BEST RESULT

Custom Search

Friday, August 25, 2017

بارہ آسان مشقوں سے قوت حافظہ کا بھرپور استعمال ممکن ہے:

بارہ آسان مشقوں سے قوت حافظہ کا بھرپور استعمال ممکن ہے:
آپ طالب علم ہیں اور اچھے نمبر لینا چاہتے ہیں۔ اچھے نمبر لینے کیلئے آپ کو اچھی یادداشت چاہیے اور سبق یاد کرنے کے طریقے آپ کو نہیں آتے۔
آپ محنتی بھی ہیں اور آپ کے Concepts بھی بہت واضح ہیں۔ ساتھ ہی ساتھ آپ نے ہر مضمون کو سمجھنے کے لیے پورا سال کلاس نوٹس بھی بنائے ہیں لیکن اگر آپ کو یاد کرنا نہیں آتا اور آپ یاد کرنے کے بنیادی اصولوں سے واقف نہیں تو امتحانات میں اعلیٰ کامیابی آپ کو نہیں ملے گی۔ انسانی ذہن پر کام کرنے والے سائنسدانوں کے مطابق ہمارے ذہن کے پاس دو لاکھ کھرب سے زیادہ حروف یاد کرنے، 40 زبانوں پر عبور پانے، ایک پورا انسائیکلوپیڈیا یاد کرنے اور درجنوں یونیورسٹیوں سے گریجویشن کی ڈگریاں لینے کی صلاحیت پائی جاتی ہے۔ لیکن آج اس مضمون میں ہمارا موضوع ذہنی صلاحیت نہیں بلکہ ذہنی صلاحیت کو استعمال میں لانا ہے۔
المیہ یہ ہے کہ ہمارے تعلیمی نظام میں استاد، کتابیں، سکول، کالج اور یونیورسٹیاں تو شامل ہیں لیکن ذہنی صلاحیت کو استعمال میں لانے اور سبق کو یاد کرنے کی مشقوں کے متعلق کچھ نہیں بتایا جاتا اور طالب علم اپنی ذہنی صلاحیتوں کو استعمال کیے بغیر پڑھائی کو بوجھ سمجھ بیٹھتے ہیں۔ ماہرین تعلیم ذہن کی سائنس(Mind Scinces) سے ناواقف ہوتے ہیں اور اس غلطی کا خمیازہ پورے سسٹم کو برداشت کرنا پڑتا ہے۔ جدید ملکوں میں یادداشت کو بہتر بنانے کے سیمینارز، لیکچرز اور ورکشاپس منعقد کی جاتی ہیں اور ان سے نہ صرف طالب علم بلکہ عام عوام بھی فائدہ اٹھاتی ہے۔ جب طالب علم کو یہ یقین ہوتا ہے کہ وہ بہت کچھ یاد کرکے اسے اپنے حافظے میں رکھ سکتے ہیں تو ان کا رجحان کتاب و علم اور تعلیم کی طرف چلا جاتا ہے۔ ہم کتاب، علم اور تعلیم سے اس لیے دور ہیں کیونکہ ہمیں یاد کرنے کے آسان طریقے نہیں بتائے جاتے۔ ہمیں اپنے آپ پر، اپنی صلاحیت پر اور اپنے ٹیلنٹ پر یقین نہیں ہوتا اور ہم اصل روشنی سے بہت دور چلے جاتے ہیں۔
آئیے یادداشت کو بہتر بنانے کے کچھ بنیادی اصول سیکھ لیں۔
۱۔ ہمیں وہ باتیں، وہ حقائق اور وہ واقعات جلدی یاد ہوتے ہیں جس میں ہماری ذات شامل ہوتی ہے۔ نفسیات میں اس کو I.Factor کہتے ہیں۔ آپ اپنے کالج کے دوستوں کے ساتھ گروپ فوٹو بنواتے ہیں لیکن جب بھی آپ یہ فوٹو دیکھیں گے تو سب سے پہلے اپنے آپ کو دیکھیں گے۔ آپ کوئی بھی کہانی یاد کریں لیکن یاد کرنے کیلئے اس کہانی میں خود کو شامل کرلیں۔ وہ کہانی آپ کو جلد یاد ہوجائے گی۔ آپ کسی بھی مضمون اور کسی بھی سبق کے حقائق کو اپنے ساتھ جوڑ لیں وہ سبق جلدی یاد ہوجائے گا۔
۲۔ ہمارا ذہن ایک طرح کی انفارمیشن اکٹھی کرتے کرتے بور محسوس کرنے لگتا ہے۔ اس لیے کبھی بھی ایک ہی مضمون کو لگاتار نہ پڑھیں بلکہ پڑھائی میںVariety لے کر آئیں۔ ایک خاص مضمون کی تیاری اور اسے یاد کرتے ہوئے ہمارے ذہن کے خاص مسل استعمال ہورہے ہوتے ہیں، انہیں آرام دینے کیلئے کچھ دیر کسی دوسرے مضمون کو پڑھ لیں اور پھر دوبارہ اصل مضمون کی طرف واپس آجائیں۔
۳۔ ہمیں وہ باتیں اور حقائق بھول جاتے ہیں جن کو ہم نے یاد کرنے کے بعد دہرایا نہ ہو۔ سائنسدان یہ کہتے ہیں کہ 24 گھنٹے کے بعد ہمارا ذہن بہت تیزی سے بھولنا شروع کردیتا ہے۔ 24 گھنٹے کے اندر اندر 80 سے 100فیصد تک مواد ہمارے ذہن میں رہتا ہے۔ اس لیے لازم ہے کہ 24 گھنٹے کے اندر اندر آپ سبق کو دہرا لیں۔ آپ صرف چند منٹوں کی دہرائی سے سبق کو کئی دن تک یاد رکھ سکتے ہیں۔
۴۔ ذہن کو ماہرین الماری کی طرح تصور کرتے ہیں۔ اگر الماری میں اشیاء بکھری پڑی ہیں تو تلاش کرنے میں تنگی ہوگی اور اگر ترتیب سے ہیں تو آسانی سے مل جائیں گی۔ یادداشت کو بہتر بنانے کیلئے جن باتوں کو یاد کرنا چاہتے ہیں ان کی ترتیب بہتر بنائیں۔ ترتیب بنانے کے ساتھ ساتھ ان کا آپس میں رابطہ بنادیں تاکہ یاد کرنا آسان ہوجائے۔۵۔ سبق یاد کرتے ہوئے 45 منٹ کی محنت کے بعد 10 منٹ کا وقفہ لیں۔ اس وقفے میں سبق کے متعلق مت سوچیں۔ آپ کی توجہ کا دورانیہ 45 منٹ تک ہوتا ہے۔ اس کے بعد ذہن کو تھوڑا سا آرام دینا ہوتا ہے اور ذہن کا آرام توجہ ہٹانے سے ممکن ہوتا ہے۔ آپ دس منٹ میں تفریح بھی کر سکتے ہیں، نماز اور ذکر وغیرہ میں بھی لگ سکتے ہیں اور چائے کے کپ کو بھی انجوائے کرسکتے ہیں۔
