BEST RESULT

Custom Search

Saturday, May 28, 2016

درہم، وزن، تاریخ اور فوائد

درہم خالص چاندی کا بنا ہوا سکّہ ہوتا ہے جسکا وزن 2.975 گرام ہوتا ہے۔ وزن کے اعتبار سے سات دینار کا وزن دس درہم کے برابر ہوتا ہے.

ترکی کی سلطنت عثمانیہ میں درہم 3.207 گرام کا تھا۔
1895 میں مصر میں درہم 3.088 گرام کا تھا.

تاریخ 

محمدصلی اللہ عليہ وسلّم کے دور میں چاندی کے ساسانیاور یونانی سکّے استعمال ہوا کرتے تھے، جس کا وزن 3 گرام سے لے کر 5۔3 گرام ہوا کرتا تھا۔ اہل عرب اس کاتبادلہ وزن کے حساب سے کیاکرتے تھے لیکن محمدصلی اللہ عليہ وسلّم نے ایک دینار کا وزن ایک مثقال قرار دیا، جو کہ 72 جو(barley) کے دانوں کے وزن کےبرابر ہوتاہے۔اور جدید معیار وزن کے مطابق اس کا وزن تقریبا 4.25 گرام ہوتاہے۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے دور میں ان سکّوں کو کاٹھا گیا اور اس کے وزن کوایک مثقال تک لایاگیا۔ اور آپ نے ایک معیار قائم کیا کہ سات دینار کا وزن دس دراہم کے برابر ہو۔ لہذا ایک درہم کا وزن تقریبا 2.975 گرام (تقریبا 3 گرام) ہوتاہے۔ حضرت عثمان کے دور میں اس پر بسم اللہ لکھا گیا۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ اور حضرت عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ اور حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ نے پہلی مرتبہ اپنے سکّے جاری کئے۔ بعد میں عبدالملک بن مروان نے مسلمانوں میں باقائدہ طورسےاپنے سکّے ڈھالنے شروع کئے۔ جس کاوزن نہایت احتیاط کے ساتھ 2.975 گرام (تقریبا 3 گرام) رکھا گیا۔

معیارِ وزن

درہم کا وزن بھی ایک مثقال سے اخذ کیا گیا ہے۔ جس کا وزن 72 جو(barley) کے دانوں کے وزن کے برابر ہوتاہے، جوکہ 25۔4 گرام کے برابر ہوتاہے۔ حضرت عمر کے قائم کردہ معیارکے مطابق سات دینار کا وزن دس دراہم کے برابر ہو، تو ایک درہم کا وزن تقریبا 2.975 گرام (تقریبا 3 گرام) ہوتاہے۔ اور اس کی خالصیت کم ازکم 22 قیرات (یعنی 7۔91 فیصد) ہونی چاہئیے۔اس لئےجدید اسلامی درہم بنانے والی اکثرکمپنیاں مثلاً عالمی اسلامی ٹکسال، وکالہ انڈیوک نوسنتارہ، ضراب خانہ اسعار سنّت وغیرہ اسی معیار کو استعمال کرتی ہیں۔ 

استعمالترميم

درہم کے بہت سے استعمالات ہیں۔جن میں چند ایک مندرجھ ذیل ہیں۔

بطورِ زر(زر)
بطورِمعیار نصابِ زکوٰۃ
بطورِادائیگی زکوٰۃ
مہر کا نصابِ معیار
اسلامی قوانینِ سزاوجزا (حدود) میں اس کا استعمال

فوائد

چاندی کے درہم کےبہت سے فوائدہیں۔

چاندی کے درہم کے بہت سے فوائد ہیں۔ کیونکہ کرنسی کی قیمت اس کے اندر ہونی چاہیے۔ لہٰذا چاندی کے سکوّں کی اپنی ایک قدر و قیمت ہے جو پوری دنیا میں قابل قبول ہے کیونکہ یہ ایک حقیقی دولت ہے کوئی ردّی کاغذ نہیں۔جدید معاشی نظام سے پہلے جب لوگ آپس میں تجارت کرتے تھے تو وہ جفرافیائی حدود سے آزاد تھے۔ وہ دنیا میں جہاں بھی جاتےتھے سونے اور چاندی کے سکےّ وہاں وزن کے حساب سے قبول کیے جاتے تھے۔ لوگوں کو کوئی تکلیف نہیں ہوا کرتی تھیں۔ ایسا ممکن نہ تھا کہ امریکہمیں بیٹھا کوئی بینکر یا شخص ہندوستان کی پوری قوم کو غلام بناسکے۔ اور اسکے علاوہ یہ بھی ممکن نہ تھا کہافغانستان میں بیٹھا ہوا کوئی شخص اگر تجارت کرے تو یورپ میں بیٹھا ہوا کوئی بینکر اس میں سے اپنا حصّہ نکال لے۔یعنی تجارت حقیقی دولت میں ہوا کرتی تھیں اسی لیے انسان آزاد تھے۔اسکے ساتھ ساتھ لوگ حکومت کے دھوکوں سے بھی آزاد تھے۔ اگر کوئی حکومت یا بادشاہ منڈی میں دولت لانا چاہتا تھا تو اسے سونا یا چاندی کہیں سے ڈھونڈ کر لانا پڑتا تھا۔ ایسا نہ تھا کہ بے دریغ دولت(کاغذی کرنسی)کے روپ میں یکدم منڈی میں ڈال دی جاتی، روپے،ڈالر وغیرہ کی قیمت میں کمی ہوجاتی۔ جسکی سزا عام عوام کو بگتنی پڑتی۔

یعنی اس دور مین جب کوئی حکومت یا بادشاہ ملکی خزانہ لوٹ لیتے ہیں تو پھر انکے پاس سرکاری ملازمین وغیرہ کو تنخواہ دینے کے پیسے(کاغذی کرنسی)کم پڑجاتی ہے تو وہ زیادہ کاغذی کرنسی چھاپ دیتے ہیں تاکہ ملازمین کو تنخواہیں دی جاسکے تو کاغذی کرنسی کی قدر میں کمی ہوجاتی ہے، لہٰذا اگر کسی مزدور نے پچھلے دس سالوں میں ایک لاکھ روپے جمع کئے ہیں۔ تو حکومت کی کاغذی کرنسی کی زیادہ چھپوانی سے اب اسکے ایک لاکھ روپے کی قدر پچاس، ساٹھ ہزار روپے ہوگی۔لہٰذا اس مزدور کی آدھی دولت حکومت نے ہڑپ کرلی اور اس بیچارے کو پتہ ہی نہیں کہ اصل میں کیا ہوا اس کے ساتھ۔. لہٰذا کاغذی کرنسی کے زیادہ چھپوائی کے ذریعے دنیا کی ہر حکومت اپنی عوام کی دولت کو لوٹنے کیلئے استعمال کرتی ہیں۔ اسی لیے اگر کرنسی سونے کی ہو تو حکومت کے لئے ممکن نہیں کہ زیادہ کرنسی کو چھپوا سکےکیونکہ اب کرنسی کاغذ کی نہیں بلکہ سونے کی ہے۔ لہٰذا سونے اور چاندی سے بنے کرنسی سے عوام کی دولت، حکومت اور بین الاقوام ادارہ برائے زر(IMF)کے دھوکوں سے محفوظ رہتیں ہیں۔

اس کے علاوہ چاندی کے دراہم اپنی قیمت ہر دور میں برقرار رکھتی ہے۔ اگر آپ کے پاس سونے اور چاندی کے سکےّ ہو تو آپ خواہ کسی بھی ملک میں چلے جائے تو اس کی قیمت برقرار رہتی ہیں۔ چاہے وہ کوئی بھی دور ہو یا جیسے بھی حالات ہو، جنگ کا زمانہ ہو یا امن کا دور، ملک کی معاشی حالت خراب ہو یا اچھی ہو، ہر حالت میں سونااپنی قیمت کو برقرار رکھتی ہے۔ کیوں کہ سونے سے بنے کرنسی کی وجہ سے، کرنسی کی قیمت و قدر اس کے اندر ہوتی ہے جب کہ کاغذ سے بنی کرنسی کی قدر اس کے اندر نہیں ہوتی بلکہ وہ ایک کاغذ کے سوا کچھ بھی نہیں ہے۔ اس لئے اگر ایک انسان سونے اور چاندی کے سکوّں کو زمین میں دبادے اور چھار، پانچ سو سال بعد کوئی شخص اس کو نکالے، تب بھی اس کی قیمت برقرار رہے گی، اور اس کے لئے یہ سکےّ ایک قیمتی خزانے کی شکل اختیار کریں گے۔ اس لئے اگر کسی کو آج سے چھار پانچ سو سال پہلے کے دور کے سکےّ مل جائے تو ہم کہتے ہے کہ اس کو خزانہ مل گیا ہے۔ یہ خزانہ دراصل اس دور کی کرنسی(روپیہ،پیسہ)ہی ہے، جو خزانے کی شکل اختیار کئے ہوئے ہے۔ اب آپ ذرا سوچئے کہ اگر اس دور میں بھی کرنسی کاغذ کی ہوتی تو پھر اس کی قدر ردّی کاغذ کے سوا کچھ بھی نا ہوتی۔ اس لئے اگر انسان سونا لیکر زمین میں دبا دے اور سو سال بعد اسکو نکالا جائے تو اسکی قیمت برقرار رہتی ہے۔ لہٰذا سونے چاندی کی وجہ سے وہ پرانا معاشی نظام پائیدار تھا۔اسکےعلاوہ سونے چاندی کے سکوّں کا یہ فائدہ بھی پہلے حکومتوں اور عوام کو ہوا کرتا تھا کہ اگر کوئی دشمن ملک آپکی کرنسی بنانا چاہتا تھا، تو اسے بھی سونے اور چاندی کے سکےّ ہی بنانے پڑتے تھے۔ اس کے لیے ممکن نہ تھا کہ وہ کوئی بھی ردّی کاغذ چھپوالیتا اور کرنسی کاپی کرلیتا۔

