یہ بھی جان لینا چاہیے کہ’’ اس زمانہ میں ’ترک حرام‘سے جتنا اللہ کا قرب حاصل ہوگا اتنا کسی اور چیز سے حاصل نہ ہوگا۔‘‘
 تنہائی میں گناہ سے خصوصی اجتناب 
تنہائی اور خلوت کے گناہوں سے بچو، بطورخاص اہل خانہ کی غیر موجودگی میں موبائل ، کمپیوٹر اورٹیلی ویزن کے گناہوں سے۔ اس لیے کہ خلوت کے گناہ ایمان کی راہ سے ڈگمگا دیتے ہیںاور ثابت قدمی کو نقصان پہنچاتے ہیں۔
تنہائی کی عبادت کو لازم پکڑو۔ تم ا س سے اپنے نفس کو شہوات کی پکڑ میں آنے سے بچا سکوگے۔
اگر تم زندگی کی آخری سانس تک ایمان پر جمے رہنا چاہتے ہو تو خلوت میں مراقبہ یعنی ’اللہ کے دھیان ‘ کو لازم پکڑ لو۔
ابن القیم ؒ فرماتے ہیں : خلوت کے گناہ راہ ِحق سے متزلزل کردیتے ہیں اور عبادات سے ثبات قدمی نصیب ہوتی ہے۔
بندہ اپنی خلوت کو جتنی زیادہ پاکیزہ رکھے گا ، اللہ تعالی قبر میں اس کی تنہائی کو اسی قدر شاد و آباد رکھے گا۔
رہا معاملہ قیامت کے دن کا تو سنو!
حضرت ثوبان ؓ سے مروی ہے : نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا :
’’میں اپنی امت کے کچھ لوگوں کو اچھی طرح جانتا ہوں ، جو قیامت کے دن مکہ کے پہاڑوں جیسی نیکیاں لے کر آئیں گے ؛لیکن اللہ تعالی ان ساری نیکیوں کو اکارت کر دیں گے۔ حضرت ثوبان ؓ نے عرض کیا  : اے اللہ کے رسول ! ان کے کچھ اوصاف و علامتیں ہمیں بتلا دیجئے : کہیں ایسا نہ ہو کہ بے خبری میںہم بھی انہیں میںسے ہو جائیں۔ حضور  ﷺ نے فرمایا سنو! وہ تمہارے ہی بھائی ہوں گے، تمہاری جنس اور نسل کے ہوں گے۔وہ تمہاری ہی طرح رات (کی نیکیوں)کوحاصل کریںگے ؛ لیکن جب اللہ کی حرام کردہ چیزوں کے ساتھ خلوت اور تنہائی کو پائیں گے تو ساری حدود توڑ کررکھ دیں گے۔ (رواہ ابن ماجہ)‘‘
موبائل ایک بینک لاکر کی طرح ہے۔
موبائل فون ایک صندوق ہے ، بالفاظ دیگر ’بینک لاکر‘ ہے، ان میں نیکیاں جمع کرو یا برائیاں۔ آپ اس میں جو بھی ڈالیں گے کل قیامت کے دن اپنے نامہ اعمال میں موجود پائیں گے۔
-----------------------------
اے اللہ ! ہمیں اپنا ایسا ڈر اور خشیت عطا فرما جو ہمارے اور تیری نافرمانیوں کے درمیان حائل ہو جائے۔
اے اللہ! ہم آپ سے خلوت وجلوت میں آپ کی خشیت کا سوال کرتے ہیں۔
ایک عربی مضمون کا ترجمہ، بہ حکم حضرت اقدس مولانا مفتی احمد خانپوری دامت برکاتہم ۔