۶۔ ماہرین نفسیات ذہن کی صلاحیت کو بڑھانے کے لیے ’’خود کو ہدایت دینے کے طریقے‘‘ جس کو Auto Suggestion کہا جاتا ہے پر زور دیتے ہیں۔ خود کو بار بار یہ بتائیں کہ آپ کی یاداشت بہتر اور شاندار ہے۔ یہ کام آپ آئینے کے سامنے کھڑے ہوکر آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بھی کرسکتے ہیں۔ جب آپ خود کو یہ یقین دلا دیتے ہیں کہ آپ بہت کچھ یاد کرنے کے قابل ہوگئے ہیں تو یہ یقین اپنا جادوئی اثر دکھاتا ہے اور آپ کے اندر کا سویا ہوا جن جاگ جاتا ہے۔ ماہرین نے یادداشت کو بہتر بنانے کی فرضی گولیاں طالب علموں کو کھلائیں اور ساتھ یہ بتایا کہ ان سے آپ کی یادداشت 100 گنا بڑھ سکتی ہے اور نتیجہ واقعی 100 فیصد آیا، کیونکہ سب کو یقین ہوگیا تھا کہ اس طرح یادداشت بڑھ جائے گی۔ اسی طرح ہنری فودڈ کہا کرتا تھا کہ ’’خواہ تم یہ سوچتے ہو کہ تم کوئی کام کرسکتے ہو یا یہ سوچتے ہو کہ تم کوئی کام نہیں کرسکتے…تم درست ہوتے ہو۔
۷۔ آپ کو وہ باتیں اور واقعات زیادہ عرصے تک یاد رہتے ہیں جن کی آپ نے اپنے ذہن میں تصویر بناکر رکھی ہوتی ہے۔ ہمارا ذہن تصویروں میں سوچتا ہے۔ آنکھ کی یادداشت کان کی یادداشت سے 20 گنا زیادہ ہے۔ کوشش کریں کسی بھی Concept کو ذہن میں بٹھانے کے لیے ذہن میں ایک تصویر بنالیں۔ تصویر اور تصور کافی عرصہ تک آپ کے ذہن میں رہے گا۔
۸۔ کسی بھی سبق کو یاد کرنے سے پہلے وقت طے کرلیں کہ اس کو کتنی دیر میں یاد کرنا ہے۔ جب ہمارے پاس یاد کرنے والے مواد اور وقت کا ٹارگٹ واضح ہوتا ہے تو ہمارا ذہن جلدی یاد کرتا ہے۔ ذہن کی صلاحیت تب ایکٹو (Active) ہوجاتی ہے جب اس کے پاس کوئی ہدف ہو۔ آپ جب بھی یاد کرنے کے لیے بیٹھیں تو سٹاپ واچ پاس رکھ لیں اس طرح آپ اپنی یاد کرنے کی رفتار بھی بڑھا سکتے ہیں۔
۹۔ ہم پوری روٹی منہ میں ڈال کر نہیں نگل سکتے، ہمیں پہلے چھوٹے چھوٹے ٹکڑے بنانے ہوتے ہیں۔ پھر اس کو ہضم کرنا ہوتا ہے۔ بالکل اسی طرح ہمارا ذہن بھی کسی بہت بڑے مواد اور ڈیٹے کو اکٹھا ہضم نہیں کرسکتا۔ ہمیں شارٹ نوٹس (Short notes) یا (Key notes) بنانے کی عادت ڈالنی چاہیے۔ آپ کسی بھی سبق کے Main-Points ، اہم باتوں اور Facts کے نوٹس بنالیں اسی طرح یاد کرنا بھی آسان ہوجائے گا اور آپ کا وقت بھی بچے گا۔
۱۰۔ ہماری نیند اور آرام کا ہمارے حافظے کے ساتھ بہت گہرا تعلق ہوتا ہے۔ جب ہم مناسب نیند لیتے ہیں تو ہمارے ذہن کے خلیے فریش ہوجاتے ہیں۔ طالب علموں کو کم از کم 8 گھنٹے کی نیند لینی چاہیے۔ اگر آپ صبح جلدی اٹھنے کے عادی ہیں تو دوپہر کو تھوڑی دیر کیلئے آرام ضرور کریں اس طرح آپ بہت فریش محسوس کریں گے۔
۱۱۔ آپ اپنے دوستوں کا ایک ایسا گروپ بنالیں جس میں ہفتے میں ایک بار بیٹھ کر یادداشت کا مقابلہ ہوسکے۔ ہم تب زیادہ کام کرتے ہیں جب ہمارا دوسروں سے مقابلہ ہو۔ اگر ہوسکے تو اس گروپ میں غیر نصابی کتابوں کو بھی شامل کریں۔ اس طرح آپ میں مطالعہ کا ذوق بھی بڑھے گا۔
۱۲۔ ہمارے دماغ کی خوراک گلوکوز ہے۔ ہماری یادداشت تب بہتر ہوتی ہے جب ہم گلوکوز والی خوراک لیں۔ بالخصوص امتحانات میں ناشتے کے دوران آئل اور پروٹین والی خوراک سے پرہیز کریں۔ جوس زیادہ لیں اور اگر چائے پیتے ہیں تو اس میں چینی زیادہ لے لیں۔ان آسان تکنیکوں کو استعمال کرکے دوسرے ممالک کے بے شمار طالب علم امتحانات میں بھی اعلیٰ نمبر لیتے ہیں اور ساتھ ہی ساتھ بہت سے ورلڈ ریکارڈ بھی قائم کرچکے ہیں۔ آپ بھی نئے سال اور نئے سمسٹر کی پڑھائی کا آغاز ان طریقوں کے ذریعے کیجیے، پھر دیکھئے نتیجہ۔(مضمون نگار معروف ٹیچر اور ٹرینر ہیں۔ مختلف اداروں میں طالب علموں، گورنمنٹ ملازموں اور ٹیچرز کو ٹرینگ دے چکے ہیں)

Thursday, May 11, 2017

روح شرق بدن کی تلاش میں ہے ابھی

مصطفٰی کمال، پہلوی،عبدالناصر، قذافی ، بھٹو،  خمینی، احمدی نژاد سے اردگان تک- چمن نے رنگ و بو نے اس قدردھوکےدیئے مجھ ۔۔۔۔۔: اوریا مقبول جان
) امت نے گزشتہ ایک سوسال سے جسے پھول سمجھا وہ ان کے لیے زہریلا کانٹا ثابت ہوا ، ہر کوئی اپنی شخصیت اور نظریے کا غلام، اپنے مسلک کا وفادار، اپنی ہوس اقتدارکاپجاری .
