BEST RESULT

Custom Search

Wednesday, April 27, 2016

زراعت اور اسلام

زراعت اور اسلام
قرآن مجید نے انسان کی جو ذمہ داریاں بتائی ہیںوہ تین طرح کی ہیں: ایک وہ جس کا تعلق انسان اور پوری کائنات سے ہے، دوسری وہ جس کا تعلق انسان اور اس روئے زمین سے ہے جہاں وہ آباد ہے، تیسری وہ جس کا تعلق انسان اور صرف خالقِ کائنات سے ہے۔ 
یوں تو ساری ذمہ داریوں کا تعلق خالق کائنات سے ہے؛ لیکن ایک خاص پہلو سے دیکھا جائے تو یہ تین ذمہ داریاں سامنے آتی ہیں ۔ جب اللہ تعالی نے فرشتوں کے سامنے تخلیق ِآدم کا ارادہ ظاہر کیا تواس موقع پر ارشاد فرمایا کہ وہ ایک جانشین پیدا کرنا چاہتے ہیں۔ اللہ کا جانشین یقینا تمام مخلوقات سے افضل ہونا چاہیے۔،اسی لحاظ سے انسان کو اشرف المخلوقات بنایا۔گویا خلافت وہ ذمہ داری ہے جس کا تعلق پوری کائنات سے ہے جس کااثر پوری کائنات پر پڑتا ہے۔ 
دوسری ذمہ داری وہ ہے جس کا تعلق صرف ذاتِ الٰہی سے ہے ’وماخلقتُ الجنَّ والانسَ اِلّالِیَعبدون‘ یعنی اللہ کی عبادت ۔یہ ذمہ داری صرف اللہ کی ذات سے تعلق رکھتی ہے۔ انسان اور اللہ کے در میان براہِ راست ربط اسی سے قائم ہوتا ہے۔
تیسری ذمہ داری وہ ہے جس کا تعلق اس روئے زمین سے ہے، اس ذمہ داری کا تذکرہ مختلف آیات میں مختلف انداز سے آیا ہے، ایک جگہ پر ہے کہ واستعمرکم فیھا اللہ تعالیٰ نے تم سے یہ مطالبہ کیا ہے کہ تم اس روئے زمین کو آباد کرو، تعمیرارض اس آیت میں انسان کی ذمہ داری بتائی گئی ہے، اسی لیے زمین کو انسانوں کے لیے متاع کہا گیا یعنی زمین میں تمہارے لیے ایک ایسا وقفہ ہے جس میں تم اس کی نعمتوں سے متمتع ہوسکتے ہو اور زمین سے متمتع ہونے کے لیے ضروری ہے کہ اسے آباد کیا جائے۔
زمین کی آبادکاری کے بارے میں قرآن کریم نے اور احادیث میں رسول اللہ  ﷺ نے متعدد ہدایات دی ہیں۔ واستعمرکم فیھاکی تفسیر میں علا مہ ابن کثیر ؒ نے لکھا ہے کہ ’اس کے معنی یہ ہے کہ اللہ تعالی نے تم کو اس زمین کا آبادکار بنایا ہے، اس سے رزق حاصل کروگے، اس میں کاشت کروگے اور اس سے وہ تمام فائدے حاصل کروگے جو تمہیں اس سے اٹھانے چاہیے‘(محاضرات معیشت : ۲۲)
علامہ قرطبیؒ نے لکھا ہے کہ اس آیت سے اندازہ ہوتا ہے کہ زمین کی آبادکاری انسان کے ذمہ فریضہ ہے، یہ کام دینی طور پر فرض اور واجب ہے، اس لیے کہ جب اللہ تعالی کسی کام کاحکم دیتا ہے یا انسان سے مطالبہ کرتاہے تو وہ مطالبہ یا حکم فرضیت یا وجوب ظاہر کرتاہے۔ ‘(محاضرات معیشت : ۲۲)
علامہ ابوبکر جصاص رازیؒ مزید وضاحت کے ساتھ تحریر فرماتے ہیں کہ واستعمرکم فیھا کے الفاظ سے اندازہ ہوتاہے کہ تعمیر ِارض کا کام واجب ہے، تعمیر ِارض زراعت کے ذریعہ ہو ، شجرکاری اور باغبانی کے ذریعہ ہو یا عمارتیں بناکر ہو جس انداز سے بھی زمین کی آبادکاری ہو وہ قرآن کے اس حکم کی تعمیل ہوگی جس میں انسانوں کو اس زمین کے آباد کرنے کا حکم دیا گیا ہے۔‘(محاضرات معیشت : ۲۲)
تعمیر ِارض اور کاشتکاری ایسا فرض کفایہ ہے جوتمام مسلمانوں پر مجموعی حیثیت سے واجب ہے، اگر کچھ لوگ اس فرض کو بجا لائیںگے تو بقیہ مسلمانوں کے لیے یہ عمل مندوب و مباح ہوجائے گا۔
علامہ قرطبی ؒسورہ بقرہ ، آیت ۲۶۱، مثل الذین ینفقون أموالہم فی سبیل اللہ الآیۃ کی تفسیر میں رقم طراز ہے کہ’ زراعت فرض کفایہ ہے، اس لیے امیرالمؤمنین پر لازم ہے کہ لوگوں کو کھیتی باڑی، باغبانی اور شجرکاری جیسے کاموں پر مجبور کریں۔‘(تفسیر قرطبی : ۴-۳۲۲)
گویایہ فریضہ امت ِمسلمہ پر اس وقت تک باقی رہے گاجب تک اس کی پیداوار مسلمانوں کے لیے کافی نہ ہوجائے اورغیروں سے اس بابت استغناء حاصل نہ ہو جائے، جب کہ یہ اپنی وسعت و قدرت میں بھی ہو۔
چنانچہ امّتِ مسلمہ میں سے کوئی بھی کاشتکاری وغیرہ نہ کرے اوراس سلسلے میں غیروں پر اعتماد کیا جاتا رہے توپوری امّت مسلمہ اس فریضہ میں کوتاہی کرنے والی اوراس کی تارک شمار ہوگی۔
ایسی حالت میںامام المسلمین کوچاہیے کہ وہ لوگوں کو اس کام پر مجبور کریں تاکہ ان شعبوںمیں کفایت حاصل ہو۔ اگر یہ کام کفایت کے طور پر کوئی نہ کرے تو پھرہرشخص پر مستقلاً فرضِ عین ہوجائے گا ۔ خاص طورپرایسے وقت میں جب کہ انسان غذا سے عاجزہوجائے،اور لوگوں کا محتاج ہوجائے۔
 (ابن الحاج،المدخل:۴؍۴، بحوالہ :فضل الزراعۃ والعمل فی الأرض:۲۸) 


Sunday, April 24, 2016

حضرت عمرپرلائبریری جلانے کے اعتراض کا جواب

سکندر اعظم کے بعد بطلیموس ثانی (Ptolemy II) مصر کے علاقہ کا حکمراں بنا،اس کا زمانہ تیسری صدی ق م ہے۔ وہ ذاتی طور پر علم کا قدر داں تھا۔ اس نے اسکندریہ میں ایک کتب خانہ بنایا جس میں مختلف علوم کی تقریباً 5 لاکھ (500،000) کتابیں تھیں۔ یہی وہ کتب خانہ ہے جو تاریخ میں کتب خانہ اسکندریہ ( Library of Alexanderia ) کے نام سے مشہور تھا۔ یہ کتب خانہ بعد میں ( اسلامی دور سے پہلے) تباہ کردیا گیا۔ اس کتب خانہ کے بارے میں غلط طور پر یہ الزام لگایا جاتا ہےکہ حضرت عمر فاروق ؓ کے حکم سے اس کو جلایا گیا ۔ حالانکہ ظہور ِ اِسلام سے بہت پہلے چوتھی صدی عیسوی میں اس کا وجود ختم ہو چکا تھا۔
انسائیکلو پیڈیا برٹانیکا (1984) نے لکھا ہے کہ وہ رومی حکومت کے تحت تیسری صدی عیسوی تک موجود تھا (I/227) اس کے بعد وہ باقی نہ رہا۔ حقیقت یہ ہے کہ اس کتب خانہ کا نصف حصہ جولیس سیزر ( Julius Ceaser ) نے 47 ق م میں جلایا ۔ تیسری صدی عیسوی میں مسیحیوں کو اس علاقہ میں غلبہ حاصل ہوا۔ اس دوران غالباً 391ء میں مسیحیوں نے اس کو جلاکر آخری طور پر اسے ختم کیا۔ اس بات کا اعتراف انسائیکلوپیڈیا برٹانیکا نے ان الفاظ میں کیا ہے۔
: These institiutions survived until the main museum and library were destroyed during the civil war of the 3rd century AD ; a subsidiary library was burned by Christians in AD 391 (I/479).