یعنی اس دور میں کرنسی کو دشمن ملک کی معیشت کو تباہ کرنے کے لئے استعمال کیا جاتا ہے۔ دشمن ملک آپ کی کرنسی کو چھاپ کر آپ کے ملک کے منڈی میں لاتا ہے، تو آپ کے ملک میں کرنسی زیادہ ہوجاتی ہے، جس کی وجہ سے اس کی قدر میں کمی ہوجاتی ہے اور ملک کا پیسہ تباء ہوجاتا ہے، جسکی وجہ سے معیشت خراب ہوجاتی ہے۔ لیکن اس نظام میں یہ ممکن نہیں جہاں کرنسی سونے اور چاندی سے بنی ہو۔چنانچہ دنیا کا سب سے پائیدار معاشی نظام ایک ایسا نظام ہوسکتا ہے جس میں کرنسی کی قدر میں کمی نہ ہو، یعنی کرنسی کی اصل قدر اسکے اندر ہو۔

اس کے علاوہ اگر دشمن ملک آپ کی کرنسی چھاپ لے تو وہ صرف کاغذ کے چند نوٹوں کے بدلے آپ کے ملک کے مارکیٹ سے کوئی بھی چیز خرید سکتے ہیں۔ مثلاً وہ آپکے مارکیٹ سے سونا، چاندی،گندم، وغیرہ ، غرض ہر چیز خرید سکتے ہیں۔ لیکن سونے کی صورت میں یہ ممکن نہیں۔ کاغذی نوٹ جل کر راکھ ہو جاتے ہیں، پٹ جاتے ہیں، پانی لگنے سے خراب ہو جا تے ہیں، وقت کے ساتھ ساتھ خراب ہو جاتے ہیں لیکن سونا اور چاندی نا جل کر راکھ ہو تی ہیں اور نا ہی پانی لگنے سے خراب ہوتی ہیں اور 22 قیرات سونے کا سکّہ جس کی ساتھ تھوڑا سا تانبا ملا ہوا ہو ، کی عمر ساٹھ سال سے زیادہ ہوتی ہیں۔یعنی ساٹھ سال مسلسل استعمال کےبعد شاہد اس کے وزن میں ایک فیصد کمی آ جائے، جس کو واپس ٹکسال لے جا کر اس میں ایک فیصد سونا ڈالنا ہو گا۔ جب کہ کاغذی کرنسی کی عمر دو سے تین سال ہوتی ہیں۔ 

Monday, May 23, 2016

مولانا ظفر علی خان.. تاریخ صحافت کا درخشندہ باب


مولانا ظفر علی خان ........ تاریخ صحافت کا درخشندہ باب
مولانا ظفر علی خان19 جنوری، 1873ء میں کوٹ میرٹھ شہر وزیر آباد میں پیدا ہوئے۔آپ کے والد کا نام مولوی سراج الدین تھا۔ پہلے آپ کا نام خداداد خاں رکھا گیا بعد میں اُن کی پیشانی پر فتح و جرا¿ت اور شجاعت و ظفر کے آثار دیکھتے ہوئے ان کا نام ظفر علی خاں رکھ دیا گیا۔ علی اللہ کا نام بھی ہے۔ علی ایک ایسا نام ہے جو جنگ ہو یا جلسہ، مسلمانوں میں حوصلہ، جراءت اور جوش و جذبہ پیدا کرتا ہے۔ ظفر علی خاں نے ابتدائی تعلیم مشن ہائی سکول وزیرآباد اور قرآن پاک کی تعلیم برصغیر کے نامور عالم دین حافظ عبدالمنان وزیرآبادی سے حاصل کی۔ بعد ازاں ظفر علی خاں نے اینگلو محمڈن کالج علی گڑھ سے فارغ التحصیل ہو کر ریاست حیدرآباد کے محکمہ داخلہ میں بحیثیت اسسٹنٹ سیکرٹری ملازمت کر لی۔ انہوں نے حیدرآباد میں ایک اطالوی کمپنی کے حیا سوز رقص کے بائیکاٹ کی پرزور حمایت کی جس پر ریاست کے انگریز ریذیڈنٹ سر مائیکل اوڈوائر نے حکومتِ ہند سے مولانا کی شکایت کر دی نتیجتاً انہیں فوری طور پر ملازمت سے فارغ کر دیا گیا۔ 

مولانا کے والد مولوی سراج الدین نے 1903ءمیں اپنے گاﺅں کرم آباد سے ایک ہفتہ وار اخبار ”زمیندار“ جاری کیا۔ والد کے انتقال کے بعد 1909ءمیں ظفر علی خاں اس کے ایڈیٹر مقرر ہوئے اور بعدازاں 1910ءمیں انہوں نے اپنے والد کے گہرے دوست چوہدری شہاب الدین جو کہ مشہور وکیل تھے، کے مشورے پر اخبار کو لاہور منتقل کر دیا۔ بعدازاں اخبار کو ہفتہ وار کی بجائے روزنامہ بنا دیا گیا اور یکم مئی 1911ءکو روزنامہ ”زمیندار“ کا پہلا پرچہ لاہور سے شائع ہوا۔

مولانا ظفر علی خاں کی شخصیت کا ایک اور اہم پہلو اُن کی صحافت، ادب اور سیاست سے جڑا ہوا ہے۔ اس صف میں مولانا کا کوئی ہم پلہ نہیں۔ نڈر، بے خوف، غرض و لالچ سے بے نیاز، کسی بھی جھوٹے پراپیگنڈے سے آپ کبھی دل برداشتہ نہیں ہوئے۔ جس مشن کو لے کر اُٹھے اُس کا علم بلند رکھا اور ظلم و استبداد کی طاقتوں کی خلاف پوری طرح نبردآزما رہے۔ دینِ اسلام کی سربلندی، شدھی اور سنگٹھن تحریکوں کے خلاف جہادِ مسلسل میں اُن کے پائے استقلال میں کبھی کوئی لغزش نہیں آئی۔ وہ برملا کہتے تھے کہ ”انسان آزاد پیدا ہوا ہے اور آزادی اُس کا پیدائشی حق ہے۔ انسان کا سر صرف خدائے لم یزل کے روبرو جھکنا چاہئے کیونکہ وہی عبادت کے قابل ہے۔“
انگریز کی غلامی اور ہندوستان کی محکومیت کے خلاف روزنامہ زمیندار کا کردار تاریخِ صحافت کا ایک درخشندہ باب ہے۔ مولانا میدانِ عرفات میں بارگاہِ ایزدی میں عرض گزار ہیں:
جو سزا چاہے، ہمیں دے لے کہ تُو مختار ہے
لیکن اپنوں کو نہ غیروں کی نظر میں خوار کر
ہند کو بھی اے خدا قیدِ غلامی سے چھڑا
اپنے گھر کا ہم کو بھی مالک بنا مختار کر

جیل میں چکی کی مصیبت کے ساتھ ساتھ مشق سخن جاری رکھنے کے لیے جو طرفہ طبیعت درکار ہے وہ حسرت کے ایک ہمعصر مولانا ظفر علی خاں کے حصے میں بھی آئی۔ ان دونوں کی مشکلیں اور مشغلے یکساں تھے۔ انگریز سے نفرت اور اس کی پاداش میں نظربندی۔ آزادی کا مطالبہ اور اس کے جواب میں جیل۔ دین کی خدمت، لہٰذا جائیداد قرق۔ اور جب اس احوال کو نظم کیا تو شعر بھی ضبط ہو گیا۔ شوق گناہ ہر سزا کے بعد بڑھتا چلا گیا اور ایک نے شائد گیارہ اور دوسرے نے چودہ سال قید اور نظربندی میں گزار دیئے۔ ان کی ایذا پسندی اور نازک خیالی کا یہ عالم تھا کہ ساری عمر مار کھاتے اور شعر کہتے گزر گئی۔ بالآخر سیاست کی راہ میں زندگی لٹا دینے کے بعد ان دونوں کا وہ سفر جو شور انگیزی سے شروع ہوا تھا، بڑھاپے اور قدر شناسی کی منزل پر ختم ہو گیا۔

مولانا کی شاعری کے دیوان: بہارستان، نگارستان، چمنستان، حبسیات کے صفحات سے درج ذیل چند اشعار پیش خدمت ہیں جن میں وہ جیل کی مشقت کا نقشہ یوں کھینچتے ہیں:
آج جن کی یہ خطا ہے کہ ذرا کالے ہیں
پی رہے ان کا لہو جیل کے رکھوالے ہیں
کبھی کولھو کی مشقت، کبھی چکی کا عذاب
جس سے ہاتھوں میں بچاروں کے پڑے چھالے ہیں
گوشت اور خون کے پرزے ہیں جو انگریزوں نے
قیصریت کی مشینوں کے لیے ڈھالے ہیں!
قید گورے بھی ہیں چوری میں مگر ان کے لیے
جیل سرکار نے گلزار بنا ڈالے ہیں
ہم کسی بات میں کم ان سے نہیں لیکن
اس کو کیا کیجئے وہ گورے ہیں ہم کالے ہیں
رنگ کے فرق پہ موقوف ہے قانونِ فرنگ
یوں نکلتے نئی تہذیب کے دیوالے ہیں
ہو گئے کس لیے کونسل کے سب ارکان خاموش
وہ بھی کیا ان ستم آرائیوں کے آلے ہیں
ہو گئیں زندہ روایاتِ احد زنداں میں
دانت ٹوٹے ہیں انہیں کے جو خدا والے ہیں

1934ء میں جب پنجاب حکومت نے اخبار پر پابندی عائد کی تو مولانا ظفر علی خان جو اپنی جرات اور شاندار عزم کے مالک تھے انہوں نے حکومت پر مقدمہ کردیا اور عدلیہ کے ذریعے حکومت کو اپنے احکامات واپس لینے پر مجبور کر دیا۔ اگلے دن انہوں نے اللہ کا شکر ادا کیا اور ایک طویل نظم لکھی جس کے ابتدائی اشعار یہ ہیں

یہ کل عرش اعظم سے تار آگیا
زمیندار ہوگا نہ تا حشر بند
تری قدرت کاملہ کا یقین
مجھے میرے پروردگار آگیا