ایک زمانہ تھا جب ایران کے صرد احمدی نژاد کا ہرمسلم ملک میں‌ چرچاتھا- اس کی غربت اورسادہ زندگی کی افسانے دہرائے جاتے تھے- اس کے فلیٹ کی ویڈیواوراس کا قالین پرسوجانا، سادہ سی گاڑی میں‌ گھومناایسے دکھایا جاتا تھا جیسے وہ آج کے دورمیں قرونِ سطیٰ کا کوئی افسانوی کردارہو- اس کو دنیا کے ہر مسلمان حکمران کے مقابل کھڑا کر کے یہ ثابت کرنے کی کوشش کی جاتی تھی کہ امت کو ایسے لیڈر چاہئیں- اس کے مسلک کے لوگ اسے ایران میں‌ انقلاب کی ایک نعمت بنا کر پیش کرتے تھے- لیکن چند دن پہلے جب اس نے اسی ملک ایران میں دوبارہ صدارتی انتخاب لڑنے کی خواہش کا اظہار کیا تو ایران کی اصل حکمران رہبری کونسل نے اس کی بولتی بند کردی اوراسے اپنی اوقات یاد دلا دی کہ تمہیں ہم نے لوگوں‌ کی نظروں میں‌ باکرداراورعظیم بنا کر پیش کیا تھا ورنہ اے حقیرانسان تمہاری یہ حیثیت کہ تم رہبری کونسل کے بڑے بڑے آیت اللہ اور حجت اللہ جیسے مرجعوں سے پوچھے بغیرالیکشن میں کودنے کا اعلان کرتے ہو، اور پھراحمدی نژاد کی بولتی بند ہوگئی اوراس کی ساری لیڈرشپ جھاگ کی طرح بیٹھ گئی- جس شخص کو امریکہ اور یورپ کو للکارنے اورشیر کی طرح دھاڑنے والا ثابت کیا جاتا تھا، اسے “قم” سے جاری ہونے والے ایک حکم نامے نے بکری بنا دیا- کیا یہ بالکل سادہ سا مسئلہ ہے جسے دو لائن کی خبروں کے بعد ختم کردیاجائے- ہوسکتا ہے میرے ملک کے میڈیا کے لیے یہ کوئی اہم موضوع نہ ہو- انہیں ایران میں جمہوریت قتل ہونے یا انسانی آزادی پامال ہوتی نظرنہ آتی ہولیکن اس پوری امت کا مسئلہ یہ ہے کہ اس کے سامنے کچھ عرصہ کے لیے مصنوعی ہیرومیڈیااورپراپیگنڈہ کے زور پر بنا کر پیش کردیے جاتے ہیں اور ایک کثیرتعداد ان کے پیچھے چل پڑتی ہے- پھر جب ان لیڈروں کے غباروں سے ہوا نکالنا مقصود ہوتی ہے توایک دم اس فضا میں بلند غبارے کو بچوں کی زبان میں‌ “پھُس” کردیا جاتا ہے-
احمدی نژاد ایک ایسے ہی غبارے کا نام تھاجس میں پراپیگنڈے کی ہوا بھری ہوئی تھی اورجس نے بھری تھی اس نے اسے “پھُس” کردیا- اس ساری صورتحال کو سمجھنے کے لیےایران کو سمجھنا بہت ضروری ہےاوراس کے گزشتہ 31 سال سے برپا انقلاب کا بھی ادراک لازمی ہے- یوں تو میں نے ایران کے انقلاب کا قریب سے مطالعہ 1979ء سے ہی شروع کردیا تھا کیونکہ میں ان دنوں‌ بلوچستان یونیورسٹی میں لکچرار تھا اور ایرانی انقلاب کی سب سے نزدیک متاثر ہونے والی آبادی کوئٹہ کی تھی، کوئٹہ کے ہزارہ چونکہ فارسی بولتے اور کئی سالوں سے دو وجوہات کی وجہ سے ایران کا سفر اختیارکرتے، ایک مشہد میں امام رضا علیہ السلام کے مزار کی حاضری اور دوسری سمگلنگ- کوئٹہ کی مارکیٹوں میں آپ کو اکثر ہزاروں دکانیں نظر آئیں گی- یہ افغانستان سے ہجرت کر کے یہاں‌ آباد ہوئے تھے- ان کی آبادی انتہائی مختصر تھی جو چند جگہوں میں سما جاتی تھی لیکن گورنر موسیٰ‌ کے مغربی پاکستان کی گورنری کے زمانے میں ان کو مقامی آبادی کے ہم پلہ “لوکل” قانونی تحفظ ملا تو پھر ان کی آبادی ایسے پھیلی کہ کوئٹہ کے دونوں‌ جانب پہاڑوں کے دامن اور ترائی کے علاقےان سے آباد ہونے لگے- ایرانی انقلاب نے ان میں ایک نئی روح پھونک دی- ادھر انقلاب ایران کے چند ماہ بعد روسی افواج افغانستان میں‌ داخل ہوگئیں- پورا افغانستان جنگ کا میدان بنا تویہاں دوسرے افغان مہاجر کے طورپر پاکستان آئےوہیں ہزارے بھی ہجرت کرکے یہاں پہنچے، باقی پشتونوں، تاجکوں‌ اور ازبکوں کے تو کیمپ موجود تھے جن میں انہوں‌ نے قیام کیا لیکن ہزارے کوئٹہ شہر میں اپنے ہم زبان، ہم مسلک اور ہم قبیلہ ساتھیوں کی مدد سے کوئٹہ کے شہری بن گئے- انقلاب ایران، افغانستان میں روس اور پاکستان میں ضیاءالحق یہ تین تبدیلیاں ایسی تھیں جو ایک دوسرے کی ضد