دو جگہ اس واضح اعتراف کے باوجود اسی انسائیکلوپیڈیا میں تیسرے مقام پر غیر ضروری طور پر کتب کی بربادی کو مسلم عہد کے ساتھ جوڑ دیا گیاہے۔ “سنسرشپ ” کے مقالہ کے تحت درج ہے کہ اس بات کے مختلف ثبوت موجود ہیں کہ اسکندریہ کا کتب خانہ مختلف مرحلوں میں جلایا گیا۔ 47 ق م میں جولیس سیزر کے ذریعہ ، 391ء ، 42ھ میں مسلمانوں کے ذریعہ ۔ بعد کے دونوں موقع پر یہ کہا گیا کہ ان کتابوں سے مسیحیت یا قرآن کو خطرہ ہے:
There are many accounts of the burning, in several stages, of part or all of the library at Alexandria, frm the siege f Julius Caesar in 47 BC to its destruction by Christians in AD 391 and by Muslims in 642. In the latter two instances, it was alleged that pagan literature presented a danger to the old and new Testaments or the Quran (3/1084)
معلوم نہیں یہاں مقالہ نگار نے مسلمانوں کو اس واقعہ کا ذمہ دار کیوں ٹھہرادیا حالانکہ خود برٹانیکا کے مذکورہ بالا دو اقتباسات اسکی واضح تردید کررہے یں۔ اسلام اپنی فطرت کے اعتبار سے علم کی حوصلہ افزائی کرتا ہے، اسی نے پہلی دفعہ تحقیق کی آزادی کا ماحول دیا، جسکی وجہ سے وہ سب کام جن پر سقراط ، ارشمیدس وغیرہ کو موت دی گئی مسلمانوں نے آزادی سے کیے اور ہر شعبے میں مسلمانوں نے سائنس کو ترقی دی ۔
ڈاکٹر فلپ ہٹی اپنی کتاب ہسٹری آف دی عربس میں لکھتے ہیں کہ یہ کہانی کہ کتب خانہ اسکندریہ خلیفہ عمر کے حکم سے برباد کیا گیا اور شہر کے لاتعداد حماموں کی بھٹیاں 6 ماہ تک کتب خانہ کی کتابوں کو جلا کرگرم کی جاتی رہیں ‘ ان فرضی قصوں میں سے ہے جو اچھی کہانی مگر بری تاریخ بناتے ہیں، حقیقت یہ ہے کہ بطلیموس کا عظیم کتب خانہ اسلام سے بہت پہلے 48 ق م میں جولیس سیزر کے ذریعے جلایا جاچکا تھا۔ ایک اور کتب خان جو مذکورہ کتب خانے کا ذیلی کتب خانہ تھا وہ تھیوڈوسیس (Theodosius) کے حکم سے 389 عیسوی میں جلادیا گیا۔ اس لئے عرب فتح کے وقت کوئی قابل ذکر کتب خانہ اسکندریہ میں موجود نہ تھا۔ عبداللطیف البغدادی جس کی وفات 1231 عیسوی میں ہوئی، بظاہر پہلا شخص ہے جس نے بعد کے زمانہ میں اس فرضی قصہ کو بیان کیا ہے ، اس نے کیوں ایسا کیا، اسکا ثبوت کیا تھا ، ہم نہیں جانتے۔ تاہم اسکا بیان بعد میں نقل کیا گیا اور بعد کے مصنفوں نے اسکو بڑھا چڑھا کے پھیلایا۔
( Philip k. Hitti, History of the Arabs, London, 1970, page 166)
بہت سے عیسائی مصنفین نے اس اک غیر مستند روایت کی بنیاد پر مسلمانوں پر علم دشمنی کا الزام لگایا ، جبکہ حقیقت یہ ہے کہ یہ کام وہی کتب خانوں کے ساتھ شروع سے کرتے آرہے ہیں، اس کتب خانے کے علاوہ بھی جب بھی انہیں اقتدار ملا انہوں نے مسلمانوں کے کئی عظیم کتب خانے جلائے ، تاریخ اسلام کے تلخ حقائق میں سے ایک دردناک حقیقت عیسائیوں کے ہاتھوں کتب خانوں کا نذر آتش ہونا بھی ہے جس کے باعث میراثِ اسلامی اور علوم شریعت کا کثیر حصہ دنیا سے مفقود ہو گیا ۔ 503ھ میں طرابلس (لیبیا)پر عیسائیوں نے قبضہ کیا تو وہاں کے کتب خانوں کو جلا دیا۔ صلیبی جنگوں کے دوران عیسائیوں نے مصر ،شام ،سپین اور دیگر اسلامی ممالک کے کتب خانوں کو بری طرح جلا کر تباہ وبرباد کر دیا ۔ان کتب کی تعداد تیس لاکھ سے زائد تھی۔۔ سپین میں عیسائی غلبے کے بعد وہاں کے کتب خانے جلا دیئے گئے ۔ قاضی ابن عمار نے طرابلس میں عالیشان کتب خانے کی تاسیس کی جس میں ایک لاکھ سے زائد کتابیں تھیں ۔یہ کتب خانہ صلیبی جنگوں کے دوران برباد کر دیا گیا ۔

Wednesday, April 20, 2016

اختلافات کو بڑا کرکے دکھانا بڑی غلطی ہے

اختلاف ہونا اچھی بات بھی ہوسکتی ہے، اور بری بات بھی ہوسکتی ہے، لیکن کسی اختلاف کے سامنے مکبر شیشہ Magnifying Glass رکھ کر اسے کئی گنا بڑا کرکے دکھانا یقینا بہت بری بات ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ امت کا زیادہ گمبھیر مسئلہ اختلافات نہیں ہیں، بلکہ ہر اختلاف کو بہت بڑا کرکے دیکھنا اور دکھانا ہے۔
جاحظ، اسلامی تاریخ کا ایک زبردست تذکرہ نگار ہے، اس نے خلیفہ مامون رشید کا ایک واقعہ ذکر کیا کہ خراسان کے ایک عیسائی پادری نے اسلام قبول کیا، اس کے کچھ عرصے بعد وہ مرتد ہوکر دوبارہ عیسائی ہوگیا۔
مامون رشید نے اسے اپنے دربار میں طلب کیا اور اس سے بڑے ہی نرم اور ہمدردانہ لہجے میں اسلام سے لوٹ جانے کا سبب دریافت کیا، اس نے کہا، آپ لوگوں کے درمیان اتنے زیادہ اختلافات دیکھ کر میں متنفر اور بیزار ہوگیا ہوں۔ (أوحشني كثرة ما رأيت من الاختلاف فيكم)
مامون رشید نے اسے بتایا کہ ہمارے یہاں دو طرح کے اختلافات ہیں، ایک تو اس طرح کا اختلاف ہے جیسے اذان اور جنازے کی تکبیروں میں، تشہد کے الفاظ میں، عیدین کی نمازوں اور ایام تشریق کی تکبیروں میں، اسی طرح قرأتوں وغیرہ میں، تو یہ دراصل اختلاف ہے ہی نہیں، بلکہ یہ تو اختیار وگنجائش اور سہولت وکشادگی کی بات ہے، کوئی اقامت میں الفاظ کو دو دو بار ادا کرتا ہے تو کوئی ایک ایک بار، اور اس میں کوئی کسی کو نہ تو غلط قرار دیتا ہے اور نہ اس پر نکتہ چینی کرتا ہے۔ دوسرا اختلاف اس طرح کا ہے جیسے قرآن پاک کی کسی آیت کی تفسیر میں یا نبی پاک کی کسی حدیث کی تشریح میں اختلاف ہوجائے، ہمارے یہاں یہ اختلاف ضرور ہے لیکن ساتھ ہی یہ حقیقت بھی ہے کہ کتاب وسنت کی حقانیت اور ان کی اساسی حیثیت پر ہم سب اتفاق رکھتے ہیں۔ اگر اس طرح کا اختلاف ہمارے دین سے تنفر کی وجہ بنا ہے، تو دنیا میں تو کوئی کتاب ایسی نہیں ہے خواہ وہ تورات ہوانجیل ہو یا کوئی اور کتاب ہو، جس کے الفاظ کی تفسیر اور مفہوم کی تعبیر میں اختلاف نہیں ہوتا ہو، بلکہ دنیا میں کوئی زبان ایسی نہیں ہے جس کے الفاظ کے معنی میں اختلاف کی گنجائش نہیں ہو، اگر اللہ چاہتا تو اپنی کتاب اور اپنے رسولوں کے کلام کو اس طرح بنادیتا کہ ہمیں تفسیر وتشریح کی محنت کے بغیر مطلوب رہنمائی مل جاتی لیکن ہم دیکھتے ہیں کہ دین ودنیا کی کوئی چیز ہم کو اس طرح نہیں ملی ہے کہ ہمیں اس کے لئے کوئی محنت نہیں کرنا پڑے، اگر ایسا ہو تو امتحان اور مسابقت کا تصور ہی نہیں رہ جائے، اللہ تعالی نے اس طرح دنیا کی بنا رکھی ہی نہیں ہے۔