مولانا ظفر علی خاں ہندوﺅں کے ساتھ چومکھی لڑائی لڑتے تھے۔ کہیں پنڈت مدن موہن مالویہ کے ساتھ شدھی اور سنگٹھن کی تحریک پر جھگڑا کیا اور اُن کو آڑے ہاتھوں لیا۔ ہندوستان میں مسلمانوں کو شدھ کر کے ہندو دھرم میں شامل کرنے کی یہ سازش سوامی شردانند نے تیار کی تو مولانا کا قلم پوری قوت سے اُن کے مقابلے میں آ گیا اور لکھا:

اک مست الست قلندر نے جب کفر کے چیلوں کو رگڑا
پہلے تو رگڑنے ناک لگے پھر پاﺅں پڑے اور سر رگڑا
وہ شدھی دوڑی جاتی ہے اور پیٹتی چھاتی جاتی ہے
خود کہنے لگی اب جاتی ہے دھڑ مست قلندر دھڑ رگڑا
یہ رگڑے جھگڑے یونہی رہے کچھ روز اگر اخباروں میں
سن لو گے ماتھا بھارت نے اسلام کی چوکھٹ پر رگڑا

ہندوﺅں اور انگریزوں کے مکروہ ارادوں کے آگے آہنی دیوار بن کر مسلمانوں کی آزادی کے تحفظ اور حرمتِ رسول مقبول ﷺ اور دینِ اسلام کی سربلندی کے لیے تن من دھن قربان کرنے والی عظیم شخصیت اور بطلِ حریت مولانا ظفر علی خاں کے بارے میں جس قدر بھی لکھا جائے وہ کم ہے۔
مولانا کے دل میں صرف برصغیر کے مسلمانوں ہی کا درد نہ تھا بلکہ دنیا کے جس حصے میں بھی مسلمانوں پر آفت آتی، مولانا تڑپ اٹھتے۔ انہوں نے دامے درمے سخنے قدمے ان کی مدد کی۔ چندہ ہی نہیں کندھا بھی دیا۔ عثمانیوں پر کوہِ غم ٹوٹا تو مولانا نے ٹرکش ریلیف فنڈ قائم کیا۔ پہلی دفعہ 61 ہزار 815 روپے آئے۔ دوسری دفعہ 24 ہزار پاﺅنڈ تیسری مرتبہ 20 ہزار پاﺅنڈ ترک حکومت کو پیش کیے۔ آپ کی اپیل پر لاکھوں پاﺅنڈ مزید بھیجے گئے جس پر مصطفےٰ کمال پاشا نے مولانا کے نام شکریہ اور تعریفی خطوط ارسال کیے۔
بابائے صحافت مولانا ظفر علی خاں انگریزوں اور ہندوﺅں سے لڑتے لڑتے اور تحریک آزادی کے لیے قوم کو تیار کرتے کرتے 27 نومبر 1956ءکو اپنے خالق حقیقی سے جا ملے اور کرم آباد میں دفن ہیں۔ وہ اپنے پیچھے صحافیوں کے لیے تربیت کا ایک ایسا معیار چھوڑ گئے جو صدیوں تک مشعل راہ رہے گا۔
آسماں اس کی لحد پر شبنم افشانی کرے
مولانا الطاف حسین حالی نے مولانا ظفر علی خاں کے بارے میں لکھا:
اے دیں کے امتحان میں جانباز
اے نفرت حق میں تیغ عریاں
اے صدق و صفا کی زندہ تصویر
اے شیر دل اے ظفر علی خاں

(انور بشیرکی تحریر سے اقتباس)

Thursday, May 19, 2016

ستاروں اور سیاروں کا تقابلی جائزہ

ستاروں اور سیاروں کا تقابلی جائزہ

ہم جس جگہ رہتے ہیں اس کو ’’کرۂ ارض ‘‘ کہا جاتا ہے۔ یہ سورج کے گرد چکر لگانے والے سیاروں میں سے ایک چھوٹا سا سیارہ ہے اس سے کئی گنا بڑے سیارے جیسے مشتری (Jupiter) اور زحل (Saturn) وہ بھی سورج کے تابع ہیں۔ سورج خود ایک کہکشاں کا ممبر ہے جس میں سورج سے کئی لاکھ گنا بڑے بڑے ستارے پائے جاتے ہیں اور ایسے ستاروں کی تعداد ہماری اس کہکشاں میں کئی سو بلین ہے۔ پھر اس طرح کی کئی سو بلین کہکشائیں اس کائنات میں موجود ہیں تو اس کائنات کی وسعتوں کا اندازہ لگائیں کہ وہ کس قدر عظیم الشان ہے اور جو اس کائنات کا بنانے والا ہے اس کی کیا شان ہوگی ؟
اس پوسٹ میں سیاروں اور ستاروں کا حجم کے اعتبار سے آپس میں تقابل دکھایا گیا۔
اس تصویر میں 6 گروپ بنائے گئے ہیں پہلے گروپ میں 4 سیارے ہیں جن میں زمین سب سے بڑی ہے اس کے بعد دوسرے گروپ میں زمین کو پہلے دکھایا گیا ہے تاکہ اندازہ ہوجائے کہ زمین جو پہلے گروپ میں سب سے بڑی تھی اب ان بڑے سیاروں کے مقابلے میں کتنی چھوٹی ہے۔ اسی ترتیب سے تمام گروپ میں سیاروں اور ستاروں کے حجم کو دکھایا گیا ہے ۔
ہر گروپ میں اوپر بائیں سے دائیں جانب نمبر وار ستاروں اور سیاروں کے نام انگریزی میں لکھے ہوئے ہیں ان میں سے جن کے نام اردو میں میسر ہوسکے وہ لکھ دئے گئے ہیں۔
آخر میں کائنات کا (سائنس دانوں کی معلومات کے مطابق) سب سے بڑا ستارہ ’’کلب اکبر‘‘ (VY Canis Majoris) ہے جس کے مقابلے میں سورج ایک نقطے کے برابر ہے تو ہماری زمین کی کیا حیثیت ہوگی۔ سبحان اللہ