تھیں- یہی وجہ ہے کہ انقلابِ ایران کے اثرات کی سب سے مضبوط جھلک کوئٹہ میں نظرآتی تھی اور ایرانی قونصلیٹ اور خانہ فرہنگ ایران ایک مرکزی حیثیت اختیار کرچکا تھا، جہاں ایرانی قیادت مقامی افراد سے مل کے انقلاب کی حمایت میں سیمینار منعقد کرتی اوریہاں کے دانشوروں، ادیبوں اورمولویوں کو ایران بلاتی، ایران کے انقلاب کو فرانس، روس اور چین کے انقلابوں کے ہم پلہ بنا کر پیش کیا جاتا اور وہاں پر نافظ اسلامی قوانین کی برکات کو دنیا بھرکے سامنے ایک معجزے کے طور پر پیش کیا جاتا- امریکہ کے مقابلہ میں ایران کے شدید ردِعمل اور جرآت نے بھی عام لوگوں کے دلوں میں ایران کی انقلابی قیادت کی دھاک بٹھا دی- یوں‌ لوگ پاکستان میں بھی تبدیلی کے لیے ایک آرزو کرنے لگے کہ ‘اس ملک کو ایک خمینی چاہیے’ اوراس کے ساتھ یہ بھی اضافہ کرتے کہ ‘جو ہر دس پندرہ بددیانت سیاستدانوں اورجرنیلوں کا ناشتہ کرتا ہے’ اس خواب، آرزواور‌خواہش کو ایران کی حکومت نے اپنی مدد سے اور پروان چڑھایا اورکوئٹہ شہر کو 5 جولائی 1986ء کا دن دیکھنا پڑا، جب انقلاب کی آرزومیں‌ تڑپتا ہوا ہزاروں کا جلوس پولیس سے جا ٹکرایا، لڑائی شروع ہوئی تواس کی قیادت فوج کا حاضر سروس کپتان لودھی کر رہا تھا جو اس مقصد کے لیے یہاں آیا تھا کہ اب تو انقلاب دورکی بات نہیں، تیرہ پولیس والوں کے سرکاٹ کر کھمبون پر لٹکا دیے گئے، آرمی آئی، کیپٹن لودھی سمیت وہاں‌ سے بھی لوگ مارے گئے اور اس کے بعد پاکستان میں ایرانی انقلاب درآمد کرنے کی آرزو دم توڑ گئی، لیکن اس واقعہ کے بعد پاکستان میں شیعہ سنی فسادات کے ایک ایسے دور کا آغاز ہو جس نے بے شمار مظلوم مسلمانوں کی جانیں لے لیں- آخر تویہ فساد عین سیدالنبیاء کی اس حدیث کے مصداق ہوگیا کہ نہ مارنے والے کو پتہ تھا کہ وہ کیو‌ں مار رہا ہے اورنہ ہی مرنے والے کو اندازہ کہ وہ کس قصورمیں مارا جا رہا ہے، پاکستان کی مثال میں نے وضاحت کے لیے دی ہے ورنہ 1979ء کے ایرانی انقلاب کے بعد پوری امتِ مسلمہ کے ممالک جہاں شیعہ سنی اختلافات تو موجود تھا لیکن اس میں گرم جوشی اور قتل و غارت شامل نہ تھا، وہاں بھی معاشرہ بدترین تقسیم کا شکار ہونے لگا، لبنان، کویت، بحرین، شام، عراق اور سعودی عرب ان ممالک مین شامل ہیں‌ جہا‌ں شیعہ سنی اختلاف کی آگ سے زمین جلنے لگی، یہ علاقے چونکہ ڈکٹیٹروں، آمروں اور نسلی حکمرانوں کے تسلط میں تھے اس لیے انہوں نے اپنے مخالف مسلک کے لوگوں‌کو دبانا، قتل کرنا اور غائب کرنا شروع کردیا، عراق میں‌ صدام حسین شیعہ آبادی کو قتل کرتا تو شام میں‌ حافظ الاسد اور بشارالاسد سنی آبادی کو، لبنان میں تو وہ خانہ جنگی برپا ہوئی کہ پورا بیروت شہرخانوں میں بٹ گیا- شیعہ، سنی علاقے میں نہیں جا سکتا تھا اورنہ ہی سنی، شیعہ علاقے میں قدم رکھ سکتا تھا، کویت، بحرین اور سعودی عرب میں بادشاہوں نے شیعہ انقلابیوں کو بھی قتل کیا اور سنی شدت پسند انقلابی بھی قتل کیے گیے، کسی کو شیعہ یا ایرانی نواز ہونے کے نام پرماراگیا توکسی کو القاعدہ کہ کرقتل کیا گیا-
ایک طویل عرصہ اس امت کے مسلمانوں‌نے ایران کے آیت اللہ خمینی کے انقلاب کو روح عصرسمجھتے ہوئے ویسے ہی انقلاب کی آرزوکی، اس کی شخصیت سے عقیدت رکھی لیکن جب اس کی کوکھ سے مسلک کے بدترین اختلاف نے جنم لیناشروع کیا تو لوگوں‌کے لیے حیرانی کا باعث تھا، شروع شروع میں‌اسے ایرانی انقلاب کو بدنام کرنے کی امریکی سازش قراردیاگیاجس کی پشت پر خوفزدہ عرب ریاستوں‌کا سرمایہ تھا. لیکن بدقسمتی کی بات یہ ہے کہ آیت اللہ خمینی نے بھی اگر کہیں‌ایران سے باہر انقلابی قوتوں‌کومنظم کرنے کی کوشش کی تو وہ مخصوص مسلک کے علاقوں‌میں‌جیسے لبنان میں‌حزب‌اللہ، کویت اوربحرین کی ہم مسلک آبادی کو