تذکرہ نگار کے مطابق اس وضاحت سے وہ شخص مطمئن ہوکر دوبارہ دائرہ اسلام میں داخل ہوگیا۔ (تفصیلات کے لئے ملاحظہ ہو، جاحظ کی کتاب البیان والتبیین)۔ 
واقعہ میں نصیحت کا پہلو یہ ہے کہ وہ شخص اسلام سے اس لئے متنفر ہوگیا تھا کیونکہ اس نے اختلافات کے بڑھے ہوئے حجم کو دیکھا تھا، جب اس کے سامنے اختلافات کا حقیقی حجم آیا تو اس کی وحشت دور ہوگئی۔

Wednesday, April 13, 2016

روایت کرنے والے صحابہ کرام اور ان کی مرویات کی تعداد

حضرات صحابہ کرامؓ  سے مروی احادیث کی تعداد
اس موضوع پر ابن حزم رحمہ اللہ کی عربی تصنیف  :أسماء الصحابه و ما لكل واحد منهم من العدد لابن حزم درج ذیل لنک سے ڈاونلوڈ کی جاسکتی ہے۔
http://www.archive.org/download/asmaa_sahaba_hazm/asmaa_sahaba_hazm.pdf
-----------------------------------
دوہزاریا اس سے زائد روایت کرنے والے حضرات کی تعداد مرویات
          (۱)      حضرت ابوہریرہؓ                       پانچ ہزار تین سو چوہتر        ۵۳۷۴
          (۲)     حضرت عبداللہ بن عمر بن خطاب        دو ہزار چھ سو تیس  ۲۶۳۰
          (۳)     حضرت انس بن مالک                   دو ہزار دو سو چھیاسی ۲۲۸۶
          (۴)     حضرت عائشہؓ صدیقہ                   دو ہزار دو سو دس   ۲۲۱۰
ایک ہزار سے یا اس سے کچھ زائد روایت کرنے والے حضرات کی تعداد مرویات
          (۵)     حضرت عبداللہ بن عباس               ایک ہزار چھ سو ساٹھ         ۱۶۶۰
          (۶)     حضرت جابر بن عبداللہ                 ایک ہزار چھ سو ساٹھ         ۱۶۶۰
          (۷)     حضرت ابوسعید خدری                  ایک ہزار ایک سو ستر         ۱۱۷۰
واضح رہے کہ ایک ہزار یا اس سے زائد حدیث کی روایت کرنے والے کو محدثین کی اصطلاح میں مکثرین کہا جاتا ہے۔
ایک ہزار سے کم روایت کرنے والے حضرات
          (۸)     حضرت عبد اللہ بن مسعود               آٹھ سو اڑتالیس    ۸۴۸
          (۹)     حضرت عبد اللہ بن عمرو بن العاص       سات سو ۷۰۰
          (۱۰)    حضرت عمرؓ بن الخطاب                 پانچ سو سینتیں       ۵۳۷
          (۱۱)     حضرت علی بن ابی طالب                پانچ سو   ۵۰۰
          (۱۲)    حضرت ام سلمہؓ (ام المومنین)                   تین سو اٹھہتر      ۳۷۸
          (۱۳)    حضرت ابوموسیٰ اشعری                تین سو ساٹھ       ۳۶۰
          (۱۴)    حضرت براء بن عازب                  تین سو پانچ        ۳۰۵
دوسو یا کچھ زائد روایت کرنے والے حضرات
          (۱۵)    حضرت ابوذر الغفاری (بکسر الغین)   دو سو اکیاسی        ۲۸۱
          (۱۶)    حضرت سعد بن ابی وقاص              دو سو اکہتر          ۲۷۱
          (۱۷)    حضرت ابوامامہ باہلی (بضم الہمزہ)       دو سو ستر           ۲۷۰
          (۱۸)    حضرت حذیفہ بن الیمان                دوسو پچیس        ۲۲۵
سو یا اس سے زائد روایت کرنے والے حضرات
          (۱۹)    حضرت سہل بن سعد                   ایک سو اٹھاسی      ۱۸۸
          (۲۰)    حضرت عبادہ بن صامت                ایک سو اکیاسی      ۱۸۱
          (۲۱)    حضرت عمرؓان بن حصین                ایک سو اسی        ۱۸۰
          (۲۲)    حضرت ابودردائ                     ایک سو اناسی       ۱۷۹
          (۲۳)   حضرت ابوقتادہ                        ایک سو ستر        ۱۷۰
          (۲۴)   حضرت بریدہ الحصیب الاسلمی           ایک سو سرٹھ      ۱۷۶
          (۲۵)   حضرت ابی بن کعبؓ                            ایک سو چونسٹھ     ۱۶۴
          (۲۶)    حضرت معاویہ بن ابی سفیان            ایک سو تہتر        ۱۷۳
          (۲۷)   حضرت ابو ایوب انصاری               ایک سو پچپن       ۱۵۵    
          (۲۸)   حضرت معاذ بن جبل                   ایک سو ستاون      ۱۵۷
          (۲۹)    حضرت عثمان بن عفان                 ایک سو چھیالیس    ۱۴۶
          (۳۰)   حضرت جابر بن سمرہ انصاری            ایک سو چھیالیسی    ۱۴۶
          (۳۱)    حضرت ابوبکرؓ صدیق                   ایک سو بیالیس     ۱۴۲
          (۳۲)   حضرت مغیرہ بن شعبہ                  ایک سو چھتیس      ۱۲۶
          (۳۳)   حضرت ابوبکرؓ                         ایک سو بتیس       ۱۳۲
          (۳۴)   حضرت اسامہ بن زید                   ایک سو اٹھائیس    ۱۲۸
          (۳۵)   حضرت ثوبان (مولی رسول)            ایک سو اٹھائیس    ۱۲۸
          (۳۶)   حضرت نعمان بن بشیر                  ایک سو چودہ       ۱۱۴
          (۳۷)   حضرت ابومسعود انصاری               ایک سو دو          ۱۰۲
          (۳۸)   حضرت جریر بن عبداللہ البجلی           ایک سو ایک       ۱۰۱
سو سے کم حدیث روایت کرنے والے صحابہؓ
          (۳۹)    حضرت عبداللہ بن ابی اوفی              پنچانوے ۹۵
          (۴۰)   حضرت زید بن خالد           اکیاسی   ۸۱
          (۴۱)    حضرت اسماء بنت یزید بن السکن         اکیاسی   ۸۱
          (۴۲)   حضرت کعب بن مالک                  اسی      ۸۰
          (۴۳)   حضرت رافع بن خدیج                 اٹھہتر   ۷۸
          (۴۴)   حضرت سلمہ بن اکوع                  ستتر     ۷۷
          (۴۵)   حضرت میمو نہ (ام المومنین)            چھہتر    ۷۶
          (۴۶)   حضرت وائل بن حُجر                   اکہتر     ۷۱
          (۴۷)   حضرت زید بن ارقم انصاری            ستر      ۷۰
          (۴۸)   حضرت ابو رافع(مولیٰ رسول ا)         اڑسٹھ    ۶۸
          (۴۹)    حضرت ابوعوف بن مالک               سرسٹھ   ۶۷
          (۵۰)   حضرت عدی بن حاتم                   چھیاسٹھ  ۶۶
          (۵۱)    حضرت ام حبیبہ (ام المومنین)         چھیاسٹھ  ۶۶
          (۵۲)   حضرت عبدالرحمن بن عوف            پینسٹھ    ۶۵
          (۵۳)   حضرت عمار بن یاسر                    باسٹھ     ۶۲
          (۵۴)   حضرت سلمان الفارسی                 ساٹھ    ۶۰