Saturday, May 14, 2016

پندرھویں شعبان کا روزہ اور اس رات کے محرومین

           پندرھویں شعبان کا روزہ ہے یانہیں؟
           اس سلسلہ میں ایک روایت حضرت علیؓ کی ہے؛ ابن ماجہ شریف میں ہے کہ نبی کریم نے فرمایا پندرھویں شعبان کی رات میں قیام کرو اور اس کے دن میں روزہ رکھو۔ لیکن حضرت علیؓ والی یہ روایت نہایت ضعیف ہے۔(سنن ابن ماجه، كتاب إقامة الصلاة والسنة فيها، باب ما جاء في ليلة النصف من شعبان)
          بلکہ سننِ ابن ماجہ کی جن روایات پر محدثین نے نقد کیا ہے ان میں ایک یہ بھی ہے۔ علاّمہ عبد العظیم منذری نے بھی الترغیب و الترہیب میں حضرت علیؓ کی اس روایت کو ذکر کیا ہے،مگر شروع میں انہوں نے جو اصول بتلائے ہیں،اس کے مطابق بھی یہ روایت درست نہیں۔(کتاب الترغیب ،الترغیب فی صوم شعبان)
          مسائل کی جو کتابیں ہیں،ان میں جہاں نفل روزوں کا تذکرہ کیا گیا ہے،  وہاں بھی پندرویں شعبان کے روزہ کا تذکرہ نہیں ہے۔ احناف کی کتابوں میں بھی دسویں محرم اور نویں ذی الحجہ کے روزہ کا ذکرہے، ایام بیض کے روزے کا بھی ذکر ہے، لیکن پندرویں شعبان کے روزے کاخصوصیت سے کوئی ذکرنہیں ہے۔
           ویسے شعبان کے مہینہ میں نبی کریم کا کثرت سے روزہ رکھناثابت ہے۔ حضرت اُسامہؓ کی روایت مسلم شریف میں موجود ہے کہ نبی کریم   شعبان کے مہینے میں کثرت سے روزے رکھتے تھے، بلکہ کتب حدیث سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ ایام ممنوعہ کی وجہ سے ازواجِ مطہرات کے رمضان کے جو روزے رہ جاتے تھے ،انہیں اپنے روزے رکھنے کا موقع شعبان ہی میں نبی کریم  کے کثرت سے روزہ رکھنے کی وجہ سے ملتا تھا۔ حضور اکرم کثرت سے روزے رکھتے تھے اور فرماتے تھے کہ بندوں کے اعمال اس مہینہ میں پیش کئے جاتے ہیں، میں چاہتا ہوں کہ میرے اعمال ایسی حالت میں پیش ہوں کہ میں روزے کی حالت میں ہوں۔ ایک تو شعبان کے مہینہ میں روزہ رکھنے کی مستند فضیلت ہے، اس کی بنیاد پر۔اور دوسرا یہ کہ ایامِ بیض یعنی چاندنی راتوں۱۳ ، ۱۴ ، ۱۵  کے دنوں میں روزوں کا مستحب ہونا حدیث سے ثابت ہے،فقہا نے بھی لکھا ہے، اس طرح یہ پندرہویں شب کے بعد کا روزہ ہوتا ہے، اس معنی کر کے فضیلت والا ہوتا ہے۔ ان دو حیثیتوں سے رکھے تو کوئی حرج کی بات نہیں ہے۔ مگر اس کو الگ سے مستحب سمجھنے کی ضرورت نہیں ہے۔ سب سے بہتر تو یہ ہے آدمی کہ ۱۳، ۱۴، ۱۵ کا روزہ رکھ لے، پھر بھی صرف پندرہ کا ہی رکھ لے گا تو کوئی حرج کی بات نہیں ہے۔ بعضوں نے اسی اعتبار سے شعبان کے روزوں کی فضیلت کی وجہ سے اجازت دی ہے۔ خاص اس روایت کوپیشِ نظر نہ رکھا جائے ۔
          جن کی اس رات میں مغفرت نہیں ہوتی۔
           ان برکت والی راتوں میں اللہ تعالی کی طرف سے مغفرت کی جاتی ہے، لیکن حدیثوں میں آتا ہے کہ بعض ایسے گنہگار بھی ہیں کہ ان برکت والی راتوں میں بھی ان کے گناہ معاف نہیں ہوتے۔ (الترغیب والترہب ، کتاب الادب ،۱۱- الترہب من  التہاجروالتشاحن)
          ۰ایک تو شرک کرنے والا۔
          ۰دوسرامشاحن۔اپنے دل میں کینہ رکھنے والا۔ ’مشاحن‘ شحنہ سے ہے، کینہ ۔ کسی مسلمان کے متعلق اپنے دل میں کینہ رکھتا ہو تو اس کی بھی مغفرت اللہ تعالی کے یہاں نہیں ہوتی۔ آج کل ایک مصیبت ہم میں عام ہو گئی ہے۔ ہمارے معاشرہ میں آپس کے تعلقات خراب ہوتے ہیں۔ دو آپس میں لڑنے والے جنہوںنے آپس میں صلح نہ کی ہواورقطع تعلق رکھنے والے بھی اس میں آجاتے ہیں۔ آج کل ہمارے معاشرہ میں یہ وباء بھی بہت عام ہوتی جارہی ہے کہ غیر تو غیر اپنے رشتہ داروں میں بھی اتنی زیادہ آپس میں منافرت اور اتنا زیادہ قطع تعلق ہو جاتا ہے کہ بھائی بھائی کے ساتھ، قریبی رشتہ دار قریبی رشتہ دار کے ساتھ بولنے کے لئے روا دار نہیں ہوتے۔یہ بڑی خطرناک چیز ہے۔ ایسے موقعوں سے فائدہ اُٹھا کر کے ان تعلقات کو ٹھیک کرنے کی کوشش کی جائے ورنہ اتنی مبارک راتوں میں بھی جن لوگوں کے گناہ معاف نہیں ہوتے،جن کی مغفرت نہیں ہوتی ان میں اس کو شامل کیا گیا ہے
          ۰جو شراب کا عادی ہو اس کو بھی اس میں شامل کیا گیا ہے۔
          ۰ماں باپ کا نافرمان بھی اس میں ہے۔
          ۰المنّان احسان کر کے جتلانے والا بھی اس وعید میں شامل ہے۔
          ایک بیماری ہمارے معاشرہ میں یہ بھی ہے کہ کسی کے ساتھ کوئی احسان کیا ہو تو چاہتے یہ ہیں کہ جس کے ساتھ احسان کیا ہے وہ میرا غلام بن کر رہے۔ ذرّہ برابر بھی اس کے مزاج کے خلاف کچھ ہواتوکہیںگے ارے یار ! ااس پر میں نے یہ احسان کیا، میں نے یوں کیا، فلاں کیا۔ دیکھو نا اس کے باوجود ایسا کام کیا ۔ بھائی ! یہ سب کچھ اللہ تعالی سے ثواب اور صلہ حاصل کرنے کے لئےکیا تھا،اس سے کیوں توقع رکھتے ہو۔یہ احسان کر کے جتلانے والا بھی ان لوگوں میں ہے،جس کی اتنی بڑی راتوں میں مغفرت نہیں ہوتی۔
          ۰ ٹخنے سے نیچے لنگی کرتہ پائجامہ رکھنے والا۔
           آج کل لمبے عربی کرتے پہننے کا بعض لوگوں کوشوق ہوتا ہے وہ بھی ٹخنے سے نیچے نہیں ہونا چاہئے۔ کرتہ ہو، پائجامہ ہو، پتلون ہو اور لنگی ہو تو بھی؛ ٹخنے ڈھک جاویں اس طرح پہنے تو ایسے آدمی کو حدیث میں شمار کیا گیا ہے کہ اس کی ان مبارک راتوں میں مغفرت نہیں ہوتی۔ یہ ٹخنے ڈھانکنے والا مرض بھی بڑھتا جا رہا ہے۔ جوانوں کے اندر خاص طور سے۔اس سے اپنے آپ کو بچانے کی ضرورت ہے۔
          حضرت مولانا احتشام الحق تھانویؒ تو فرمایا کرتے تھے کہ ہمارا حال تو یہ ہے کہ انگریز کے کہنے سے نیکر اور چڈی پہن لی تو گھٹنے تک کھول دیے اور اللہ کے رسول کے کہنے سے ٹخنے کھولنے کے لئے تیار نہیں ہے۔ پائجامہ ذرا اونچا رکھنے کے لئے بھی تیار نہیں۔انگریز کی مشابہت میں آدھا بدن کھولنے تک تیار ہیں اور اللہ کےرسول کی اتنی سی بات ماننے کو راضی نہیں، بلکہ بزرگوں نے لکھا ہے کہ بعض گناہ وہ ہوتے ہیں کہ آدمی نے گناہ کیا ،پھراس گناہ سے نکل آیا۔جیسے ایک آدمی زنا کرتا ہے، بد کاری کرتا ہے تو جب تک کہ وہ بدکاری میں مبتلا ہے وہاں تک وہ گناہ چل رہا ہے۔ وہ ختم ہو گیا۔ اب وہ گناہ اس کے سر پر تو ہے لیکن اس گناہ کے اندر تو مبتلا نہیں ہے۔ ایک آدمی شراب پی رہا ہے تو جب تک پی رہا ہے گناہ کر رہا ہے۔ پی چکا تو اس کے نامئہ اعمال میں تو وہ گناہ لکھ دیا گیا لیکن گناہ کا تسلسل ختم ہو گیا ،اب گناہ میں نہیں ہے۔ تو اب مسجد میں ہے تو یہ نہیں کہیں گے کہ شراب پی رہا ہے؛ لیکن بعض گناہ ایسے ہوتے ہیں کہ آدمی اس میں ایسامبتلا ہوتا کہ ہرحال میںگناہ چل رہاہے، چوبیس گھنٹے لگاتا ر وہ گناہ جاری رہتا ہے۔اسی میںیہ ٹخنے سے نیچے پائجامہ لٹکانا بھی ہے ، نماز پڑھ رہا ہے اور ٹخنہ ڈھکاہوا ہے تو و ہی گناہ چل رہا ہے، سویا ہوا ہے تب بھی اس گناہ کے اندر مبتلا ہے۔ بھائی جب اللہ تعالی کی مغفرت ہم چاہتے ہیں، اورطلب گار ہیں تو اپنے آپ کو ان چیزوں سے بچانے کا اہتمام ہو تا کہ ہم اپنی بڑی اور مبارک راتوں میں بھی اللہ تعالی کی مغفرت سے محروم نہ ہوں۔
                   اللہ تعالی ہمیں توفیق عطا فرمائیں۔ آمین۔ 
(مستفاد از وعظ حضرت اقدس مولانا مفتی احمد خانپوری دامت برکاتھم )
                  