بادشاہوں‌کے خلاف انقلاب کے لئے تیارکرنا، عراق میں باقرالصدرکی صورت میں مسلح‌جدوجہد کاآغاز، سعودی عرب کےمشرقی علاقے میں‌آباد شعیہ آبادیوں‌اوریمن نے زیدی مسلک کے نرم خو افراد میں‌انقلاب کی روح‌پھونک کر انہیں‌مسلح‌جنگ کے لئے تیارکرناجیسے اہداف تک محدود تھاوہ لوگ جو ایرانی انقلاب سے اپنی امیدیں‌وابستہ کیے ہوئے تھے ان کے لیے یہ بہت بڑے صدمے کا باعث تھا. اس لئے بھی کہ اس کے بعد مسلم معاشرہ شدید اختلافات کا شکار ہوکرایسا بٹا کہ آج مُسلم سرزمین پر سب سے زیادہ خوفناک قتل وغارت اسی بنیاد پر ہو رہی ہے. آیت اللہ خمینی کے انقلاب اور شخصیت کا جادو کم ہوا تو اس امت نے لبنان کے حسن نصراللہ سے امیدیں‌وابستہ کرنا شروع کردیں‌. پراپیگنڈا مشینری نے اسے روئے زمین پر اسرائیل کا سب سے بڑا دشمن ثابت کرنے کی کوشش کی، ایسا ہیروجس نے اسرائیل سے اپنے علاقے لڑکرواپس لئے، دنیا پوری اس فتح پر حسن نصراللہ پرنازاں‌تھی. لیکن لبنان کے مظلوم عوام جانتے تھےکہ اس جنگ کا مقصد صرف اورصرف بیروت کو تباہ کرنا تھا جس کی تباہی کے بغیر دبئی میں‌شروع ہونیوالی سرمایہ کاری کامیاب نہیں‌ہو سکتی تھی. اسرائیلی بمبارطیاروں‌کاہدف نہ حزب اللہ کے کیمپ رہے اور نہ ہی اس کی قیادت، بلکہ بیروت شہر کی سڑکیں، پل، ایئرپورٹ اورمعصوم شہری. جو اسرائیل حماس کے روحانی پیشوا احمد یٰسین کو وہیل چیئر پر میزائل سے شہید کر سکتا تھا، اس نے حسن نصراللہ کو جنگ کے دوران لاکھوں‌افراد کی ریلیوں‌سے خطاب کرکے مسلمانوں‌کا ہیروبننے کا شاندارموقع فراہم کیا، جس اسرائیل کوصابرہ اور شطیلہ کے کیمپوں‌میں‌معصوم بچوں‌کو شہید کرنے اور بیروت کی شہری آبادی پر بم برسانے میں‌کوئی شرم اورہچکچاہٹ محسوس نہ ہوئی، وہ ہمیشہ حزب اللہ کی ریلیوں‌ کو اپنے خلاف پنپنے کا موقع دیتا رہا، یوں صرف چند سال میں‌ مسلمانوں‌نے حسن نصراللہ سے جو امیدیں‌وابستہ کی تھیں‌وہ بری طرح‌ٹوٹیں‌اور یہ تصور اس وقت پاش پاش ہوا جب اس نے بشاالاسد کی اقلیت بلکہ صرف دس فیصدعلوی اقلیت کو چارلاکھ مسلمانوں‌کو شہید کرنے اورسترلاکھ کو بے گھر کرنے جبکہ دس لاکھ بچوں‌کو یتیم کرنے میں‌مدددی.
قیادت کے سٹیج پر ایک اور شخص احمدی نژاد ابھرا، پوری امتِ مسلم امہ اسے ایران کا خودمختارصدرسمجھتی رہی جو امریکہ کے خلاف دھواں‌دھارتقریریں‌کرتا ہے. اسرائیل کو نیست و نابود کرنے کے دعوے کرتا ہے ، پورا مغرب اور امریکہ اسے بدترین دشمن قراردیتے ہیں. اس کی سادہ زندگی کی مثالیں‌دی گئیں‌، لیکن ایران میں‌بسنے والے آٹھ کروڑعوام بخوبی جانتے تھےکہ احمدی نژاد کی حیثیت، مرتبہ اور مقام تو ایک کٹھ پتلی سے بھی کم ہے، وہ تو ایک معمولی اہلکارتک بھرتی کرنے کا اختیار نہیں رکھتا، باہر کے لوگ نہیں‌جانتےکہ ایران میں‌ ملازم بھرتی کرنے کے لیے پبلک سروس کمیشن جیسا کوئی ادارہ موجود نہیں‌جو اعلٰی حکومتی آفیسر ان کا امتحان منعقد کرکے بھرتی کرے بلکہ قم کی رہبری کونسل ایک حکم نامے کے ذریعے سفیر، میرزبان، فرمانداریااستنداروغیرہ بھرتی کرتی ہے. سرکاری ملازم ہونے کے لیے آپ کی نظریاتی‌ومسلکی وفاداری بہت ضروری. صدر، پارلیمنٹ‌کےرکن اورسرکاری عہدیدارتک کسی کو بھی کسی وقت فارغ کیا جاسکتا ہےاور یہ کس قدر معمولی کاروائی لگتی ہے کہ فلاں‌کو کہہ دیا جائے، تم استعفٰی دواورگھرچلےجاؤاوروہ چوں‌چراں‌تک نہ کرسکے. یہی وجہ ہے کہ احمدی نژاد نے جب دوبارہ صدربننے کے لیے الیکشن لڑنے کی خواہش کا اظہارکیا تو اسے اس کی اوقات یاد دلا دی گئی. اس کے ذمے ایک ہی کام تھا کہ تم امریکہ اوراسرائیل کو للکارتے ہوئے اور ساتھ ساتھ امریکی حملے کے بعد ان کی حکومت کو مضبوط کرنے میں‌مدد فراہم کرتے رہو. امریکہ ایران کی مدد کے بغیر یہ جنگ نہیں‌جیت سکتا تھا.