          (۵۵)   حضرت حفصہ (ام المومنین)            ساٹھ    ۶۰
          (۵۶)   حضرت اسماء بنت عُمَیس                 ساٹھ    ۶۰
          (۵۷)   حضرت جبیر بن مُطعِم                  ساٹھ    ۶۰
          (۵۸)   حضرت اسماء بنت ابی بکر                 اٹھاون   ۵۸
          (۵۹)    حضرت واثلہ بن اسقع                   چھپن    ۵۶
          (۶۰)    حضرت عقبہ بن عامر الجہنی             پچپن    ۵۵
          (۶۱)    حضرت شداد بن اوس                  پچاس    ۵۰
          (۶۲)    حضرت فضالہ بن عُبَید                  پچاس    ۵۰
          (۶۳)   حضرت عبداللہ بن بشیر                 پچاس    ۵۰
          (۶۴)   حضرت سعید بن زیدبن عمرو بن نفیل    تینتالیس ۴۳
          (۶۵)   حضرت مقدام بن معدیکرب           سینتالیس ۴۷
          (۶۶)    حضرت عبداللہ بن زید                 اڑتالیس  ۴۸
          (۶۷)   حضرت کعب بن عُجرہ                   سینتالیس ۴۷
          (۶۸)   حضرت ام ہانی بنت ابی طالب            چھیالیس ۴۶
          (۶۹)    حضرت ابوبَرزَہ اسلمی                   چھیالیس ۴۶
          (۷۰)   حضرت ابو جُحَیفہ                        پینتالیس ۴۵
          (۷۱)    حضرت بلال(موذن رسول ا)           چوالیس  ۴۴
          (۷۲)   حضرت جندب بن عبداللہ بن سفیان    تینتالیس ۴۳
          (۷۳)   حضرت عبداللہ بن مغفل               تینتالیس ۴۳
          (۷۴)   حضرت مقداد                         بیالیس   ۴۲
          (۷۵)   حضرت معاویہ بن حبوۃ                 بیالیس   ۴۲
          (۷۶)   حضرت سہل بن حُنیف                 چالیس   ۴۰
          (۷۷)   حضرت حکیم بن حِزام                  چالیس   ۴۰
          (۷۸)   حضرت ابوثعلبہ خُشَنی                   چالیس   ۴۰
          (۷۹)   حضرت ام عطیہ                       چالیس   ۴۰
          (۸۰)   حضرت عمرؓو بن العاص                 انتالیس  ۳۹
          (۸۱)    حضرت خزیمہ بن ثابت                 اڑتیس   ۳۸
          (۸۲)   حضرت زبیر بن عوام                   اڑتیس   ۳۸
          (۸۳)   حضرت طلحہ بن عبیداللہ                 اڑتیس   ۳۸
          (۸۴)   حضرت عمرؓو بن عنبسہ                  اڑتیس   ۳۸
          (۸۵)   حضرت عباس بن عبدالمطلب            پینتیس   ۳۵
          (۸۶)   حضرت معقل بن یسار                  چونتیس  ۳۴
          (۸۷)   حضرت فاطمہ بنت قیس                 چونتیس  ۳۴
          (۸۸)   حضرت عبداللہ بن زبیر                 تینتیس  ۳۳
          (۸۹)    حضرت خباب بن الارت               بتیس    ۳۲
          (۹۰)    حضرت عِرباض بن ساریہ               اکتیس    ۳۱
          (۹۱)    حضرت معاذ بن انس                   تیس     ۳۰
          (۹۲)    حضرت عیاض بن حماد                  تیس     ۳۰
          (۹۳)    حضرت سہیب                        تیس     ۳۰
          (۹۴)    حضرت فضل بنت حارث               تیس     ۳۰
          (۹۵)    حضرت عثمان بن ابی العاص الثقفی       انتیس    ۲۹
          (۹۶)    حضرت یعلی بن امیہ                    اٹھائیس  ۲۸
          (۹۷)   حضرت عقبہ بن عبد                    اٹھائیس  ۲۸
          (۹۸)    حضرت ابو اسید الساعدی                 اٹھائیس  ۲۸
          (۹۹)    حضرت عبداللہ بن مالک بن بجنیہ        اٹھائیس  ۲۸
          (۱۰۰)   حضرت ابو مالک اشعری                 ستائیس   ۲۷
          (۱۰۱)   حضرت ابوحمید الساعدی                 ستائیس   ۲۷
          (۱۰۲)   حضرت یعلی بن مُرّہ                    چھبیس   ۲۶
          (۱۰۳)  حضرت عبداللہ بن جعفر                چھبیس   ۲۶
          (۱۰۴)  حضرت ابوطلحہ انصاری                 پچیس    ۲۵
          (۱۰۵)  حضرت عبدالسلام بن سلام             پچیس    ۲۵
          (۱۰۶)   حضرت سہل بن ابی حشمہ                پچیس    ۲۵
          (۱۰۷)  حضرت ابو ملیح الہذلی           پچیس    ۲۵
          (۱۰۸)  حضرت فضل بن عباس                 چوبیس   ۲۴
          (۱۰۹)   حضرت ابوواقد اللیثی                   چوبیس   ۲۴
          (۱۱۰)   حضرت رِفاعہ بن رافع                  چوبیس   ۲۴
          (۱۱۱)    حضرت عبداللہ بن اُنیس                چوبیس   ۲۴
          (۱۱۲)   حضرت اوس بن اوس                  چوبیس   ۲۴
          (۱۱۳)   حضرت لقیط بن عامر                   چوبیس   ۲۴
          (۱۱۴)   حضرت ام قیس بنت مِحصن              چوبیس   ۲۴
          (۱۱۵)   حضرت عامر بن ربیعہ                  بائیس    ۲۲
          (۱۱۶)   حضرت قرۃ المزنی                     بائیس    ۲۲
          (۱۱۷)   حضرت سائب بن یزید                 بائیس    ۲۲
          (۱۱۸)   حضرت سعد بن عُبادہ                   اکیس    ۲۱
          (۱۱۹)   حضرت الربیع بنت مُعوذ                 اکیس    ۲۱
بیس عدد روایت کرنے والے اصحاب رسول 
(۱۲۰)   حضرت ابوبرزہ اسلمی                  (۱۲۱)   حضرت ابو شریح الکعبی
(۱۲۲)   حضرت عبداللہ بن جراد                 (۱۲۳)  حضرت مسور بن مخرمہ
(۱۲۴)  حضرت عمرؓو بن امیہ ضمری             (۱۲۵)  حضرت صفوان بن عسال
انیس حدیث کے راوی
(۱۲۶)   حضرت سراقہ بن مالک                 (۱۲۷)  حضرت سبرہ بن معہد الجُہُنی
اٹھارہ حدیث کے راوی
(۱۲۸)  حضرت تمیم الداری                    (۱۲۹)   حضرت خالد بن ولید
(۱۳۰)  حضرت عمرؓو بن حریث                 (۱۳۱)   حضرت اُسید بن حُضیر
(۱۳۲)  حضرت فاطمہ بنت رسول                (۱۳۳)  عبداللہ بن حوالہ الازدی
سترہ حدیث کے راوی
(۱۳۴)  النواس بن سمعان الکلابی                (۱۳۵)  حضرت عبداللہ بن سَرجِس
(۱۳۶) عبداللہ بن الحارث بن جزء
سولہ حدیث کے راوی
(۱۳۷)  صعب بن جثامہ              (۱۳۸)  قیس بن سعدبن عبادہ                  (۱۳۹)  محمد بن مسلمہ
پندرہ حدیث کے راوی