Monday, May 9, 2016

تاریخ : حقیقت ، ابتداء اور فوائد

تاریخ کیا ہے ؟
تاريخ ايک ايسا مضمون ہے جس ميں ماضی ميں پيش آنے والے لوگوں اور واقعات کے بارے ميں معلومات ہوتی ہيں
اناتول قراش کے خیال میں تاریخ گزشتہ حادثات و اتفاقات کے تحریری بیان سے عبارت ہے۔ ای ایچ کار کی رائے میں تحقیق شدہ واقعات کے ایک سلسلے پر مشتمل ہے۔ کارل بیکر کے نزدیک اقوال و افعال کا علم ہے۔ سیلی کی رائے میں تاریخ گزشتہ سیاست اور گزشتہ سیاست موجودہ تایخ ہے۔ (ڈاکٹر آفتاب اصغر، مقدمہ تاریخ مبارک شاہی۔ 22) اطخاوی کا کہنا ہے کہ یہ ایک ایسا علم ہے جس کاموضع انسان زماں و مکاں ہے، جس میں وہ زندگی بسر کرتا ہے۔ ابن خلدون کا کہنا ہے یہ ایک ایسا علم ہے جو کسی خاص عہد ملت کے حالات واقعات کو موضع بحث دیتاہے۔ ظہیرالدین مرغشی کے نزدیک یہ ایک ایسا علم ہے جو اگلے وقتوں کے بارے میں اطلاعات پر مشتمل ہے۔ ڈاکٹر محمد مکری کا قول ہے کہ تاریخ ایسا علم ہے جس میں کسی قوم یا فرد یا چیز کے گزشتہ حالات واقعات پر بحث کرتا ہے۔ آقائے مجید یکتائی کا کہنا ہے کہ اعصار و قرون کے ان احوال و حوادث کی آئینہ دار ہے، جو ماضی سے آگئی و مستقبل کے لئے تنبیہ کا باعث بنتے ہیں۔ (ڈاکٹر آفتاب اصغر، مقدمہ تاریخ مبارک شاہی۔22) حقیقت یہ ہے کہ تاریخ کا نظریات میں کتنا ہی اختلاف ہو، مگر اس حد تک سب متفق ہیں کہ یہ ایک ایسا علم ہے جو عہد گزشتہ کے واقعات اور اُس زماں و مکاں کے بارے میں جس میں واقعات وقوع پزیر ہوئے ہیں، آئندہ نسلوں کو معلومات بہم پہنچاتا ہے۔ یہی وجہ ہے تاریخ اتنی قدیم ہے کہ جتنی تحریر۔ یہ اور بات ہے تاریخ کی ابتدا اساطیر یا دیومالائی کہانیوں سے شروع ہوئی۔ گو تاریخ اور اساطیر مین فرق ہے۔ تاریخ کے کردار حقیقی اور زمان اور مکان متعین و مشخص ہوتے ہیں۔ جب کہ اساطیر میں کردار مقوق الفطرت مسخ شدہ یا محض تخیل کی پیداوار اور زمان و مکان غیر متعین اور نامشخص ہوتے ہیں۔ (ڈاکٹر آفتاب اصغر، مقدمہ تاریخ مبارک شاہی۔ 22، 23)
تاریخ کی ابتدا :
عمدة القاری کی جلد 7 میں علامہ بدرالدین عینیؒ تاریخ کی ابتداء کے حوالے سے فرماتے ہیں:
جب زمین پر انسان کی آبادی وسیع ہونے لگی تو تاریخ کی ضرورت محسوس ہوئی ، اس وقت ہبوطِ آدم علیہ السلام سے تاریخ شمار کی جانے لگی، پھر طوفانِ نوح علیہ السلام سے اس کی ابتدا ء ہوئی ، پھر نارِ خلیل سے، پھر یوسف علیہ السلام کے مصر میں وزیر بننے سے، پھر موسی علیہ السلام کے خروج ِمصر سے، پھر حضرت داؤد سے ،ان کے فوراً بعد سلیمان علیہ السلام سے پھر حضرت عیسیٰ علیہم السلام سے۔ اس کے بعد ہر قوم اپنے اپنے علاقہ میں کسی اہم واقعہ کو سن قرار دیتی تھی، مثلاً قوم ِاحمر نے واقعۂِ تبایعہ کو، قومِ غسان نے سد ِسکندری کو، اہلِ صنعاء نے حبشہ کے یمن پر چڑھ آنے کو سن قرار دیا۔جس طرح ہر قوم نے اپنی تاریخ کا مدار قومی واقعات وخصائص پر رکھا، اسی طرح اہلِ عرب نے بھی تاریخ کے لیے عظیم واقعات کو بنیاد بنایا، چناں چہ سب سے پہلے اہلِ عرب نے حرب ِبسوس (یہ وہ مشہور جنگ ہے جو بکر بن وائل اور نبی ذہل کے درمیان ایک اونٹنی کی وجہ سےچالیس سال تک جاری رہی) سے تاریخ کی ابتدا کی۔ اس کے بعد جنگ ِداحس ( جو محض گھڑدوڑ میں ایک گھوڑے کے آگے نکل جانے پر بنی عبس اور بنی ذبیان کے درمیان نصف صدی تک جاری رہی )پھرجنگ ِغبراء سے، پھر جنگ ِذی قار سے پھر جنگ ِفجار سے تاریخ کی ابتدا کی۔
اس کے بعد حضور ﷺ کے اسلاف میں سے ایک بزرگ کعب کے کسی واقعہ سے سالوں اورتاریخ کا حساب لگاتے رہے ،پھر اصحاب ِالفیل کے واقعہ سے، یہاں تک کہ عام الفیل کی اصطلاح ان کے یہاں رائج ہوئی ۔لیکن اتنی بات واضح ہے کہ رومیوں اور یوناینوں کے دور، بالخصوص سکندراعظم کی فتوحات سے تاریخ کا وہ حصہ شروع ہوتا ہے جس نے دنیا کے اکثر ملکوں کے حالات کو اس طرح دنیا کے سامنے پیش کیا کہ سلسلہ کے منقطع ہونے کی بہت کم نوبت آئی اور عام طور سے یہیں سے تاریخ زمانہ کی ابتدا سمجھی جاتی ہے۔
کچھ حضرات نے تاریخ کو 3 زمانوں میں تقسیم کیا:
1-قرون اولیٰ، جو ابتدائے عالم سے سلطنت روماتک ہے۔
2-قرون وسطیٰ جو سلطنت روما کے آخر زمانہ سے قسطنطنیہ کی فتح تک ہے۔
3- قرون آخر وقسطنطنیہ کی فتح سے تاحال ہے۔۔
تاریخ کے فوائد :
مقدمۂِ ابن خلدون میں علامہ ابن خلدون تاریخ کے فوائد پر نظر ڈالتے ہوئے لکھتے ہیں کہ :
تاریخ ایک ایسی چیز ہے او رایک ایسا فن ہے جوکثیر الفوائد اور بہترین نتائج پر مشتمل ہے اورتاریخ کا علم ہم کو سابق امتوں کے اخلاق، حالات، انبیاء کی پاک سیرتوں
اور سلاطین کی حکومتوں او ران کی سیاستوں سے روشناس کرتا ہے، تاکہ جو شخص دینی ودنیوی معاملات میں ان میں سے کسی کی پیروی کرنا چاہے تو کر سکے۔
مولانا محمّد میاں مصنف ِتاریخ اِسلام تاریخ کا مقصد اور فائدہ بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ : جو حالات موجودہ زمانہ میں پیش آرہے ہیں ان کو گزرے ہوئے زمانے کی حالتوں سے ملا کر نتیجہ نکالنا او راس پر عمل کرنا تاریخ کا مقصد اور فائدہ ہے 

سلسلہ تصوف اور شجرہ تصوف

سلسلہ

اس سے مراد صحبت اور اعتماد کا وہ سلسلہ ہے جو موجودہ شیخ سے آنحضرت صلی اللہ علیہ والہ وسلم تک جاتا ہے ۔ہند میں چار بڑے سلاسل چل رہے ہیں ۔جو کہ چشتیہ ،نقشبندیہ ،قادریہ اور سہروردیہ ہیں۔جس شیخ سے آدمی بیعت ہوتا ہے تو اس کے ساتھ آدمی اس کے سلسلے میں داخل ہوجاتا ہے ۔ان سلاسل کی مثال فقہ کے چار طریقوں حنفی ،مالکی ،شافعی اور حنبلی یا طب کے مختلف طریقوں یعنی ایلوپیتھی ،ہومیوپیتھی ،آکو پنکچر اوریونانی حکمت وغیرہ سے دی جاتی ہے ۔ان کے اصولوں میں تھوڑا تھوڑا فرق ہے لیکن سب کا نتیجہ وہی روحانی صحت یعنی نسبت کا حاصل کرنا ہے ۔
چاروں سلسلوں کے مشائخ کے اسمائے گرامی

سلسلہ چشتیہ کے سرخیل حضرت خواجہ معین الدین چشتی (رحمۃ اللہ علیہ) ہیں۔ان کے آگے پھر دو شاخ ہیں چشتیہ صابریہ کے سرخیل حضرت صابر کلیری (رحمۃ اللہ علیہ) ہیں اور چشتیہ نظامیہ کے سرخیل حضرت خواجہ نظام الدین اولیاء (رحمۃ اللہ علیہ) ہیں،سلسلہ قادریہ کے سرخیل حضرت شیخ عبد القادر جیلانی (رحمۃ اللہ علیہ)،سلسلہ سہروردیہ کے حضرت شیخ شہاب الدین سہروردی (رحمۃ اللہ علیہ) اور سلسلہ نقشبندیہ کے حضرت شیخ بہاؤالدین نقشبندی (رحمۃ اللہ علیہ) ہیں۔

شجرہ اور اس کی اہمیت
آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے مناسب جو اللہ تعالیٰ نے قُرآن میں بیان فر مائے ہیں چار ہیں۔یعنی قُرآن کی تلاوت سکھانا،صحابہ کرام (رضی اللہ عنہ) کا تزکیہ کرنا، کتاب کی تعلیم دینا اور حکمت کی تعلیم دینا۔قُرآن کی تلاوت کے شعبے کی ذمہ داری قرّا ءحضرات نے ،تزکیہ کی صوفیاء کرام نے اور علم و حکمت کی علماءکرام نے۔علماء کرام میں محدثین کرام نے احادیث شریفہ کو اُمت تک محفوظ طریقے سے پہنچانے کا بیڑا اٹھایا ہے۔اس مقصد کے لئے وہ اپنی سندوں کی حفاظت کرتے ہیں اور اپنی سندوں کو اس ترتیب سے روایت کرتے ہیں جس ترتیب سے ان تک روایت پہنچی ہوتی ہے۔بعینہ اسی طرح صوفیاء کرام اپنی نسبت کو اسی ترتیب سے بیان کرتے ہیں جس ترتیب سے ان تک نسبت پہنچی ہوتی ہے۔نسبت کی اسی ترتیب کا بیان شجرہ کہلاتا ہے۔بعض حضرات نے اپنا شجرہ منظوم انداز میں چھاپا ہوتا ہے اور برکت کو حاصل کرنے کے لئے اس کو پڑھتے ہیں۔یہ دعائیہ شکل میں بھی ہوتی ہے اور مریدین اپنی دعا کی قبولیت کے لئے اس نسبت کو بطور وسیلہ پکڑتے ہیں۔