انہی عشروں‌میں‌ملائشیا کے مہاتیرمحمد کا چہرہ ایک ہیرو کے طورپراُبھرا، لیکن اس بیچارے کو چونکہ اپنی اوقات یاد تھی اس لیے اس نے معاشی ترقی اورملکی خوشحالی تک خود کو محدودرکھا. وہ تو اپنے اردگرد انڈونیشیا، برما، تھائی لینڈ یہاں‌تک کہ فلپائن کے سوسال سے مظلوم مسلمانوں‌سے بھی لا تعلق رہا. البتہ اس کے ارشادات پریس میں‌اچھالےجاتے رہےجیسے اسلامی ممالک کی تنظیم کو او. آئی .سی (میں‌نے دیکھا) کہہ تمسخراُڑانا شامل تھا، لیکن ملائشیاء جیسی طاقتورمعیشت کے باوجود وہ اپنے مفادات اورسرحدوں‌سے باہر نہ نکل سکا. تقریباََ سوسال کے بعد ایک دفعہ پھرمسلم امہ ترکی کی جانب دیکھ رہی ہے، خلافتِ عثمانیہ کے زوال سے پہلے برصغیر کے غلام مسلمانوں‌نے تحریکِ‌خلافت میں‌ حصہ لیکر یہ ثابت کیا تھا کہ ان کے دل ایک جسد واحد کی طرح دھڑکتے ہیں. طیب اردوان کی قیادت کو ایک صیح‌مسلم اُمہ کےرہنما کے طورپرابھاراجارہاہے. ترکی کے عوام کی اکثریت بھی اسے ملتِ اسلامیہ کی مرکزیت یعنی خلافت کا نقیب سمجھتی ہے، اگرچہ طیب اردگان ہویااس کی پارٹی کے لوگ، خواب میں‌بھی خلافت کا نام نہیں‌لیتے. گزشتہ دنوں‌میں‌ریفرنڈم کےدوران ترکی میں‌موجودتھا. ترکی کے ڈپٹی پرائم منسٹرنعمان کرتلومس “Numan Kurtulmus” سے میں‌نے سوال کیا کہ کیا ریفرنڈم کے بعد ترکی کے آئین میں‌درج پہلے چاراصول جوسیکولرازم، مذہب کی حکومت سے نفی اورخلافت کے تصورکاانکارکرتے ہیں وہ بھی تبدیل کردیے جائیں گے تو اس نے سختی سے انکارکر دیا، یہی سوال میں‌نے طیب اردگان کی مشیر، ڈپٹی وزیرخارجہ اور دیگرعہدیداروں‌سے پوچھا تو ایسا انکارتھا کہ گھن گرج کے ساتھ کہ کہیں کسی کے یہ تصورمیں بھی نہ آجائےکہ ہم خلافت کا احیاء چاہتے ہیں. البتہ طیب اردگان سیکولرازم کے مقابلے میں‌اسلامی اقدارپرگفتگو، سرکاری امام مسجدوں‌کی خصوصی تعلیم ، حجاب پرپابندی کواُٹھانا، مسجدوں‌اورمدرسوں‌میں‌تقریبات کرنااورخودبھی ریفرنڈم میں‌حضرت ابوایوب انصاری رضی اللہ تعالٰی عنہ اورمولاناروم کےمزارپرحاضری دے کردعا کرنے جیسے اعمال سے ایک مذہب پسند یا اسلام پسند رہنما کے طورپراپناقد بلند کرچکا ہے. شام سے چالیس لاکھ کے قریب مہاجرین کو ترکی نے جس شاندارطریقے سے پناہ دی ہےاورجس اسلامی اخوت کا مظاہرہ کیا ہے اس کی مثال موجودہ تاریخ‌میں‌نہیں ملتی. لیکن دوسری جانب حیرت ہوئی جب اس کاکردارپرویز مشرف سے ملتا نظرآتا ہے جس کے پاس 20لاکھ افغان مہاجرین تھے لیکن ساتھ ہی اس نے جیکب آباد، شمسی اوردالبندین کے ہوائی اڈے امریکی طیاروں کودیئے ہوئے تھے، جہاں‌سے 51ہزاردفعہ امریکی جہازاُڑےاورانہوں نے افغان مسلمانوں‌کا قتل عام کیا، نام دہشت گردوں کا لیا جاتارہا. یہی عالم طیب اردگان کے ترکی کا ہے. پاکستان سے ہزاردرجہ بہتر ترکی نے شامی مہاجرین کی خدمت کی اورکررہا ہےلیکن شام کی سرحد کے نزدیک ایک ترک ایئرفورس کا اڈہ ہے انسالک (Incirlik) یہ اڈہ امریکیوں‌نے دوسری جنگِ‌عظیم کے بعد بنایا تھا جہاں سی آئی اے اور امریکہ کے لئے میزائل ٹیسٹ کرنے کی جگہ بھی ہے. پہلی عراق جنگ میں‌یہ اڈہ امریکہ کاسب سے اہم ٹھکانہ تھا جہاں‌سے عراق پرحملے ہوئے تھے. گیارہ ستمبر کے بعد اسی اڈے سے افغانستان میں‌لڑنے والے امریکیوں‌کو سپلائی فراہم کی جاتی تھی. 19 اگست 2003ء سے اس اڈے کوصدام حسین کی حکومت کے خاتمے کے لئے زورشورسے استعمال کیا جاتا رہا. شام کے مہاجرین کے قافلے ترکی آرہے تھے اوراسی دوران ترک حکومت نے 29جولائی 2015ء کو امریکہ سے ایک معاہدہ کیا کہ وہ انسرلک کا ہوائی اڈہ شام میں لڑنے والوں کے خلاف استعمال کرے گی . جرمنی نے اس پر 65 ملین یورو خرچ کئے. سب ایک ہی نام لیتے رہے ہم اس اڈے کو داعش کے خلاف استعمال کریں گے. حقیقت وہی تھی جو پاکستان کے جیکب آبادایئرپورٹ سے اڑنےوالے جہازوں کی تھی .