(۱۴۰)  مالک بن حیرث اللیثی                  (۱۴۱)   ابولُبابہ بن عبدالمنذر
(۱۴۲)  سلمان بن صُرَد                         (۱۴۳)   خولہ بنت حکیم
چودہ حدیث کے راوی
(۱۴۴)  عبدالرحمن بن شبل                   (۱۴۵)  ثابت بن ضِحاک
(۱۴۶) عبداللہ الصنابحی۔                  (۱۴۷)  عبیدہ بن الجراح
(۱۴۸)  طلق بن علی                     (۱۴۹) عبدالرحمن مرہ      
(۱۵۰)  حضرت سفینہ مولی رسول         (۱۵۱)   کعب بن مُرّہ
(۱۵۲)  ام سُلیم بنت مِلحان                     (۱۵۳)   الحکم بن عُمیر
تیرہ حدیث کے راوی
 (۱۵۴)  معاویہ بن حکم
(۱۵۵)  حسن بن علی بن ابی طالب               (۱۵۶)  حذیفہ بن اسد الغفاری
(۱۵۷)  سلیمان بن عامر                        (۱۵۸)  عروۃ البارقی
(۱۵۹)   صفوان بن امیہ بن خلف             (۱۶۰)  ابویعلیٰ انصاری                
بارہ حدیث کے راوی
(۱۶۱)   عبدالرحمن بن البزی
(۱۶۲)   عبداللہ بن عُکَیم                         (۱۶۳)  عمر بن مسلمہ
(۱۶۴)  عامر بن ربیعہ                          (۱۶۵)  ربیعہ بن کعبؓ
(۱۶۶)   سلمہ بن مُحبَق الہُذَلی                    (۱۶۷)  الشفا بنت عبداللہ العدویہ
(۱۶۸)  سبیعہ الاسلمہ                           (۱۶۹)   ابوبصرہ الغفاری    
گیارہ حدیث روایت کرنے والے حضرات صحابہؓ  
 (۱۷۰)  عمرو بن الحِمْق
(۱۷۱)   قبیصہ یزید بن قنافہ الطائی                         (۱۷۲)  وابصہ بن معبد الاسدی
(۱۷۳)  زینب بنت جحش (ام المومنین)                     (۱۷۴)  ضباعہ بنت زبیربن عبدالمطلب
(۱۷۵)  ابوالیَسر                                         (۱۷۶)  بسرہ بنت صفوان
 (۱۷۷)   نبیشہ بن ابو کبشہ الانماری  
جن صحابہ کرامؓ  سے دس احادیث مروی ہیں
(۱۷۸) ابومحذورہ                   (۱۷۹)  ام المومنین حضرت صفیہ
(۱۸۰)  عتبان بن مالک     (۱۸۱)   عروۃ بن مضرس   (۱۸۲)  عمیر مولیٰ ابوللحم
(۱۸۳)  مجمع بن جاریہ       (۱۸۴)  نعیم بن ہمار         (۱۸۵) ام کلثوم
(۱۸۶) ام مبشر الانصاریہ   (۱۸۷) ام معقل الاسدیہ   (۱۸۸)  ام ہشام بنت حارثہ الانصاریہ
(۱۸۹)   ام کرزہ      (۱۹۰)  خریم بن فاتک    (۱۹۱) عدی بن عمیرۃ
نو احادیث کے رواۃ
(۱۹۲)   بشیر بن خصاصیہ      (۱۹۳)   حمزہ بن عمرو اسلمی  (۱۹۴)   عمارہ بن روبہ      
(۱۹۵)   مطلب بن ابووداعہ    (۱۹۶)   نوفل بن معاویہ    (۱۹۷) ہشام بن عامر      
(۱۹۸)   ابوریحانہ (نام شمعون)     (۱۹۹)   ابوصرمہ           (۲۰۰) ابوالطفیل 
(۲۰۱)   ابیض بن حمال      (۲۰۲)  اشعث بن قیس     (۲۰۳) ابن الحنظلیۃ (سہیل)
آٹھ احادیث کے راوی صحابہؓ
(۲۰۴) سے (۲۲۲)
       اسماء بن شریک     اسود بن سریع      امیمہ بنت رقیقہ      ابن الحارث       
        جرہد              حسین بن علی      حنظلہ الکاتب       خولہ بنت قیس
        بنت خذام          رویفع بن ثابت     زینب (زوجہ مسعود)        عاتذ بن عمرو المزنی
         عبدالرحمن بن ابوبکر         عبدالمطلب بن ربیعہ          عمرو بن خارجہ     
       فریعہ بنت مالک            ام الحصین                ام رمیۃ       خنساء بن خدام
سات احادیث کے رواۃ
          حارث بن اوس    حارث بن یزد البکری         امۃ بنت خالد       ام المومنین حضرت جویریہ
           صیب بن مسلمہ    زینب بنت ابوسلمہ  سلمہ بن قیس الاشجعی         سلمہ بن صخر البیاضی
           سلمی (رسول ا کی آزادکردہ باندی)    سوید بن نعمان               عبداللہ بن السائب
           عبد اللہ بن المزنی   عرفجہ ابن اسعد     عقبہ بن حارث              علی بن شیبان
           عویم بن ساعدہ     قتادہ بن نعمان     قطبہ بن مالک                قیس بن طفخہ غفاری
           قیس بن ابوغرزہ    محمد بن عبداللہ بن جحش       مستورد بن شداد    مسیب ابوسعید
           معیقب            ابوامیہ                     ابوجمعہ             ام حرام بنت ملحان
چھ احادیث کے راوی صحابہؓ
          بشیر بن سحیم      حجاج الاسلمی       حارث الاشعری              حارثہ بن وہب الخزاعی      
          رافع بن عرامہ     سلمہ بن یزید       سوید بن مقرن               عاصم بن عدی
           عبداللہ بن حنظلہ    عبداللہ بن شخیر     عقیل بن ابی طالب           عویمر بن اشقر
          فلتان بن عاصم     قبیصہ بن المخارق    کرزبن علقمہ                 مالک بن الحویرث
          محمد بن صفوان      مخنف بن سلیم      مہاجر بن قنفذ                نصر بن حزن
          نعمان بن مقرن    ابوعیاش الزرقی    ابوالحمرائ                    ابووہب الجشمی
          ام حبیب ام العلاء
جن صحابہؓ  سے پانچ احادیث مروی ہیں
          ثعلبہ بن الحکم       خفاف بن ابما       خولہ بنت ثعلبہ      ربیعہ بن عباد
          سائب بن خلاد     سالم بن عبید        سلمہ بن نفیل       سفیان بن ابوزہیر
          سفیان بن عبداللہ الطائفی      ام المومنین حضرت سودہ     صحار العبدی        صفیہ بنت ابی شیبہ
          عثمان بن طلحہ       عمرو بن حزمؒ                  قابوس بن ابولمخارق لقیط بن صبرہ     
          مالک بن صعصعہ    مجاشع بن مسعود الاسلمی       محجن بن الاذرع             معقل بن سنان الاشجعی
           معمر بن عبداللہ بن نضلہ       معن بن یزید      ہانی بن نیاز                   یزید بن الاسود ابوالجعد
           ابوعبس بن جبیر    ابو غریب ام ایمن  ام درداء
          ام بجید                     
جن صحابہ کرامؓ  سے چار روایتیں  مروی ہیں
          ابی بن مالک        بشر بن ابی ارطاۃ    جاریہ بن قدامہ    جارود العبدی
           حارث بن عمرو     حارث بن قیس    حارث بن مسلم    حجاج بن عمر
           خالد بن عرفطہ     دیلم الحمیری        ذویب ابوقبیصہ     رکانہ بن عبد یزید
           رویبہ    زید بن حارثہ (رسول  کے آزاد کردہ غلام)   زیاد بن حارث
           صبرہ بن فاتک     سعد ابوعبدالعزیز   سنان بن سنہ        ضحاک بن سفیان
