اس سلسلہ میں ایک روایت حضرت علیؓ کی ہے؛ ابن ماجہ شریف میں ہے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا پندرھویں شعبان کی رات میں قیام
کرو اور اس کے دن میں روزہ رکھو۔ لیکن حضرت علیؓ والی یہ روایت نہایت ضعیف ہے۔(سنن
ابن ماجه، كتاب إقامة الصلاة والسنة فيها، باب ما جاء في ليلة النصف من شعبان)
بلکہ سننِ ابن ماجہ کی جن روایات پر محدثین
نے نقد کیا ہے ان میں ایک یہ بھی ہے۔ علاّمہ عبد العظیم منذری نے بھی الترغیب و الترہیب
میں حضرت علیؓ کی اس روایت کو ذکر کیا ہے،مگر شروع میں انہوں نے جو اصول بتلائے ہیں،اس
کے مطابق بھی یہ روایت درست نہیں۔(کتاب الترغیب ،الترغیب فی صوم شعبان)
مسائل کی جو کتابیں ہیں،ان میں جہاں نفل
روزوں کا تذکرہ کیا گیا ہے، وہاں بھی پندرویں
شعبان کے روزہ کا تذکرہ نہیں ہے۔ احناف کی کتابوں میں بھی دسویں محرم اور نویں ذی الحجہ
کے روزہ کا ذکرہے، ایام بیض کے روزے کا بھی ذکر ہے، لیکن پندرویں شعبان کے روزے کاخصوصیت
سے کوئی ذکرنہیں ہے۔
ویسے شعبان کے مہینہ میں نبی کریم ﷺ کا کثرت سے روزہ رکھناثابت ہے۔ حضرت اُسامہؓ
کی روایت مسلم شریف میں موجود ہے کہ نبی کریم ﷺ
شعبان کے مہینے میں کثرت سے روزے رکھتے تھے، بلکہ کتب حدیث سے یہ معلوم ہوتا
ہے کہ ایام ممنوعہ کی وجہ سے ازواجِ مطہرات کے رمضان کے جو روزے رہ جاتے تھے ،انہیں
اپنے روزے رکھنے کا موقع شعبان ہی میں نبی کریم
ﷺ کے کثرت سے روزہ رکھنے کی وجہ سے ملتا تھا۔ حضور
اکرمﷺ کثرت سے روزے رکھتے تھے اور فرماتے تھے کہ بندوں
کے اعمال اس مہینہ میں پیش کئے جاتے ہیں، میں چاہتا ہوں کہ میرے اعمال ایسی حالت میں
پیش ہوں کہ میں روزے کی حالت میں ہوں۔ ایک تو شعبان کے مہینہ میں روزہ رکھنے کی مستند
فضیلت ہے، اس کی بنیاد پر۔اور دوسرا یہ کہ ایامِ بیض یعنی چاندنی راتوں۱۳ ، ۱۴ ، ۱۵
کے دنوں میں روزوں کا مستحب ہونا حدیث سے ثابت ہے،فقہا نے بھی لکھا ہے، اس طرح
یہ پندرہویں شب کے بعد کا روزہ ہوتا ہے، اس معنی کر کے فضیلت والا ہوتا ہے۔ ان دو حیثیتوں
سے رکھے تو کوئی حرج کی بات نہیں ہے۔ مگر اس کو الگ سے مستحب سمجھنے کی ضرورت نہیں
ہے۔ سب سے بہتر تو یہ ہے آدمی کہ ۱۳، ۱۴، ۱۵ کا روزہ
رکھ لے، پھر بھی صرف پندرہ کا ہی رکھ لے گا تو کوئی حرج کی بات نہیں ہے۔ بعضوں نے اسی
اعتبار سے شعبان کے روزوں کی فضیلت کی وجہ سے اجازت دی ہے۔ خاص اس روایت کوپیشِ نظر
نہ رکھا جائے ۔
جن کی اس رات میں مغفرت نہیں ہوتی۔
ان برکت والی راتوں میں اللہ تعالی کی طرف سے مغفرت کی جاتی ہے، لیکن
حدیثوں میں آتا ہے کہ بعض ایسے گنہگار بھی ہیں کہ ان برکت والی راتوں میں بھی ان کے
گناہ معاف نہیں ہوتے۔ (الترغیب والترہب ، کتاب الادب ،۱۱- الترہب من التہاجروالتشاحن)
۰ایک تو شرک کرنے والا۔
۰دوسرامشاحن۔اپنے
دل میں کینہ رکھنے والا۔ ’مشاحن‘ شحنہ سے ہے، کینہ ۔ کسی مسلمان کے متعلق اپنے دل میں
کینہ رکھتا ہو تو اس کی بھی مغفرت اللہ تعالی کے یہاں نہیں ہوتی۔ آج کل ایک مصیبت ہم
میں عام ہو گئی ہے۔ ہمارے معاشرہ میں آپس کے تعلقات خراب ہوتے ہیں۔ دو آپس میں لڑنے
والے جنہوںنے آپس میں صلح نہ کی ہواورقطع تعلق رکھنے والے بھی اس میں آجاتے ہیں۔ آج
کل ہمارے معاشرہ میں یہ وباء بھی بہت عام ہوتی جارہی ہے کہ غیر تو غیر اپنے رشتہ داروں
میں بھی اتنی زیادہ آپس میں منافرت اور اتنا زیادہ قطع تعلق ہو جاتا ہے کہ بھائی بھائی