پرویز مشرف کی امریکہ نوازی اور طیب اردگان کی امریکہ دوستی میں‌تھوڑا سا فرق ہےاوریہ فرق جمہوری اورفوجی حکمرانی کی وجہ سے پیدا ہوا. پرویز مشرف کا حلقہ انتخاب فوج اور اقتداربندوق کی طاقت کی بنیاد پرمستحکم تھا، جبکہ طیب اردگان کو اپنے عوام کےسامنے جوابدہ ہونا پڑتا ہےاوراس کا حلقہِ انتخاب وہ ترک عوام ہیں‌ جو ترکی میں نوے سالہ سیکولراورلبرل اقتدارسے نالاں‌تھے، اپنی اقتدارکی ازسرنوبحالی کے لیے سرگرم اسلام کی نشاۃِ ثانیہ کےخواب آنکھوں‌میں‌سجائے ہوئے ہیں. مشرف کو امریکہ کے سامنے جھکنے، اس کے مطالبات من‌وعن ماننےاورغلامی کی حدتک ان کے مفادات کا تحفظ کرنےمیں‌کوئی عارنہ تھی. وہ ایک ایسی فوج کاسربراہ تھا جن کے احکامات کی تعمیل بلاچون چرا اوربغیرکسی بحث کے کرتی ہے. لیکن اردگان تولوگوں‌کوخواب دکھا کر برسرِاقتدارآیاہے. ترکوں کی عظمتِ رفتہ کے خواب، جب وہ پوری ملتِ اسلامیہ کےرہنمااورمرکزِ امت تھے. لیکن اردگان کا المیہ یہ ہے کہ وہ قومی ریاست کے تصورمیں پھنس چکا ہے. نہ وہ اس سے باہرسوچتا ہے اورنہ اسے کوئی سوچنے دے گا. وہ سمجھتا ہے کہ ترک قوم کو مسلمان امت کی قیادت کرنا چاہیے جیسے خلافتِ عثمانیہ میں‌کی گئی تھی. اسےتاریخ‌کا یہ سبق قومیت کے تناظرمیں‌پڑھایا گیاہے. خلافتِ عثمانیہ اپنے آغاز سے ایک مسلم امہ اورمسلم خلافت کےجانشین کے طورپرقائم ہوئی تھی. بحیثیت ترک قوم کے نہیں. یہ بیج تو لارنس آف عریبیہ نے عربوں کے دلوں‌میں‌بویا تھا کہ تم ہی اصل میں‌اسلام کے وارث ہو. یہ ترک تم پر حکومت کرنے کہاں‌سے آگئے. اس کے مقابلے میں کمال اتاترک نے اسلام کے تصورملت کی نفی کرتے ہوئے ترک قومیت کا نعرہ بلند کیا اورجنگِ عظیم اول کے بعد جو بچا کچا ترکی مل سکا اسے ترک قومیت کے پھریرے اور سیکولرازم کے جھنڈے تلے جمع کردیا. یوں جیسے مشرف کے ہاں‌”سب سے پہلے پاکستان” تھا اسی طرح اردگان کے ہاں‌بھی “سب سے پہلے ترکی” اور اس کا مفاد ہے. لیکن مشرف جو چاہتا کرتا رہا، اسے کوئی پوچھنے والا نہ تھا. وہ عوام کے سامنے جوابدہ نہیں تھا، لیکن اردگان کو تو اپنے ووٹر کو ساتھ رکھنا ہے ، ان کا دل مٹھی میں کرنا ہے، اسی لیے وہ ان کے جذبات کو گرم رکھنے کے لیے ایسے چند اقدامات کرتا رہتا ہے جن کی بدولت لوگ اس کی قیادت پر اعتماد کرتے ہیں . قومی ریاست کے تصور اورجمہوری حکومتی نظام نے لوگوں کو ایسے لیڈر کا تصور دیا ہے جو باہر سے مغربی نظر آئے، اس کی زندگی بلکہ طرزِ‌زندگی بیرونی دنیا سے مختلف نہ ہو، یورپ کی طرح جمہوری نظامِ حکومت کی پاسداری کرے اور سب سے بڑھ کر یہ ہے کہ اپنے قومی مفادات کو پوری دنیا بلکہ انسانیت کے مفاد پر بھی ترجیح دے. یہ قومی مفاد ہی تو ہے، جنگِ عظیم اول اورجنگِ عظیم دوم میں پندرہ کروڑ افراد کو لقمہ اجل بناتا ہے ویت نام میں لاکھوں‌لوگوں‌کے گلے کاٹتا ہے، عراق اورافغانستان میں‌شہروں کے شہر کھنڈر بنا دیتا ہے. امریکہ اور مغرب نے سوچ لیا ہے کہ کس کس ملک کو تباہ وبرباد کرنا ان کے مفاد میں ہے تو پھر ان پر چڑھ دوڑے، نہ کسی کو معصوم بچے یاد آئے اور نہ کمزورعورتیں جو بھی اس کے مفاد کے میزائل کی زد میں آیا ماردیاگیااوربدرکردیاگیا. اردگان جس ملک کا سربراہ ہے اس کے پاس چھ لاکھ مسلح افواج کے جوان اورجدید طیاروں سے لیس ایئرفورس ہے . وہ نیٹوں‌کو اتحادی ہے . ترکی کے عوام کی امنگوں کا ترجمان ہے. حیرت کی بات یہ ہے کہ ایران اپنے جرنیلوں اورپاسداران کو بشارالاسد کے قتلِ عام میں مدد دینے کے لیے بھیج سکتا ہے. حزب اللہ لبنان کا عالمی بارڈر عبورکرکے دمشق اور حلب میں‌معصوم لوگوں‌کے خون سے ہولی کھیل سکتی ہے لیکن اردگان کی چھ لاکھ فوج شہریوں کو بچانے کے لیے آگے نہیں بڑھتی، لیکن جیسے ہی ترکی کے خلاف کردوں‌کی تنظیم پی کے کے کوبانی اور جرابلس میں زورپکڑنے لگتی ہے، ترک افواج شام میں داخل ہوتی ہے اور ایک وسیع علاقے تو اپنے زیرانتظام کرلیتی ہے جسے احرارالشام Free Syrian Army کے ساتھ مل کر آج بھی کنٹرول کیا جا رہا ہے. اس کے باوجود اردگان کے ترکی کی سب سے بڑی فلاحی