           طارق بن اشیم      علاء بن الحضرمی     عبداللہ بن ابوحدرد عبداللہ بن یزید الانصاری
          عبدالرحمن بن حسنہ عباس بن مروان   عتبہ بن غزوان     عثمان بن مظعون  
           عکاف بن وداعہ،    فیروز دیلمی         قیس بن عاصم المنقری        مالک بن ہبیرہ
          محمد بن صیفی        معاذ بن عفرائ     معاویہ بن خدیج             وحشی بن حرب
           ہانی بن ہانی         ہزال              ابوخزامہ                    ابوبشیر الانصاری
           ابوجبیرہ الانصاری  ابوحازم الانصاری  ابودہم                     ابویزید الانصاری
           ابولبیبہ            ابونجیح السلمی       ابن ابی عمیرہ                 ام حبیبہ بنت سہل
           ام ضبیہ           ام کردم           ام لیلیٰ                       ام المنذر
جن صحابہ کرامؓ  سے تین احادیث منقول ہیں
          احمر بن جزء الاغز المزنی        اقرم     انس بن مالک الاشہلی         انیسہ اہبان بن صیفی
           بدیل بن ورقائ    بصرہ بن ابی بصرہ    جاریہ بن ظفر      ابوغزان الحنفی
          جعدہ ابوجزئ       جنادہ الازدی       حارث بن وہب   حرملہ
          حکیم بن معاویہ     حارث بن زیاد     حبشی بن جنادہ      حنظلہ بن ندیم
           خارجہ بن حذافہ(خالد بن خلی)         خالد بن سعید       خالد الخزاعی        دحیہ الکلبی        
          درہ بنت ابولہب    ذوالجوشن سعید بن حریث     سعید بن یربوع
           ابن عنکثہ سلمہ بن سلامہ     سوید بن ہبیرہ      سوید بن قیس
           سہل بن حنظلہ الانصاری      سہل بن بیضائ     شریک بن طارق   صماد بنت بسر
           عابس التمیمی       عبداللہ بن حذافہ السہمی       عبداللہ بن حبیب   عبداللہ السعدی
           عبداللہ بن عبداللہ بن ابی      عبداللہ بن ابی الجدعائ        عبداللہ بن ابی حبیبہ عبداللہ بن قارب
           عبدالرحمن بن یعمر عبید مولی رسول  ا    عبید بن خالد        عراء بن خالد      
           عطیہ السعدی       عطیہ القرظی        علی بن طلق        عمارہ بن حزمؒ
           عمرو بن مرہ الجہنی  غطیف بن حارث  فاطمہ بنت ابوعمیش فروہ بن مسک
           کردم    مالک بن ربیعہ      ابومریم  مالک بن عبداللہ
           مالک بن عمر القشیری محرش الکعبی        محیصہ    میمونہ بنت سعد
           یزید بن ثابت     یوسف بن عبداللہ بن سلام   ابوالدراج         ابوحیہ البدری
           ابوزید    ابوسعد الانصاری   ابوشہم   ابو عبدالرحمن الجہنی
           ابوعزہ    ابوعنبہ الخولانی      ابوفاطمہ الازدی    ابولبید الانصاری
           ابومجیبہ الباہلی       ابوہاشم بن عتبہ بن کاس       ابن ام کلثوم        ام سعد
جن صحابہؓ  سے دو حدیثیں  مروی ہیں
          ابی بن عمارہ        اسلع     اسید بن ظہیر       اشج بنی عصر
           امیمہ اوس بن حذیفہ          اوس بن صامت    ایاس بن عبدالمزنی           جذامہ بنت وہب
           جعدہ بن خالد                حارث بن برصا    حارث بن قیس             حارث بن ہشام
           حارثہ بن نعمان               حارثہ بن قیس      حارث بن ہشام    حارثہ بن نعمان
           حارثہ (زید کے بھائی)         حکیم بن جابر       حکیم بن سعید المزنی حمزہ بن عبدالمطلب
          حمل بن النابغہ      خالد بن لجلاج      خشخاش العبدی     بنت ثامر
           دہر بن اخرم        ذوالاصابع         ذوالیدین رافع بن عمرو      
           رباح بن الربیع     ربیعہ بن الہاد      رفاعہ الجہنی        زاہر کنیت ابومجراۃ
           زینب    زید بن ابی مولی (سعد ابوبکر کے آزاد کردہ غلام)   سعید بن سعد
           سلمہ بن سلامہ بن وفش      سلیم بن جابر الہجیمی(یااصل نام جابربن سلیم الہجیمی ہے)     سلمہ بن خزاعی
           سندر     سوادہ بن ربیع      سوید بن حنظلہ      سوداء
           سہلہ بنت سہیل    شرحبیل بن حسنہ   شیبہ بن عتبہ        صخر الغامدی
           طارق بن مخاش     ظہیر     عائشہ بنت قدامہ    عباد
           عبداللہ بن ارقم     عبداللہ بن ثعلبہ    عبداللہ بن حنظلہ (غسیل الملائکہ)
           عبداللہ بن ربیعہ بن حارث   عبداللہ بن سائب   عبداللہ بن عدی
           عبداللہ بن قریط    عبداللہ بن مالک    عبداللہ بن المرقع   عبداللہ بن القرشی
          عبد اللہ بن ابی ربیعہ عبدالرحمن بن عائذ عبدہ بن حزن      عتاب بن شمیر
           عتبہ بن نذر        حدمی بن عدی      عرس بن عمیرہ     عقبہ بن مالک
           عمرو بن الاحوص    عمرو بن ثغلب       عمر بن غیلان       عمرو بن کعبؓ الیامی
           عمیر بن قتادہ       عیاش بن ابی ربیعہ  عیاض الاشعری    فرات بن حبان الفراسی      
           قتادہ بن ملحان      قدامہ بن عبداللہ   کعب بن عیاض     مالک بن عبداللہ الاودی
           مالک (کنیت ابوصفوان)       ماریہ (رسول ا کی آزاد کردہ باندی)    محمد بن حاطب
           محصن   مطلب بن عبداللہ حنطب     معقل بن مقرن    معقل بن ابومعقل
           معاویہ بن جاہمہ    میمونہ (رسول  ا کی آزاد کردہ باندی)   نافع بن حارث
           نبیط بن شریط       نعیم بن نحام        ولید بن عقبہ       وہب بن حذیفہ
           یعلی العامری      یسیر (اسیر) الدرمکی       ابوامامہ الحارثی      ابوبردہ
           ابوابراہیم ابوثابت  ابوالجعد  ابورافع الغفاری
           ابورفاعہ  ابوزہیر النمیری     ابوسعید بن المعلی    ابوسلامہ
           ابوسلمی (راعی و خادم رسول ا)         ابوسلیط   ابوشمح
           ابوسیارہ المتعی      ابوعمرہ   ابوغطیف          ابوکلیب
           ابومرثد الغنوی      ابونملہ (نام معاذ)  ابودردائ ام بشر بن براء
           ام الحکم   ام زیاد   ام عبدالرحمن بن طارق       ام عبداللہ بنت اوس
           ام عمارہ  ام معبد   ام ورقہ بن الرسیم
جن صحابہ کرامؓ  سے صرف ایک حدیث مروی ہے
          ابولحم اذرع السلمی   اذینہ اسماء بن جاریہ  اسمر بن مضرس     اسود بن اصرم المحاربی