کے ساتھ، قریبی رشتہ دار قریبی رشتہ دار کے ساتھ بولنے کے لئے روا دار نہیں ہوتے۔یہ
بڑی خطرناک چیز ہے۔ ایسے موقعوں سے فائدہ اُٹھا کر کے ان تعلقات کو ٹھیک کرنے کی کوشش
کی جائے ورنہ اتنی مبارک راتوں میں بھی جن لوگوں کے گناہ معاف نہیں ہوتے،جن کی مغفرت
نہیں ہوتی ان میں اس کو شامل کیا گیا ہے
۰جو شراب کا عادی ہو اس کو بھی اس میں شامل
کیا گیا ہے۔
۰ماں باپ کا نافرمان بھی اس میں ہے۔
۰المنّان احسان کر کے جتلانے والا بھی اس
وعید میں شامل ہے۔
ایک بیماری ہمارے معاشرہ میں یہ بھی ہے
کہ کسی کے ساتھ کوئی احسان کیا ہو تو چاہتے یہ ہیں کہ جس کے ساتھ احسان کیا ہے وہ میرا
غلام بن کر رہے۔ ذرّہ برابر بھی اس کے مزاج کے خلاف کچھ ہواتوکہیںگے ارے یار ! ااس
پر میں نے یہ احسان کیا، میں نے یوں کیا، فلاں کیا۔ دیکھو نا اس کے باوجود ایسا کام
کیا ۔ بھائی ! یہ سب کچھ اللہ تعالی سے ثواب اور صلہ حاصل کرنے کے لئےکیا تھا،اس سے
کیوں توقع رکھتے ہو۔یہ احسان کر کے جتلانے والا بھی ان لوگوں میں ہے،جس کی اتنی بڑی
راتوں میں مغفرت نہیں ہوتی۔
۰ ٹخنے
سے نیچے لنگی کرتہ پائجامہ رکھنے والا۔
آج کل لمبے عربی کرتے پہننے کا بعض لوگوں کوشوق ہوتا ہے وہ بھی ٹخنے سے
نیچے نہیں ہونا چاہئے۔ کرتہ ہو، پائجامہ ہو، پتلون ہو اور لنگی ہو تو بھی؛ ٹخنے ڈھک
جاویں اس طرح پہنے تو ایسے آدمی کو حدیث میں شمار کیا گیا ہے کہ اس کی ان مبارک راتوں
میں مغفرت نہیں ہوتی۔ یہ ٹخنے ڈھانکنے والا مرض بھی بڑھتا جا رہا ہے۔ جوانوں کے اندر
خاص طور سے۔اس سے اپنے آپ کو بچانے کی ضرورت ہے۔
حضرت مولانا احتشام الحق تھانویؒ تو فرمایا
کرتے تھے کہ ہمارا حال تو یہ ہے کہ انگریز کے کہنے سے نیکر اور چڈی پہن لی تو گھٹنے
تک کھول دیے اور اللہ کے رسول کے کہنے سے ٹخنے کھولنے کے لئے تیار نہیں ہے۔ پائجامہ
ذرا اونچا رکھنے کے لئے بھی تیار نہیں۔انگریز کی مشابہت میں آدھا بدن کھولنے تک تیار
ہیں اور اللہ کےرسول کی اتنی سی بات ماننے کو راضی نہیں، بلکہ بزرگوں نے لکھا ہے کہ
بعض گناہ وہ ہوتے ہیں کہ آدمی نے گناہ کیا ،پھراس گناہ سے نکل آیا۔جیسے ایک آدمی زنا
کرتا ہے، بد کاری کرتا ہے تو جب تک کہ وہ بدکاری میں مبتلا ہے وہاں تک وہ گناہ چل رہا
ہے۔ وہ ختم ہو گیا۔ اب وہ گناہ اس کے سر پر تو ہے لیکن اس گناہ کے اندر تو مبتلا نہیں
ہے۔ ایک آدمی شراب پی رہا ہے تو جب تک پی رہا ہے گناہ کر رہا ہے۔ پی چکا تو اس کے نامئہ
اعمال میں تو وہ گناہ لکھ دیا گیا لیکن گناہ کا تسلسل ختم ہو گیا ،اب گناہ میں نہیں
ہے۔ تو اب مسجد میں ہے تو یہ نہیں کہیں گے کہ شراب پی رہا ہے؛ لیکن بعض گناہ ایسے ہوتے
ہیں کہ آدمی اس میں ایسامبتلا ہوتا کہ ہرحال میںگناہ چل رہاہے، چوبیس گھنٹے لگاتا ر
وہ گناہ جاری رہتا ہے۔اسی میںیہ ٹخنے سے نیچے پائجامہ لٹکانا بھی ہے ، نماز پڑھ رہا
ہے اور ٹخنہ ڈھکاہوا ہے تو و ہی گناہ چل رہا ہے، سویا ہوا ہے تب بھی اس گناہ کے اندر
مبتلا ہے۔ بھائی جب اللہ تعالی کی مغفرت ہم چاہتے ہیں، اورطلب گار ہیں تو اپنے آپ کو
ان چیزوں سے بچانے کا اہتمام ہو تا کہ ہم اپنی بڑی اور مبارک راتوں میں بھی اللہ تعالی
کی مغفرت سے محروم نہ ہوں۔
اللہ تعالی ہمیں توفیق عطا فرمائیں۔ آمین۔
(مستفاد از وعظ حضرت اقدس مولانا مفتی احمد خانپوری دامت برکاتھم )
No comments:
Post a Comment