Sunday, May 8, 2016

پہلی وحی اور مکہ میں لکھنے کا رواج

پہلی ہی وحی میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو پڑھانے کے بارے میں حکم دینا ایسی بات ہے، جو ہمیں سوچنے پر مجبور کرتی ہے نبئ امی کو کیوں پہلے ہی حکم میں اس کی طرف متوجہ کیا گیا اور اس کے بعد جو تیئس سالہ عرصہ گزرا، اس میں کچھ نہیں تو بیسیوں آیتیں ایسی ملتی ہیں جن میں علم کی تعریف اور اہمیت سمجھائی گئی ہے اور اس میں عجیب و غریب چیزیں بھی نظر آتی ہیں۔ مثلاً ایک طرف یہ کہا جائے گا۔ وما اوتیتم من العلم الا قلیلا (85:17) (اور تمھیں علم نا دیا گیا ہے مگر تھوڑا) دوسری طرف یہ بھی کہا گیا۔ 'قل رب زدنی علما' (114:20) (اور عرض کرو کہ اے میرے رب مجھے علم میں بڑھا) اسی طرح کی شاید ایک ضرب المثل بھی مشہور ہے – اطلبوا العلم من العھد الی اللحد (گہوارے سے قبر تک یعنی پیدا ہونے سے موت آنے تک علم سیکھتے رہو) ایک اور چیز ہے جس کی صحت کے متعلق ہمارے محدثین ٹیکنیکل نقطہ نظر سے اعتراض کریں گے ، لیکن بہرحال وہ بھی اثر انگیز چیز ہے۔ حدیث شریف میں ہے کہ 'علم سیکھو چاہے وہ چین ہی میں کیوں نہ ہو' عقلی اور تاریخی نقطئہ نظر سے مجھے اس پر اعتراض کی کوئی وجہ نظر نہیں آتی۔ بہرحال اس سلسلے میں پہلا سوال ہوگا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو چین کا علم کیسے ہوا؟ جب کہ عرب، ایشیا کے انتہائی مغرب میں ہے اور چین ، ایشیا کے انتہائی مشرق میں ہے اور ان دونوں ممالک میں کسی طرح کا کوئی تعلق نظر نہیں آتا۔ ان حالات میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو کیسے علم ہوا کہ چین میں علوم و فنون پائے جاتے ہیں؟ سوال معقول ہے لیکن اگر ہمارا مطالعہ ذرا وسیع ہو او ہمیں اپنی علمی میراث سے ذرا زیادہ واقفیت ہو تو پھر یہ سوال باقی نہیں رہتا بلکہ خود بخود حل ہو جاتا ہے مثلاً 'مسعودی' کی کتاب 'مروج الذھب' کے نام سے ہمارا ہ پڑھا لکھا شخص واقف ہے۔ وہ بیان کرتا ہے کہ اسلام سے پہلے چینی تاجر عمان تک آتے تھے۔ بلکہ عمان سے آگے 'اہلہ یعنی بصرہ تک بھی پہنچتے تھے اور یوں یہ بات طے ہوجاتی ہے کہ اس زمانے میں عربوں کے لیے چین اور چینی اجنبی نہیں تھے۔ اس سے بھی زیادہ قابلِ غور واقعہ واقعہ ایک اور ہے کہ محمد بن حبیب البغدادی نے، جو ابنِ قیتبہ کا بھی استاد ہے' اپنی کتاب المجر میں لکھا ہے کہ ہر سال فلاں مہینے میں 'دبا' نامی مقام پرایک میلہ لگتا تھا' جس میں شرکت کے لیے سمندر پار سے بھی لوگ آیا کرتے تھے ان لوگوں میں ایرانی بھی ہوتے تھے، چینی بھی ہوتے تھے، ہندی اور سندھی بھی ہوتے تھے، مشرقی لوگ بھی ہوتے تھے، مغربی بھی ہوتے تھے وغیرہ وغیرہ ۔ دبا کی اہمیت کے سلسلے میں ایک چھوٹا سا واقعہ آپ کو یاد دلاؤں۔ جب عمان کا علاقہ اسلام قبول کرتا ہے تو عمان میں ایک گورنر ہوتا ہے،اس کے علاوہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلمایک اور گورنر کا تقرر صرف بندرگاہ دبا کے امور کے لیے فرماتے ہیں۔ اس سے اس مقام کی اہمیت کا پتہ چلتا ہے۔ غالباً اس انٹرنیشنل میلے کی وجہ سے بہت سے مسائل پیدا ہوتے ہوں گے ، تجارتی جھگڑے ، کاروباری معاملات وغیرہ ، اس لیے عہدِ نبوی میں خصوصی افسر کی ضرورت محسوس کی گئی۔ ان دو واقعات کے بعد مسند احم بن حنبل پر نظر ڈالیے۔ جس کے بعد ہمیں کوئی شبہ نہیں رہتا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ان چینیوں سے ملاقات ہوئی تھی۔ میں ذکر کر چکا ہوں کہ مسعودی کے بیان کے مطابق چینی تاجر اپنے جہازوں میں سمندری راستے عمان کے علاوہ ابلہ یعنی بصرہ تک جاتے تھے اس دوسری روایت میں آپ دیکھ چکے ہیں کہ دبا نامی بندرگاہ میں، جو جزیرہ نمائے عرب کی دو سب سے بڑی بندر گاہوں میں سے ایک بندرگاہ تھی ، ہر سال میلا لگتا تھا، وہاں ہر سال چینی لوگ آتے تھے ۔ ان دوچیزوں کو ذہن میں رکھ کر مسند احمد بن حنبل کو پڑھیں۔ اس میں لکھا ہے کہ قبیلہ عبدلقیس کے لوگ ، جو عمان وہ بحرین میں رہتے تھے، مدینہ آئے اور اسلام قبول کیا۔ ایک چھوٹی سی چیز پر آپ کی توجہ منعطف کراتا ہوں وہ یہ کہ اس میں جو بحرین کا لفظ آیا ہے ، اس روایت میں اس سے مراد وہ جزیرہ نہیں ہے جسے ہم آج کل بحرین کہتے ہیں اور جو جزیرہ نما ئے عرب میں خلیج فارس کے اندر واقع ہے۔ اس زمانے میں اس جزیرہ کا نام 'اوال' تھا اور بحرین کا لفظ اُس علاقے کو ظاہر کرتا ہے جسے آج کل ہم الاحساء اور القطیف کا نام دیتے ہیں۔ بہر حال اس میں لکھا ہے کہ بحرین کے لوگ جن کا نام قبیلہ عبدالقیس ہے ،اسلام لانے کے لیے مدینہ آتے ہیں۔ اس روایت میں اس بات کی بھی تفصیل ملتی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان لوگوں سے کچھ سوالات کیے۔ مثلاً فلاں شخص ابھی زندہ ہے؟ کیا فلاں سردار زندہ ہے؟ فلاں مقام کا کیا حال ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ان سوالات کو سن کر وہ لوگ حیرت سے پوچھتے ہیں۔ یا رسول اللہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم تو ہم سے بھی زیادہ ہمارے ملک کے شہروں اور باشندوں سے واقف ہیں۔ یہ کیسے ہوا؟ ان لوگوں کے اس سوال کے جواب میں آپ نے فرمایا کہ 'میرے پاؤں تمہارے ملک کو بہت عرصے تک روندتے رہے ہیں۔' دوسرے لفظوں میں میں وہاں بہت دنوں تک مقیم رہا ہوں۔ اس صراحت کے بعد ہمیں شبہ نہیں رہتا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم غالباً شادی کے بعد حضرت خدیجہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کا مال تجارت لے کر نا صرف شام جاتے ہیں، جس کی صراحتیں موجود ہیں بلکہ مشرقِ عرب کو بھی جاتےہیں تاکہ دبا کے میلے میں شرکت کر سکیں اور کوئی تعجب نہیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہیں پر چینی تاجروں کو بھی دیکھا ہو اور ممکن ہے اُن سے کچھ گفتگو کی ہو ۔اگر چینی وہاں آیا کرتے تھے تو اُنھیں کچھ ٹوٹی پھوٹی عربی آ جانی چاہئے۔ اس کے علاوہ وہاں پر یقیناً ایسے مترجم ہوتے ہوں گے جو چینی اور عربی دونوں زبانیں جانتے ہوں۔ بہر حال اس کا امکان ہے کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان چینیوں سے ملاقات کی اور میرا گمان ہے کہ ان کے ریشمی سامان پر خاص کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی توجہ ہوئی ہوگی،کیوںکہ چین کا ریشم نہایت ہی مشہور چیز تھی، ممکن ہے کہ ان کی صنعت و حرفت کے متعلق آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بہت ہی اچھا تاثر لیا ہو اور ان سے پوچھا ہو کہ تمھارے ملک سے یہاں تک آنے میں کتنے دن لگتے ہیں۔ اور مثلاً انھوں نے کہا ہو کہ چھ مہینے لگتے ہیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے ایک اندازہ قائم کرنے کے لیے یہ کافی تھا اور اس کی روشنی میں اب اس حدیث کو پڑھئے " علم سیکھو چاہے چین ہی جانا پڑے"( جو تمھارے لیے دنیا کا بعید ترین ملک ہے ) کیونکہ علم کا سیکھنا ہر مسلمان کے لیے ضروری ہے۔ ' غرض ان ابتدائی چیزوں کے عرض کرنے کا منشا یہ تھا کہ قرآن مجید و حدیث شریف میں علم حاصل کرنے کی بڑی تاکید آئی ہے کیونکہ یہ انسانوں کے لیے نہایت مفید چیز ہے اور اسلام سے زیادہ فطری مذہب کون سا ہوسکتا ہے جو انسانوں کو ان کے فائدے کی چیز بتائے۔


یہ کہنا دشوار ہے کہ مکہ معظمہ میں ہجرت سے قبل رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے تعلیم کے متعلق کیا کام کیا؟ کوئی مدرسہ قائم کیا یا مدرس مامور کیے؟ اس کا پتہ چلنا آسان نہیں ہے۔ غالباً ایسا ہوا بھی نہیں بجز قرآن کو مستند استاد سے پڑھنے کے۔ لیکن ایک چیز قابل ذکر ہے وہ یہ کہ ہمارے مورخین کے مطابق عربی زبان طویل عرصے تک بولی جانے والی زبان رہی تھی، تحریری زبان نہیں تھی۔ لکھنے کا رواج مکہ معظمہ میں ،حرب کے زمانے میں ہوا۔ یہ ابو سفیان کا باپ تھا۔ یعنی یہ دور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نوجوانی کا دورہے۔ جو لوگ آپ سے معمر تر تھے،شہر مکہ میں ان کے زمانے میں پہلی مرتبہ عربی زبان کی تحریر و کتابت ہونے لگی۔ اس کی وجہ بھی یہ بیان کی گئی ہے کہ ایک شخص عراق کے علاقے سے حیرہ سے وہاں آیا تھا۔ اُس نے مکہ معظمہ میں حرب کی بیٹی سے شادی کی اور اظہار شکر گزاری کے لیے حرب کو یہ راز بتلایا کہ ایسی کام کی باتیں ، جنھیں تم بھول جاتے ہو اور جنھیں یاد رکھنے کی ضرورت ہے، اُنھیں لکھ لیا کرو۔ یہ روایت ہمیں مختلف کتابوں میں ملتی ہے، مثلاً قدامہ بن جعفر کی کتاب الخراج اور اس کے استاد بلاذری کی فتح البلدان وغیرہ میں۔ دوسرے الفاظ میں مکہ میں لکھنے پڑھنے کا رواج عہدِ نبوی سے کچھ پہلے ہی شروع ہوا تھا اور بلاذری کو تو اصرار ہے کہ عہدِ نبوی کے آغاز پر وہاں سترہ سے زیادہ آدمی لکھنا پڑھنا نہیں جانتے تھے۔ ممکن ہے کہ مبالغہ ہو یا کسی خاص عہد کا ذکر ہو اور بعد میں اس صورت میں ترقی ہوئی ہو اور زیادہ لوگ لکھنا پڑھنا جان گئے ہوں لیکن اس کی کوئی خاص اہمیت نہیں ہے۔ البتہیہ امر ضرور قابلِ ذکر ہے قبلِ اسلام مکے میں عورتیں بھی لکھنا پڑھنا جانتی تھیں چنانچہ شفاد بنت عبداللہ کو جو حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی رشتہ دار تھی ، لکھنا پڑھنا آتا تھا اور اسی واقفیت کے سبب سے بعد میں، جب وہ ہجرت کر کے مدینہ آئیں، تو ابن حجر کے بیان کے مطابق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو مدینہ کے ایک بازار میں ایک عہدہ پر مامور کیا۔ چونکہ انہیں لکھنا پڑھنا آتا تھا، اس لیے کوئی ایسا ہی کام ان کے سپرد کیا گیا ہوگا جس کا تعلق لکھنے پڑھنے سے ہو۔ ایک امکان میرے ذہن میں آتا ہے کہ اس بازار میں عورتیں بھی سامانِ تجارت لاتی ہوں گی لٰہذا ان کی نگرانی ان کی مدد اور ان کی ضرورتوں کو پورا کرنے کے لیے کسی عورت ہی کو مامور کیا جاسکتا تھا۔ بہر حال لکھنے پڑھنے کا رواج عہدِ نبوی کے آغاز کے زمانے میں ایک بلکل نئی چیز تھی اور اسکا نتیجہ یہ تھا کہ اس نے ابھی زیادہ ترقی نہیں کی تھی۔ یہ کہا جاسکتا ہے کہ دنیائے عرب کی سب سے پہلی تحریر میں لائی ہوئی کتاب قرآنِ مجید ہے۔ اس سے پہلے کوئی کتاب نہیں لکھی گئی تھی۔ صرف چند ایک چیزیں مثلاً سبعہ معلقات، جن کو لکھ کر کہتے ہیں کہ بطور اعزاز و احترام کعبہ میں لٹکا دیا گیا تھا۔ اسی طرح بعض معاہدے بھی لکھے گئے ہوں گے۔ ' الفرست' میں ابن ندیم نے لکھا ہے کہ خلیفہ مامون کے خزانے میں ایک مخطوطہ یا ایک کاغذ کا پرچہ تھا جس میں ذرا بھدے خط کی کچھ عبارت تھی۔ لکھا ہے کہ عورتوں کے خط کے مشابہ تھا اور کہا کہ وہ عبدالمطلب کا خط تھا وغیرہ۔