           اقرع بن حابس     انیس     ابوفاطمہ  ایمن بن عبید
           انیس بن ابومرثد    اوس     ایاس بن عبداللہ    بروع بنت واشق  
          بریرہ(حضرت عائشہؓ کی آزاد کردہ باندی)        بسر بن محجن       بشر بن عاصم
           بشر کنیت ابونحیلہ    بشیر الغفاری        بشیر بن عقریہ      بشیر الاسلمی
           بشیر      بقیرہ (حضرت قعقاع کی اہلیہ)          بلال بن سعد
           تلب     تمیم المازنی         تمیم العدوی        ثابت بن رفیع
           ثابت بن صامت   ثابت بن قیس بن شماس       ثابت بن یزد       ثابت بن ابوعاصم
           ثعلبہ بن زہدم      ثعلبہ بن ابومالک    ثعلبہ     ثمامہ بن انس
           جاہمہ    جابر بن عمیر       جابر الاحمسی        جبار بن سلمی      
           جبیر الکندی        جبلہ بن ازرق      جدارالاسلمی       جرموز الہجیمی
           جعدہ بن ہبیرہ      جعفر بن ابوالحکم    جعیل الاشجعی       جمرہ ایربوعیہ
           جمیلہ بنت ابی بن سلول        جبارہ بن مالک      جندب بن سلمہ    جندب بن مکیث
           جندرہ بن خیشنہ    جودان   حارث بن بدل     حارث بن حارث
           حارث بن حاطب  حارث بن حسان   حارث بن خزمہ    حارث بن غزیہ
           حارث بن غطیف  حارث بن مالک    حارث بن نوفل    حارث الثقفی
           حارثہ الخزاعی       حازم بن حرملہ     حبیب بن فدیک   حبیبہ بنت ابوتجراء
           حبہ بنت خالد       حبان بن بح        حجاج بن عبداللہ    حجاج بن علاط
           ججرالمدری        ججیر بن بیان       حدرد بن ابی حدرد  حذیم السعدی
           حرام بن معاویہ    حرملہ العنبری      حرملہ الاسلمی      حسان بن ثابت
           حسان بن ابوجابر السلمی       حصین بن عوف الاحمسی       حکم بن حزمؒ        حکم بن عمرو الغفاری
           حمزہ بن ابواسید      حمنہ بنت جحش      حنظلہ السدوسی      حواء
           حویطب بن عبدالعزی        خالد بن عدی الجہنی خالد بن ابوجبل     خلاد
           خالدہ بنت انس     ام المومنین خدیجہ  خرشہ بن حارث    خزیمہ بن جزی
           خوات بن جبیر     خولی     خولہ بنت صامت   خیرہ (کعب بن مالک کی اہلیہ)
           دغفل    دکین بن سعید     دیلم الجیشانی        ذوالزوائد
           ذوالغرہ  راوع بن بشریا ابن بسر        رافع بن عمرو المزنی رافع بن مالک الانصاری
           رافع بن مکیث       رافع بن ابورافع الطائی        ربیع الانصاری      رسیم الہجری
           رشید السعدی       رفیقہ    زارع بن عامر العنبری        زہیر بن عثمان
           زہیر بن علقمہ      زہیر بن عمرو       زہیر بن قیس البجلی زنباع الجذامی
           زیاد بن حارث     زید بن حارثہ       زید بن خارجہ      زید بن ثابت
          زرارہ بن جزی     زنکل    سائب بن خباب   سائب بن خلاد کنیت ابو سہلہ
           سابط     سالم بن حرملہ      سبرہ بن ابوفاکہ     سراء بنت نبہان
           سعد بن اطول      سعد بن اسحاق      سعد بن تمیم سعد    سعید بن العاص
           سعید بن عامر       سعید     سعید بن ابوراشد    سعید بن ابوذباب
           سعید     سفیان بن مجیب    سفیان بن وہب الخولانی      سلمہ بن قیس      
           سلمہ بن نعیم        سلمی ام رافع (حضورا کی آزاد کردہ باندی)،       سلمی الجرمی
           سلامہ بن قیصر     سلامہ بن معقل    سلیل اشجعی        سلمان
           سواء بن خالد       سوید بن جبلہ       سوید الانصاری     سواد بن عمرو
           سہل بن حنیف     سہیل بن یوسف   شریک بن حنبل   شداد بن اسید
           شعبہ بن توام       شقی بن ماتع        شکل بن حمید       شمیر
           شموس بنت نعمان   شیبہ بن عثمان      شیبان   صخر بن عیلہ
           صعصعہ بن ناحیہ    صعصعہ   صفوان الزہریؒ     صلہ الغفاری      
          صمیتہ    صہیب (یہ صہیب رومی کے علاوہ ہیں ) ضحاک بن قیس
           طارق بن عبداللہ المحاربی      طارق بن سوید     طارق بن شہاب    طعمہ بن جرء
           طفیل بن سخبرہ     طلحہ بن مالک       طلحہ بن معاویہ      طلحہ السحمی
           طلحہ النصری        طلق بن یزید       طہفہ الغفاری       عابس الغفاری
           عامر بن شہر        عامر بن عاتذ       عامر بن مسعود     عامر المزنی
           عامر الرام         عاتذ بن قرط        عبداللہ بن اقرم    عبداللہ بن بدر
           عبداللہ بن جبیر الخزاعی       عبداللہ بن رواحہ   عبداللہ بن ربیعہ    عبداللہ بن زمعہ
           عبداللہ بن سبرہ    عبداللہ بن سعد     عبداللہ بن السعدی  عبداللہ بن سہیل
           عبداللہ بن عامر    عبداللہ بن عمار     عبداللہ بن عتبہ     عبداللہ بن عبدالرحمن
           عبداللہ بن عتیک   عبداللہ بن عدی    عبداللہ بن عیسیٰ    عبداللہ بن کعبؓ
           عبداللہ بن معقل بن مقرن   عبداللہ بن معبد    عبداللہ بن ہلال الثقفی        عبداللہ بن ابوامیہ
           عبداللہ بن اوشدیدہ عبداللہ بن ابوسفیان          عبداللہ بن ابو المطرف        عبید اللہ القرشی
           عبدالرحمن بن خباب         عبدالرحمن بن خماشہ         عبدالرحمن بن سبرہ بن سنۃ    عبدالرحمن بن عائش
           عبدالرحمن بن عتبہ عبدالرحمن بن عثمان         عبدالرحمن بن عدیس (یا حدیس)
           عبدالرحمن بن عمروالسلمی     عبدالرحمن بن قتادہ السلمی    عبدالرحمن بن مالک          عبدالرحمن بن معاذ
           عبدالرحمن بن معاویہ        عبدالرحمن بن ابوعقیل       عبادہ بن قرص      عبید بن خشخاش
           عباد بن شرجیل     عباد      عبدالحمید بن عمرو
           عبد عوف (قیس بن ابوحازم کے والد)   عبیدہ بن عمرو الکلابی عبید اللیثی
           عبید بن خالد السلمی  عثمان بن حنیف    عدی بن زید        عدی الجذامی
           عروہ بن عامر الجہنی عروہ بن مسعود الثقفی         عروہ     عسعس بن سلامہ
