BEST RESULT

Custom Search

Monday, May 9, 2016

تاریخ : حقیقت ، ابتداء اور فوائد

تاریخ کیا ہے ؟
تاريخ ايک ايسا مضمون ہے جس ميں ماضی ميں پيش آنے والے لوگوں اور واقعات کے بارے ميں معلومات ہوتی ہيں
اناتول قراش کے خیال میں تاریخ گزشتہ حادثات و اتفاقات کے تحریری بیان سے عبارت ہے۔ ای ایچ کار کی رائے میں تحقیق شدہ واقعات کے ایک سلسلے پر مشتمل ہے۔ کارل بیکر کے نزدیک اقوال و افعال کا علم ہے۔ سیلی کی رائے میں تاریخ گزشتہ سیاست اور گزشتہ سیاست موجودہ تایخ ہے۔ (ڈاکٹر آفتاب اصغر، مقدمہ تاریخ مبارک شاہی۔ 22) اطخاوی کا کہنا ہے کہ یہ ایک ایسا علم ہے جس کاموضع انسان زماں و مکاں ہے، جس میں وہ زندگی بسر کرتا ہے۔ ابن خلدون کا کہنا ہے یہ ایک ایسا علم ہے جو کسی خاص عہد ملت کے حالات واقعات کو موضع بحث دیتاہے۔ ظہیرالدین مرغشی کے نزدیک یہ ایک ایسا علم ہے جو اگلے وقتوں کے بارے میں اطلاعات پر مشتمل ہے۔ ڈاکٹر محمد مکری کا قول ہے کہ تاریخ ایسا علم ہے جس میں کسی قوم یا فرد یا چیز کے گزشتہ حالات واقعات پر بحث کرتا ہے۔ آقائے مجید یکتائی کا کہنا ہے کہ اعصار و قرون کے ان احوال و حوادث کی آئینہ دار ہے، جو ماضی سے آگئی و مستقبل کے لئے تنبیہ کا باعث بنتے ہیں۔ (ڈاکٹر آفتاب اصغر، مقدمہ تاریخ مبارک شاہی۔22) حقیقت یہ ہے کہ تاریخ کا نظریات میں کتنا ہی اختلاف ہو، مگر اس حد تک سب متفق ہیں کہ یہ ایک ایسا علم ہے جو عہد گزشتہ کے واقعات اور اُس زماں و مکاں کے بارے میں جس میں واقعات وقوع پزیر ہوئے ہیں، آئندہ نسلوں کو معلومات بہم پہنچاتا ہے۔ یہی وجہ ہے تاریخ اتنی قدیم ہے کہ جتنی تحریر۔ یہ اور بات ہے تاریخ کی ابتدا اساطیر یا دیومالائی کہانیوں سے شروع ہوئی۔ گو تاریخ اور اساطیر مین فرق ہے۔ تاریخ کے کردار حقیقی اور زمان اور مکان متعین و مشخص ہوتے ہیں۔ جب کہ اساطیر میں کردار مقوق الفطرت مسخ شدہ یا محض تخیل کی پیداوار اور زمان و مکان غیر متعین اور نامشخص ہوتے ہیں۔ (ڈاکٹر آفتاب اصغر، مقدمہ تاریخ مبارک شاہی۔ 22، 23)
تاریخ کی ابتدا :
عمدة القاری کی جلد 7 میں علامہ بدرالدین عینیؒ تاریخ کی ابتداء کے حوالے سے فرماتے ہیں:
جب زمین پر انسان کی آبادی وسیع ہونے لگی تو تاریخ کی ضرورت محسوس ہوئی ، اس وقت ہبوطِ آدم علیہ السلام سے تاریخ شمار کی جانے لگی، پھر طوفانِ نوح علیہ السلام سے اس کی ابتدا ء ہوئی ، پھر نارِ خلیل سے، پھر یوسف علیہ السلام کے مصر میں وزیر بننے سے، پھر موسی علیہ السلام کے خروج ِمصر سے، پھر حضرت داؤد سے ،ان کے فوراً بعد سلیمان علیہ السلام سے پھر حضرت عیسیٰ علیہم السلام سے۔ اس کے بعد ہر قوم اپنے اپنے علاقہ میں کسی اہم واقعہ کو سن قرار دیتی تھی، مثلاً قوم ِاحمر نے واقعۂِ تبایعہ کو، قومِ غسان نے سد ِسکندری کو، اہلِ صنعاء نے حبشہ کے یمن پر چڑھ آنے کو سن قرار دیا۔جس طرح ہر قوم نے اپنی تاریخ کا مدار قومی واقعات وخصائص پر رکھا، اسی طرح اہلِ عرب نے بھی تاریخ کے لیے عظیم واقعات کو بنیاد بنایا، چناں چہ سب سے پہلے اہلِ عرب نے حرب ِبسوس (یہ وہ مشہور جنگ ہے جو بکر بن وائل اور نبی ذہل کے درمیان ایک اونٹنی کی وجہ سےچالیس سال تک جاری رہی) سے تاریخ کی ابتدا کی۔ اس کے بعد جنگ ِداحس ( جو محض گھڑدوڑ میں ایک گھوڑے کے آگے نکل جانے پر بنی عبس اور بنی ذبیان کے درمیان نصف صدی تک جاری رہی )پھرجنگ ِغبراء سے، پھر جنگ ِذی قار سے پھر جنگ ِفجار سے تاریخ کی ابتدا کی۔
اس کے بعد حضور ﷺ کے اسلاف میں سے ایک بزرگ کعب کے کسی واقعہ سے سالوں اورتاریخ کا حساب لگاتے رہے ،پھر اصحاب ِالفیل کے واقعہ سے، یہاں تک کہ عام الفیل کی اصطلاح ان کے یہاں رائج ہوئی ۔لیکن اتنی بات واضح ہے کہ رومیوں اور یوناینوں کے دور، بالخصوص سکندراعظم کی فتوحات سے تاریخ کا وہ حصہ شروع ہوتا ہے جس نے دنیا کے اکثر ملکوں کے حالات کو اس طرح دنیا کے سامنے پیش کیا کہ سلسلہ کے منقطع ہونے کی بہت کم نوبت آئی اور عام طور سے یہیں سے تاریخ زمانہ کی ابتدا سمجھی جاتی ہے۔
کچھ حضرات نے تاریخ کو 3 زمانوں میں تقسیم کیا:
1-قرون اولیٰ، جو ابتدائے عالم سے سلطنت روماتک ہے۔
2-قرون وسطیٰ جو سلطنت روما کے آخر زمانہ سے قسطنطنیہ کی فتح تک ہے۔
3- قرون آخر وقسطنطنیہ کی فتح سے تاحال ہے۔۔
تاریخ کے فوائد :
مقدمۂِ ابن خلدون میں علامہ ابن خلدون تاریخ کے فوائد پر نظر ڈالتے ہوئے لکھتے ہیں کہ :
تاریخ ایک ایسی چیز ہے او رایک ایسا فن ہے جوکثیر الفوائد اور بہترین نتائج پر مشتمل ہے اورتاریخ کا علم ہم کو سابق امتوں کے اخلاق، حالات، انبیاء کی پاک سیرتوں
اور سلاطین کی حکومتوں او ران کی سیاستوں سے روشناس کرتا ہے، تاکہ جو شخص دینی ودنیوی معاملات میں ان میں سے کسی کی پیروی کرنا چاہے تو کر سکے۔
مولانا محمّد میاں مصنف ِتاریخ اِسلام تاریخ کا مقصد اور فائدہ بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ : جو حالات موجودہ زمانہ میں پیش آرہے ہیں ان کو گزرے ہوئے زمانے کی حالتوں سے ملا کر نتیجہ نکالنا او راس پر عمل کرنا تاریخ کا مقصد اور فائدہ ہے 

No comments:

Post a Comment