ان چیزوں سے معلوم ہوتا ہے اس زمانے میں لکھنے پڑھنے کا آغاز ہو رہا تھا اور ابھی زیادہ ترقی نہٰں ہوئی تھی۔ اس کی وجہ شاید یہ بھی ہو۔کہ حیرہ سے آنے والا شخص وہی خط سکھائے گا جو حیرہ میں رائج ہے۔ وہاں کی زبان میں کل چوبیس حرف ہیں جب کہ عربی میں حروف کی تعداد اٹھائیس ہے۔ ظاہر ہے حیرہ میں رائج خط اس زبان کے لیے ناکافی ہوگا۔ اسی لیے حیرہ میں رائج خط کی مدد سے عربی زبان کے حروف میں امتیاز کرنا بھی دشوار تھا۔ عربی زبان کے حروف میں امتیاز قائم کرنے کی ایک ہی صورت تھی کہ مختلف حروف کے سلسلہ میں ایک نقطہ نیچے لگا کر 'ب' بنائیں اور اسی حروف پر ایک نقطہ اوپر لگا کر 'ن' بنائیں وغیرہ وغیرہ۔ اس سلسلے میں خطب البغدادی وغیرہ وغیرہ متعدد لوگوں کے بیان سے واضح ہوتا ہے کہ غالباً اس کوتاہی کو دور کرنے کا کام رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہی فرمایا تھا۔ روایت ہے کہ ایک دن خلیفہ حضرت معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے عبید غسانی نامی کاتب کو بلایا اور فرمایا کہ میں تمھیں کچھ لکھواتا ہوں اسے لکھو اور رقش کرو۔ غسان کہتا ہے 'رقش' کیا چیز ہے؟ وہ تبسم کرکے کہتے ہیں کہ میں ایک دن مدینہ منورہ میں تھا ، رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے کاتب کی حثیت سے مجھے یاد فرمایا اور حکم دیا لکھو اور رقش کرو میں نے بھی پوچھا تھا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم رقش کیا چیز ہے؟ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے الفاظ یہ تھے کہ ' حروف پرجہاں ضرورت ہو نقطے لگاؤ' اس چھوٹی سی روایت سے جو ہمیں کئی کتابوں میں ملتی ہے ، گمان ہوتا ہے کہ نقطے لگا کر حروف میں امتیاز پیدا کرنا بہت بعد کی چیز نہیں ہے بلکہ عہدِ نبوی میں اس کا آغاز ہوگیا تھا لیکن کتب رسم المصاحف (یعنی قرآنی املاء) کے مؤلفوں یا خط عربی کے عام مورخوں کے ہاں اس کا کوئی ذکر نہیں ملتا البتہ اس کی تائید میں اب کچھ چیزیں بھی ہمٰں مل گئی ہیں۔ پہلی چیز یہ ہے کہ طائف کے مضافات میں ایک کتبہ ملا ہے۔ حضرت معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے دورِ خلافت میں انہی کے حکم سے طائف کے گورنر نے ایک تالاب تعمیر کرایا تھا، اس پر ایک کتبہ لگایا گیا ۔ اس کتبے کے کئی حروف پر نقطہ ہیں۔ یہ سن 50 ھ کا واقعہ ہے ۔ ظاہر ہے بعد کی جال سازی نہیں ہوسکتی۔ اس کتبے کے سب حروف پر نقطے نہیں بلکہ صرف چند حروف پر ہیں۔ یہ ذرا پرانی دریافت تھی، اب ایک نئی چیز ہمارے سامنے آئی ہے۔ جو اس سے بھی زیادہ موثر ہے۔ مصر میں کچھ جھلیاں (پارچمنٹ)دریافت ہوئی ہیں جن پر کچھ تحریریں لکھی ہوئی ہیں۔ ان میں حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہہ کی خلافت بائیس ہجری کے زمانے کے دو خطوط ہیں۔ ان میں بھی نقطوں کا اہتمام نظر آتا ہے۔ یعنی حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہہ کے زمانے میں بھی ایک حد تک نقطے لگانے کا رواج تھا۔ اسے حجاج بن یوسف یا اس کے بعد کی چیز قرار دینا درست نہیں۔

Tuesday, May 3, 2016

غبارِ خاطر: میری کتابِ مقدس

غبارِ خاطر: میری کتابِ مقدس

بہت دردناک تھا یہ احساس کہ تعلیم کے نام پر جو کچھ میں حاصل کر رہا ہوں یہ مجھے صرف اس لائق بنائے گا کہ میں کسی مسجد میں امامت کر سکوں اور وہاں کچھ کھانستے بوڑھے صرف اس لئے میری تذلیل کرسکیں کہ وہ اپنی اولاد پر کنٹرول کھو چکے ہیں اور ان کے پاس اپنی بھڑاس نکالنے کے لئے 1400 روپے تنخواہ والے امام کے سوا کوئی سافٹ ٹارگٹ نہیں۔ اور وہ امام اس خوف کے سبب یہ ذلت برداشت کرتا جائے کہ اگر اس نے اُف کی تو اگلے ہی لمحے مسجد سے نکال دیا جائے گا اور اگر وہ نکال دیا گیا تو اس کے بچے کھلے آسمان تلے حالات کا جبر کیسے سہیں گے ؟ میرے والد نہایت جری انسان تھے، مسجد کمیٹی کے صدر سے لے کر مدرسے کے مہتمم تک ہر ایک کو جوتے کی نوک پر رکھتے تھے لیکن اس کے باوجود 1984ء کا وہ سال بھلائے نہیں بھولتا جب ہم مسجد کے اس مکان میں کسی پناہ گزین جیسی زندگی گزار رہے تھے۔ میرے والد کی آنکھوں میں اندیشے اور والدہ کے چہرے پر سناٹے براجماں تھے اور ہم بچوں نے مسکرانا چھوڑ دیا تھا۔

"تو میں اس لئے مدرسے میں پڑھ رہا ہوں کہ اپنے والد کے بعد اس ذلت کا بار اٹھا سکوں ؟ کیا کوئی دوسرا آپشن نہیں ہے ؟"

یہ وہ دوسوالات تھے جو پندرہ برس کی عمر میں درجہ ثالثہ کے طالب علم کی حیثیت سے میرے ہوش اڑا گئے تھے۔ دوسرا آپشن تدریس تھا لیکن وہ پارٹ ٹائم جاب تو ہو سکتی تھی مگر متبادل نہیں کیونکہ اس کے پیکج میں مکان شامل نہیں تھا اور تنخواہ بھی ایسی شرمناک کہ اتنی قریبی چوک کا بھکاری ایک دن میں پا لیتا ہو۔ جب یہ بات طے ہوگئی کہ کوئی متبادل موجود نہیں تو اگلا سوال یہ تھا کہ ایسا کیوں ہے ؟ اس کا سبب کیا ہے ؟ ہر درسی کتاب کے آغاز پر مصنف کے حالات ضرور پڑھائے جاتے تھے۔ پچھلے تین سال سے جو ڈیڑھ درجن کتب پڑھ رکھی تھیں ان میں سے کسی ایک کا مصنف بھی پیشہ ور امام مسجد نہ تھا بلکہ تاریخ کا انکشاف یہ تھا کہ امامت کا پیشہ بننا ماضی قریب کا سانحہ تھا اور جب سے یہ ہوا علم اور اہل علم کی عزت خاک میں مل کر رہ گئی۔ اب سیدھا سا سوال تھا کہ پھر اس سے قبل علماء کا ذریعہ معاش کیا تھا ؟ وہ کماتے کیسے تھے اور گھر کیسے چلاتے تھے ؟ تاریخ بتا رہی تھی کہ علماء انہی پیشوں سے وابستہ تھے جن سے عوام و خواص وابستہ تھے۔ پیشے کے لحاظ سے عوام اور علماء کی کوئی تفریق نہ تھی۔ ایک ہی بازار میں سب کی دکانیں یا چھوٹی چھوٹی صنعتیں ہوتیں۔ ماضی کے بڑے بڑے ائمہ مجتہدین اور نامور علماء دین کے پیشے اور بزنس اٹھا کر دیکھ لیجئے آپ صدموں کے سمندر میں ڈوبتے چلے جائینگے اور سمجھ آتا چلا جائے گا کہ وہ اس قدر عزت دار کیوں تھے کہ صدیوں بعد بھی نام احترام سے لیا جاتا ہے اور ہم اتنے تہی دامن کیوں کہ لمحہ موجود میں ہی ذلت سہہ رہے ہیں ؟ انہوں نے غلہ، برتن، فرنیچر، کپڑا، مویشیوں اور ان کی پیداوار کو ذریعہ معاش بنایا تھا جبکہ دین کا فہم اور علم کی نعمت وہ پانی کی طرح مفت بانٹتے تھے اور ہم نے اللہ کے دین اور اس کے علم کو ہی ذریعہ معاش بنا لیا۔ اناللہ و انا الیہ راجعون۔