           عصام المزنی        عفیف الکندی      عقبہ بن اوس       عقبہ بن مالک
           عکرمہ بن ابوجہل   عکراش بن ذویب   علقمہ بن حویرث   علقمہ بن رمثہ البلوی
           علمقہ بن نضلہ       عمار بن اوس       عمارہ بن زعکرہ     عمار بن مدرک
           عمرو بن اراکہ      عمرو بن حارث     عمرو بن سعد        عمرو بن سفیان السلمی
           عمرو بن شاس      عمرو بن شعبہ       عمرو بن عامر بن طفیل        عمرو بن مالک الروسی
           عمرو بن معدیکرب عمرو بن الوعقرب  عمرو بن العجلانی     عمرو البکالی
           عمرو الجمعی         عمیر بن حبیب بن خماشہ      عمیر بن سلمہ      
          عمیر بن عامر بن مالک (کنیت ابوداؤد)   عمیر بن ابوسلمہ الضمری       عمر اللیثی
           عمیر بن العنری     عمیر     عیاض بن غنم      غالب بن ابوابجر
           عرفہ الکندی       فاکہ بن سعد       فجیع العامری       فروہ بن نوفل
           قارب اللیثی       قبیصہ البجلی        قتیلہ     قسامہ بن زہیر
           قطبہ بن قتادہ       قعقاع بن ابوحذرد  قیس بن خشخاش    قیس بن سائب
           قیس بن سہل الفیقحی          قیس بن سہل (حضرت یحییٰ بن سعیہ کے دادا)   
          قیس بن عائذ (کنیت ابوالکاہل) کبیشہ     کدیر الضبی
           کردم بن قیس      کلیب الجہنی        کلثوم     کندیر
           کیسان (رسول اللہ ﷺ کے آزاد کردہ غلام)    لیلی بنت فانف      مالک بن اخیمر
           مالک بن تیہان     مالک بن خشخاش    مالک بن عبادہ الغافقی         مالک بن عتاہیہ
          مالک بن عوف القشیری        مالک بن بن عمرو العبدی       مالک بن عمرو البلوی مالک بن قہطم
           مالک بن مرارہ     مالک الاشعری     مثعب   مجمع بن یزید
           محمد بن عبداللہ بن سلام       محمد بن عمرو بن علقمہ محمد بن فضالہ       محمود بن ربیع
           محجن الدیلی        مخمر بن معاویہ      مخرمہ بن نوفل     مرہ البہزی
           مرہ الفہری        مسعود البلوی       مسلم بن حارث التمیمی       مرزوق الصیقل
           مرداس بن عروہ   مرداس بن عبدالرحمن       مروان بن قیس    مسعود بن العجماء
           مسعود بن عمرو، مسعدہ (سپہ سالار)      مسور بن ندیہ       مسعور بن یزید
           مسلم بن رباع      مسلمہ بن مخلد      مطر بن عکاس      مطیع بن اسود
           معقل بن مقرن    مغیرہ    مسعد(۲) (منقذ بن عمرو المنہال)
           المنقع    مہران (حضور اکرم ﷺ کے آزاد کردہ غلام)    مہند الغفاری      
          مہاجر (حضرت ام سلمہؓ کے آزاد کردہ غلام)        میسرۃ (میسرۃ الفجر)        میمونہ بن سنباذ
           ناجیہ الخزاعی       نافع بن حارث     نافع بن عتبہ        نبیہ الجہنی
           نصر بن دہر الاسلمی  نصر السلمی          نضرہ     نضلہ
           نعیم بن مسعود الاشجعی         نعمان بن ہلال المزنی         نفیر ابوجبیر        نقادہ الاسدی
           نمیر بن تولب      نمیر الخزاعی        نوفل الاشجعی                 ہبیب بن معقل
           ہرماس بن زیاد      ہرم (ان کو وہب بن خنیش بھی کہتے ہیں )                   ہشام بن فدیک
           ہلال الاسلمی       ہند بن ابوہالہ       ہند الاسلمی                  ہنیدہ بن خالد الخزاعی
           یزید بن اخنس     یزید بن مسکن     یزید بن سلمہ                یزید بن شجرہ
           یزید بن شرح     یزید بن عامر السوائی         یزید بن مربع              یزید بن نعیم
           یزید بن نعامہ     یعقوب ، یعلی بن سیابہ                یعمر بن شداد
          ابوابی الانصاری     ابو اثیلہ (حضور  کے آزاد کردہ غلام)          ابوالارقم
           ابو اسید بن ثابت    ابو امیہ   ابو بشر الحثعی                 ابو بشر السلمی
           ابوبردہ بن قیس    ابوبردہ الظفری     ابوبعجہ             ابو ثعلبہ الاشجعی
          ابو ثور الفہمی        ابوحماد   ابوحازم مولی الانصاری                ابوحبیب العنبری
           ابو الحجاج الشمالی     ابوحدرد  ابو حصین           ابوخالد  
           ابو خلاد الانصاری   ابو خثیمہ  ابوالدجداح        ابو رفاعہ 
          ابورمثہ التیمی       ابو الرمدائ         ابوزہیرا الثقفی      ابوسائب
           ابو سعد بن فضالہ    ابو سعید الانصاری   ابوسفیان بن حرب ابوسلمہ  
           ابوسلامہ ابوسنابل بن بعکک  ابوسود   ابوسوید 
          ابو سہل  ابوسہلہ   ابوشیب  ابو صبرہ
           ابوطلیق الاشجعی     ابوعامر الاشعری   ابوعبدالرحمن المعظی         ابو عبدالرحمن الفہری       
           ابوعبداللہ الامجاری  ابوعبداللہ          ابوعزیز  ابوعقبہ  
           ابوعقرب          ابوعقیل  ابو غادیہ  ابوالغوث
           ابوفرہ    ابوفصیلہ  ابو  قتیلہ   ابوقتادہ السدوسی
           ابوالیقین ابومالک ابودرہم الازدی    ابوالعلاء الانصاری
           ابومنصور ابو المنتفق         ابومنفعہ  ابونعمان
           ابونضلہ الکنانی      ابوالنضر السلمی      ابو یجح السلمی        ابوہانی   
          ابوہند الداری      ابویزید بن ابو مریم  ابویزید الہلالی      ابو بحینہ  
          ابن حبشی ابن حذافہ         ابن سیلان         ابن شیاب
           ابن عاتش         ابن عبادہ بن صامت         ابوالفغوائ         ابن کیسان
           ابن مربع الانصاری ابن ابو شیخ اخوقرہ بن ایاس     عم حسناء الصریمیہ عم ابوحرہ
           عم جاریہ بن قدامہ  ام ایوب الانصاریہ  حضرت ابو ایوب کی اہلیہ      ام اسحاق
           ام انس   ام جمیلہ  ام الحجاج ام حمید
           ام خالد بن اسود     ام رومان ام سنبلہ 
          ام سلیمان بنت حکیم (یا بنت ابوحکیم)    ام شریک ام صہبا
           ام طفیل  ام عامر   ام عثمان بنت سفیان ام فروہ
           ام کبشہ  ام مالک البہزیہ    ام منیب  ام نضر
           ام ہانی الانصاریہ    ام ہلال بنت بلال   بنت حمزہ بن عبدالمطلب