تنظیم آئی ایچ ایچ پورے شام کے مہاجرین کی مدد کررہی ہے. اس کے ارکان دمشق اور حلب وغیرہ میں‌بھی جاتے ہیں. اردگان نے چالیس لاکھ شامی مہاجرین کو ترکی کی شہریت دینے کا بھی اعلان کیا ہے. اس اقدام سے اس کی سیاست کو دو فائدے ہوں گے، ایک تو یہ کہ کرد اقلیت کے مقابلے میں‌ایک نئی عرب اقلیت پیداہوگی جس کے دل ترکوں کے لیے دھڑکیں گے اوردوسراوہ طیب اردگان کے مستقل سپورٹررہیں گے. تیسرافائدہ وہ ہے جو امریکہ نے ضیاءالحق کےذریعے افغان مجاہدین کو کنٹرول کرنے کے بعد جنیوا معاہدہ کروانے کے لیے حاصل کیا تھا. کل اگر شام پر بشارالاسد کی جگہ کسی اور کو اقتدار سونپا جانا ہے تو اس نئے “جنیوامعاہدے” کا سب سے اہم کارپرداز اردگان کاترکی ہوگا. گزشتہ دنوں‌ترکی میں‌ریفرنڈم کےدوران جن لوگوں سے مجھے بات کرنے کااتفاق ہوا وہ اردگان سے اسلام کی نشاۃِ ثانیہ کے حوالے سے بہت سی امیدیں‌لگائے ہیں‌وہ سمجھتے ہیں‌کہ یہ آہستہ آہستہ ترکی کو ایک اسلامی سلطنت میں‌ڈھال دے گا. لیکن جب میں‌ان سے سوال کرتا کہ ان چودہ برسوں‌میں اس نے معیشت کو ٹھیک کرلیا، لیکن شراب، فحاشی، جواء نائٹ کلب، مساج پارلرجیسی چیزوں‌ پر پابندی نہ لگائی. اس لیےتو اتاترک زیادہ جاندارتھاکہ اس نے ایک لمحہ بھی نہ سوچا کہ عوام کی اکثریت اس کے خلاف ہوگی، مذہب کو ترک زبان سے خارج کردیا. ترک لباس تک ختم کیا اوراذان بھی ترکی زبان میں‌شروع کردی. ہزاروں‌کو قتل کیا جو اس کے اقدامات کے خلاف تھے مگر ترکی کو سیکولر ریاست بنا کر اس دنیا سے رخصت ہوا. میرا اگلا سوال ہوتا کہ کیاصرف حجاب پر سے پابندی اُٹھانا اور مزارات مقدسہ پرحاضری دینا اسلامی نظام کے نفاذ کے لیے کافی ہے تو جواب آتا اسے ریفرنڈم میں طاقت حاصل کرکے دراصل خود ایک “سلطان” بننا چاہتاہے. اردگان اپنے بیانات رفاحی اقدامات کی وجہ سے مسلم امہ کے دل میں اپنی قیادت کا چراغ روشن کررہا ہے. برما کے مسلمان برسوں‌سسکتے مرتے رہیں کوئی سفارتی کوشش یا دباؤ نہ ڈالا جائے لیکن پھر ایک دن اپنی بیوی کو بھیج کر اظہارِ یکجہتی کیا جائے. اسرائیل سے 2014ء میں‌گزشتہ دہائی کی ریکارڈ تجارت بھی فرہم کریں‌اورفریڈم فوٹیلا کےذریعے غزہ کا باڈر بھی کھلوائے. شمعون پیریز کو ترک پارلیمنٹ سے خطاب کا موقع بھی دے. اسرائیل کوترکی کے مناوگٹ دریا کے ذریعے پانی فراہم کرنے کا معاہدہ بھی کرے، شام کے بارڈر کے ساتھ ساتھ اسرائیلی کمپنیوں‌کو49 سال کے لیے زمین بھی لیز پر دے ، اسرائیل کو دسمبر2012ء میں نیٹو کا رکن بنانے کی حمایت کرےاورساتھ ساتھ بنگلہ دیش میں پاکستان کی حمایت کرنیوالوں‌کو پھانسیاں دینے پر سفیرواپس بھی بلائے، بھارت جائے اورکشمیرکےحق میں بیان بھی دے. اس کے سارے بظاہراقدامات ایسے ہیں جو عام آدمی کے دل میں امید جگاتے ہیں، اسے مسلم امہ کے لیے ایک قیادت کے طورپرزندہ کرتے ہیں. *یہ امت جو کبھی مصطفٰی کمال، کبھی رضاشاہ پہلوی، جمال عبدالناصر، معمرقذافی ذوالفقارعلی بھٹو، آیت‌اللہ خمینی، حسن نصراللہ اور احمدی نژاد جیسے رہنماؤں‌سے امیدیں وابستہ کرکے مایوسی کی اتھاہ گہرائیوں‌میں‌بار بارڈوبی باربارابھری*، اس امت نے اس قدردھوکے اورفریب کھائے ہیں کہ ہر بار یہی احساس ہوا کہ
چمن نے رنگ و بو نے اس قدردھوکےدیئے مجھ کو                 
 کہ میں نے ذوقِ گل بوسی میں کانٹوں‌پرزباں‌رکھ دی

اس امت نے گزشتہ ایک سوسال سے جسے پھول سمجھا وہ ان کے لیے زہریلا کانٹا ثابت ہوا ، ہر کوئی اپنی شخصیت اور نظریے کا غلام، اپنے مسلک کا وفادار، اپنی ہوس اقتدارکاپجاری، ایسا صرف اور صرف اس لیے ہے کہ اس امت میں لیڈرشپ کا معیاراورپیمانہ سیدالانبیاء کی ذات نہیں. یہ وژن سیدالانبیاء کے سبز گنبد سے نہیں‌بلکہ اپنے اپنے لیڈروں کی قبروں ، مزارات اور قبرستانوں‌سے لیتے ہیں‌ ان کی کسوٹی چرچل، آئزن ہاوراورڈیگال ہے. جس دن کسوٹی سیدالانبیاء کی ذات اُن کا اسوہ اور سنت ہوگئی، روح شرق کو بدن مل جائے گا. اقبال کا خواب تعبیر پاجائے گا.

نہ مصطفٰی نہ رضاشاہ میں‌نمود اسکی
کہ روحِ شرق بدن کی تلاش میں ہے ابھی