اب ایک ہی سوال رہ گیا تھا کہ ہم نے اجتماعی طور پر دین کو پیشہ کیوں بنا لیا، کوئی تو اس کی وجہ رہی ہوگی ؟ جواب سامنے کھڑا تھا کہ انگریزی استعمار کے دور میں دوہرا نظامِ تعلیم رائج ہوا۔ نیا نظام تعلیم انگریزی زبان اور انگریزی ثقافت پر مشتمل تھا۔ یہ نظام ایک نئی اور دلچسپ چیز تھی عوام نے فوری قبول کرلی اور ہم اسے ناجائز ! ناجائز ! کہتے چلے گئے نتیجہ یہ ہوا کہ پچاس سال بعد بازار اور اس کے قاعدے اس نئی تعلیم پر مبنی تھے اور یہ تعلیم ہمارے پاس تھی نہیں لھذا ہم بازار سے آؤٹ ہوگئے۔ بازار سے تو ہم آؤٹ ہوگئے لیکن وسائل رزق کی ضرورت برقرار تھی۔ ان حالات میں ہمارے پاس بیچ کھانے کے لئے دو ہی چیزیں تھیں ایک خدا کا دین اور دوسرا اس کا علم سو ہم نے اسی کو ذریعہ معاش بنا لیا، اگر ہم چاہتے تو اپنے درس نظامی میں فوری طور پر رد وبدل کر کے اسے نئے تقاضوں کے مطابق ڈھال سکتے تھے جس سے یہ صورتحال پیش نہ آتی لیکن افسوس ہم نے ایسا نہ کیا۔

صاحبو ! کیسے بتاؤں کہ کس قیامت کے تھے آگہی کے یہ لمحے۔ طبیعت میں آوارگی تو پہلے سے موجود تھی۔ اس صدمے کے نتیجے میں درس نظامی سے دل اچاٹ ہوگیا مگر دبنگ قسم کے والد کے ہوتے اسے چھوڑنا بھی ممکن نہ تھا چنانچہ درس نظامی خانہ پری کی حد تک پڑھتا بھی رہا لیکن درحقیقت اس کی آڑ میں فل ٹائم آوارگی ہونے لگی اور ساتھ ہی ساتھ غیرنصابی مطالعہ جاری رہا۔ میں جس ماحول میں کھڑا تھا وہاں اپنے خیالات کا اظہار آ بیل مجھے مار والی بات تھی۔ دورہ حدیث کرتے ہی حضرت لدھیانوی شہید کے ہاں نوکری شروع کردی۔ یہیں کافی عرصے بعد "غبار خاطر" ایک بار پھر نظر آئی جو لڑکپن میں ثقیل زبان کے سبب چوم کر چھوڑ دی تھی۔ غبارِ خاطر پڑھنی شروع کی تو یقین سے کہہ سکتا ہوں کہ میری فکر میں یہ اسی طرح کا انقلاب لے کر آئی جیسے پچھلی قوموں کے لوگوں کے لئے آسمانی صحیفے لایا کرتے تھے۔ جب مولانا آزاد کو روایتی مولویت کی اینٹ سے اینٹ بجاتے دیکھا تو میری کیفیت اس مظلوم کی سی تھی جو عرصے سے غنڈوں میں گھرا ہو اور اچانک ایک ہیرو نمودار ہو کر انہیں پیٹنا شروع کردے۔ میں اس زمانے میں پنجابی فلمیں بہت زیادہ دیکھا کرتا تھا۔ مولانا آزاد میرے مولاجٹ بن گئے جو علمی نوری نتھوں کا اپنے قلم کے گنڈاسے بھرکس نکال رہے تھے۔ جبکہ میری آوارگی اور باغیانہ سوچ کو جو منظم فکری سرمایہ میسر آیا اس کی الگ بے پناہ اہمیت تھی۔ اس کتاب نے مجھے آگاہ کیا کہ حقیقی مولویت کیا ہوتی ہے۔

میں حلفیہ کہہ سکتا ہوں کہ اگر غبارِ خاطر نہ ہوتی تو آج میں مولویوں کا سب سے بدترین دشمن ہوتا۔ اس کتاب نے میری سوچ کو یہ رخ دیا کہ اس زمانے کا مولوی وہ مظلوم ہے جو اپنے اکابر کی عاقبت نااندیشی کی بھینٹ چڑھ گیا ہے۔ اسے پڑھایا ہی وہ نصاب گیا ہے جو اسے فقط ایک امام مسجد بنا سکتا ہے۔ اس غریب کے پاس کسی اور چیز کو اپنا ذریعہ معاش بنا کر علم کی خیرات مفت بانٹنے کا آپشن ہی نہیں۔ اور اکابر کی تعریفوں کے مصنوعی پل باندھ کر اسے اتنا اندھا کردیا گیا ہے کہ اسے نظر ہی نہیں آ رہا کہ اس کے ساتھ واردات کیا ہوگئی ہے۔ ایسے شخص سے دشمنی نہیں صرف ہمدردی کی جانی چاہئے جبکہ دشمنی اس سسٹم سے ہونی چاہئے جو اس اندوہناک سانحے کا ذمہ دار ہے۔ امت مسلمہ ہر شعبہ حیات میں زوال کا شکار ہے اور اس زوال میں علمائے دین اور علم دین کا زوال یہ ہے کہ یہ جنس بازار بن چکے۔ چنانچہ میں پچھلے بیس سال اس سسٹم کو ہی اپنے قلم سے نشانہ بنا رہا ہوں۔ جب میں ایسا کرتا ہوں تو کچھ پیادے اس کے دفاع کے لئے کھڑے ہوجاتے ہیں اور ان کا پہلا الزام یہ ہوتا ہے کہ میں علماء کا دشمن ہوں۔ اگر میں علماء کا دشمن ہوتا تو اپنے بڑے بیٹے کو عالم دین بناتا ؟ میں نے اسے عالم دین بھی بنایا اور اس کے فورا بعد اسے گرافک ڈیزائننگ کا کورس کرا کر یہی فن اس کا ذریعہ معاش بنا ڈالا ہے۔ اسے صاف بتادیا ہے کہ میرے جیتے جی تم اللہ کے دین کو ذریعہ معاش نہیں بنا سکتے۔ ہاں ! بغیر کسی معاوضے کے کسی مسجد میں اللہ کی رضاء کی خاطر نمازیں پڑھانا، جمعے کا خطبہ دینا، قرآنِ مجید یا حدیث کا درس دینا اختیار کرسکو تو اپنے باپ کی حیثیت سے میرا سر فخر سے بلند ہی دیکھو گے۔ اور جب تم ایسا کروگے تو کوئی کھانستا ہوا بوڑھا تمہاری تذلیل کی جرات نہیں کر سکے گا کیونکہ تمہارا رزق اس کے دیئے ہوئے چند ٹکوں سے وابستہ نہیں ہوگا۔ جھگڑا مولویت سے نہیں سسٹم سے ہے۔ اس سسٹم اور اس کے محافظوں کو بخشنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ یہ میرے لئے مقصد حیات کا درجہ رکھتا ہے۔ اس ضمن میں مولانا آزاد میرے امام ہیں جبکہ غبار خاطر میرے لئے "کتابِ مقدس" درجہ رکھتی ہے۔ ایسا نہیں کہ میری فکر کا ہر حاصل اس کتاب سے ہے۔ اس میں بے شمار دیگر کتب کا بھی حصہ ہے لیکن یہ کتاب آغاز ثابت ہوئی تھی۔ اس نے میرے منتشر خیالات کا منظم کیا تھا اور مجھے گمراہی کے عین آغاز پر اپنے صفحات کی آغوش میں سنبھال لیا تھا۔ سوشل میڈیا میں پڑنے والی گالیاں اس فرسودہ سسٹم کے قلعے سے بلند ہوتا وہ شور و غوغا ہے جو میرے درست نشانے کی دلیل ہے۔ یہ گالیاں مجھے روکتی نہیں بلکہ مزید پرجوش کرتی ہیں۔ اور جب میں دیکھتا ہوں کہ اب نوجوان علماء یونیورسٹیوں میں جا کر جدید علوم حاصل کرکے دوسرے ذریعہ معاش اختیار کرنے لگے ہیں تو میری مسرت کی انتہاء نہیں ہوتی۔ الحمدللہ ثم الحمدللہ

ایک بڑی سطح کی تبدیلی کو رونما ہونے اور نتائج دینے کے لئے پندرہ سے تیس سال کا عرصہ درکار ہوتا ہے۔ اگر علماء آج اللہ کے دین کی تجارت بند کردیں تو تیس سال بعد ان کا وہ وقار بحال ہوچکا ہوگا جو تاریخ کی کتب میں صرف متقدمین کے پاس ہی نظر آتا ہے۔ اس غلط فہمی سے نکل آیئے کہ 12 سو افراد کا آپ کے پیچھے نماز پڑھنا آپ کی عزت کی دلیل ہے۔ وہ آپ کی عزت کی وجہ سے آپ کے پیچھے نماز نہیں پڑھتے بلکہ اس لئے پڑھتے ہیں کہ ان میں سے کسی کو نماز پڑھانی نہیں آتی۔ انکی نظر میں اپنی عزت کا اندازہ اپنی نام نہاد تنخواہوں سے لگایئے جو ایک چوکیدار اور ڈرائیور کی تنخواہ کے برابر ہوتی ہے ! ! !