پہلی ہی وحی میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو پڑھانے کے بارے میں حکم دینا ایسی بات ہے، جو ہمیں سوچنے پر مجبور کرتی ہے نبئ امی کو کیوں پہلے ہی حکم میں اس کی طرف متوجہ کیا گیا اور اس کے بعد جو تیئس سالہ عرصہ گزرا، اس میں کچھ نہیں تو بیسیوں آیتیں ایسی ملتی ہیں جن میں علم کی تعریف اور اہمیت سمجھائی گئی ہے اور اس میں عجیب و غریب چیزیں بھی نظر آتی ہیں۔ مثلاً ایک طرف یہ کہا جائے گا۔ وما اوتیتم من العلم الا قلیلا (85:17) (اور تمھیں علم نا دیا گیا ہے مگر تھوڑا) دوسری طرف یہ بھی کہا گیا۔ 'قل رب زدنی علما' (114:20) (اور عرض کرو کہ اے میرے رب مجھے علم میں بڑھا) اسی طرح کی شاید ایک ضرب المثل بھی مشہور ہے – اطلبوا العلم من العھد الی اللحد (گہوارے سے قبر تک یعنی پیدا ہونے سے موت آنے تک علم سیکھتے رہو) ایک اور چیز ہے جس کی صحت کے متعلق ہمارے محدثین ٹیکنیکل نقطہ نظر سے اعتراض کریں گے ، لیکن بہرحال وہ بھی اثر انگیز چیز ہے۔ حدیث شریف میں ہے کہ 'علم سیکھو چاہے وہ چین ہی میں کیوں نہ ہو' عقلی اور تاریخی نقطئہ نظر سے مجھے اس پر اعتراض کی کوئی وجہ نظر نہیں آتی۔ بہرحال اس سلسلے میں پہلا سوال ہوگا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو چین کا علم کیسے ہوا؟ جب کہ عرب، ایشیا کے انتہائی مغرب میں ہے اور چین ، ایشیا کے انتہائی مشرق میں ہے اور ان دونوں ممالک میں کسی طرح کا کوئی تعلق نظر نہیں آتا۔ ان حالات میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو کیسے علم ہوا کہ چین میں علوم و فنون پائے جاتے ہیں؟ سوال معقول ہے لیکن اگر ہمارا مطالعہ ذرا وسیع ہو او ہمیں اپنی علمی میراث سے ذرا زیادہ واقفیت ہو تو پھر یہ سوال باقی نہیں رہتا بلکہ خود بخود حل ہو جاتا ہے مثلاً 'مسعودی' کی کتاب 'مروج الذھب' کے نام سے ہمارا ہ پڑھا لکھا شخص واقف ہے۔ وہ بیان کرتا ہے کہ اسلام سے پہلے چینی تاجر عمان تک آتے تھے۔ بلکہ عمان سے آگے 'اہلہ یعنی بصرہ تک بھی پہنچتے تھے اور یوں یہ بات طے ہوجاتی ہے کہ اس زمانے میں عربوں کے لیے چین اور چینی اجنبی نہیں تھے۔ اس سے بھی زیادہ قابلِ غور واقعہ واقعہ ایک اور ہے کہ محمد بن حبیب البغدادی نے، جو ابنِ قیتبہ کا بھی استاد ہے' اپنی کتاب المجر میں لکھا ہے کہ ہر سال فلاں مہینے میں 'دبا' نامی مقام پرایک میلہ لگتا تھا' جس میں شرکت کے لیے سمندر پار سے بھی لوگ آیا کرتے تھے ان لوگوں میں ایرانی بھی ہوتے تھے، چینی بھی ہوتے تھے، ہندی اور سندھی بھی ہوتے تھے، مشرقی لوگ بھی ہوتے تھے، مغربی بھی ہوتے تھے وغیرہ وغیرہ ۔ دبا کی اہمیت کے سلسلے میں ایک چھوٹا سا واقعہ آپ کو یاد دلاؤں۔ جب عمان کا علاقہ اسلام قبول کرتا ہے تو عمان میں ایک گورنر ہوتا ہے،اس کے علاوہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلمایک اور گورنر کا تقرر صرف بندرگاہ دبا کے امور کے لیے فرماتے ہیں۔ اس سے اس مقام کی اہمیت کا پتہ چلتا ہے۔ غالباً اس انٹرنیشنل میلے کی وجہ سے بہت سے مسائل پیدا ہوتے ہوں گے ، تجارتی جھگڑے ، کاروباری معاملات وغیرہ ، اس لیے عہدِ نبوی میں خصوصی افسر کی ضرورت محسوس کی گئی۔ ان دو واقعات کے بعد مسند احم بن حنبل پر نظر ڈالیے۔ جس کے بعد ہمیں کوئی شبہ نہیں رہتا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ان چینیوں سے ملاقات ہوئی تھی۔ میں ذکر کر چکا ہوں کہ مسعودی کے بیان کے مطابق چینی تاجر اپنے جہازوں میں سمندری راستے عمان کے علاوہ ابلہ یعنی بصرہ تک جاتے تھے اس دوسری روایت میں آپ دیکھ چکے ہیں کہ دبا نامی بندرگاہ میں، جو جزیرہ نمائے عرب کی دو سب سے بڑی بندر گاہوں میں سے ایک بندرگاہ تھی ، ہر سال میلا لگتا تھا، وہاں ہر سال چینی لوگ آتے تھے ۔ ان دوچیزوں کو ذہن میں رکھ کر مسند احمد بن حنبل کو پڑھیں۔ اس میں لکھا ہے کہ قبیلہ عبدلقیس کے لوگ ، جو عمان وہ بحرین میں رہتے تھے، مدینہ آئے اور اسلام قبول کیا۔ ایک چھوٹی سی چیز پر آپ کی توجہ منعطف کراتا ہوں وہ یہ کہ اس میں جو بحرین کا لفظ آیا ہے ، اس روایت میں اس سے مراد وہ جزیرہ نہیں ہے جسے ہم آج کل بحرین کہتے ہیں اور جو جزیرہ نما ئے عرب میں خلیج فارس کے اندر واقع ہے۔ اس زمانے میں اس جزیرہ کا نام 'اوال' تھا اور بحرین کا لفظ اُس علاقے کو ظاہر کرتا ہے جسے آج کل ہم الاحساء اور القطیف کا نام دیتے ہیں۔ بہر حال اس میں لکھا ہے کہ بحرین کے لوگ جن کا نام قبیلہ عبدالقیس ہے ،اسلام لانے کے لیے مدینہ آتے ہیں۔ اس روایت میں اس بات کی بھی تفصیل ملتی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان لوگوں سے کچھ سوالات کیے۔ مثلاً فلاں شخص ابھی زندہ ہے؟ کیا فلاں سردار زندہ ہے؟ فلاں مقام کا کیا حال ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ان سوالات کو سن کر وہ لوگ حیرت سے پوچھتے ہیں۔ یا رسول اللہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم تو ہم سے بھی زیادہ ہمارے ملک کے شہروں اور باشندوں سے واقف ہیں۔ یہ کیسے ہوا؟ ان لوگوں کے اس سوال کے جواب میں آپ نے فرمایا کہ 'میرے پاؤں تمہارے ملک کو بہت عرصے تک روندتے رہے ہیں۔' دوسرے لفظوں میں میں وہاں بہت دنوں تک مقیم رہا ہوں۔ اس صراحت کے بعد ہمیں شبہ نہیں رہتا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم غالباً شادی کے بعد حضرت خدیجہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کا مال تجارت لے کر نا صرف شام جاتے ہیں، جس کی صراحتیں موجود ہیں بلکہ مشرقِ عرب کو بھی جاتےہیں تاکہ دبا کے میلے میں شرکت کر سکیں اور کوئی تعجب نہیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہیں پر چینی تاجروں کو بھی دیکھا ہو اور ممکن ہے اُن سے کچھ گفتگو کی ہو ۔اگر چینی وہاں آیا کرتے تھے تو اُنھیں کچھ ٹوٹی پھوٹی عربی آ جانی چاہئے۔ اس کے علاوہ وہاں پر یقیناً ایسے مترجم ہوتے ہوں گے جو چینی اور عربی دونوں زبانیں جانتے ہوں۔ بہر حال اس کا امکان ہے کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان چینیوں سے ملاقات کی اور میرا گمان ہے کہ ان کے ریشمی سامان پر خاص کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی توجہ ہوئی ہوگی،کیوںکہ چین کا ریشم نہایت ہی مشہور چیز تھی، ممکن ہے کہ ان کی صنعت و حرفت کے متعلق آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بہت ہی اچھا تاثر لیا ہو اور ان سے پوچھا ہو کہ تمھارے ملک سے یہاں تک آنے میں کتنے دن لگتے ہیں۔ اور مثلاً انھوں نے کہا ہو کہ چھ مہینے لگتے ہیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے ایک اندازہ قائم کرنے کے لیے یہ کافی تھا اور اس کی روشنی میں اب اس حدیث کو پڑھئے " علم سیکھو چاہے چین ہی جانا پڑے"( جو تمھارے لیے دنیا کا بعید ترین ملک ہے ) کیونکہ علم کا سیکھنا ہر مسلمان کے لیے ضروری ہے۔ ' غرض ان ابتدائی چیزوں کے عرض کرنے کا منشا یہ تھا کہ قرآن مجید و حدیث شریف میں علم حاصل کرنے کی بڑی تاکید آئی ہے کیونکہ یہ انسانوں کے لیے نہایت مفید چیز ہے اور اسلام سے زیادہ فطری مذہب کون سا ہوسکتا ہے جو انسانوں کو ان کے فائدے کی چیز بتائے۔
یہ کہنا دشوار ہے کہ مکہ معظمہ میں ہجرت سے قبل رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے تعلیم کے متعلق کیا کام کیا؟ کوئی مدرسہ قائم کیا یا مدرس مامور کیے؟ اس کا پتہ چلنا آسان نہیں ہے۔ غالباً ایسا ہوا بھی نہیں بجز قرآن کو مستند استاد سے پڑھنے کے۔ لیکن ایک چیز قابل ذکر ہے وہ یہ کہ ہمارے مورخین کے مطابق عربی زبان طویل عرصے تک بولی جانے والی زبان رہی تھی، تحریری زبان نہیں تھی۔ لکھنے کا رواج مکہ معظمہ میں ،حرب کے زمانے میں ہوا۔ یہ ابو سفیان کا باپ تھا۔ یعنی یہ دور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نوجوانی کا دورہے۔ جو لوگ آپ سے معمر تر تھے،شہر مکہ میں ان کے زمانے میں پہلی مرتبہ عربی زبان کی تحریر و کتابت ہونے لگی۔ اس کی وجہ بھی یہ بیان کی گئی ہے کہ ایک شخص عراق کے علاقے سے حیرہ سے وہاں آیا تھا۔ اُس نے مکہ معظمہ میں حرب کی بیٹی سے شادی کی اور اظہار شکر گزاری کے لیے حرب کو یہ راز بتلایا کہ ایسی کام کی باتیں ، جنھیں تم بھول جاتے ہو اور جنھیں یاد رکھنے کی ضرورت ہے، اُنھیں لکھ لیا کرو۔ یہ روایت ہمیں مختلف کتابوں میں ملتی ہے، مثلاً قدامہ بن جعفر کی کتاب الخراج اور اس کے استاد بلاذری کی فتح البلدان وغیرہ میں۔ دوسرے الفاظ میں مکہ میں لکھنے پڑھنے کا رواج عہدِ نبوی سے کچھ پہلے ہی شروع ہوا تھا اور بلاذری کو تو اصرار ہے کہ عہدِ نبوی کے آغاز پر وہاں سترہ سے زیادہ آدمی لکھنا پڑھنا نہیں جانتے تھے۔ ممکن ہے کہ مبالغہ ہو یا کسی خاص عہد کا ذکر ہو اور بعد میں اس صورت میں ترقی ہوئی ہو اور زیادہ لوگ لکھنا پڑھنا جان گئے ہوں لیکن اس کی کوئی خاص اہمیت نہیں ہے۔ البتہیہ امر ضرور قابلِ ذکر ہے قبلِ اسلام مکے میں عورتیں بھی لکھنا پڑھنا جانتی تھیں چنانچہ شفاد بنت عبداللہ کو جو حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی رشتہ دار تھی ، لکھنا پڑھنا آتا تھا اور اسی واقفیت کے سبب سے بعد میں، جب وہ ہجرت کر کے مدینہ آئیں، تو ابن حجر کے بیان کے مطابق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو مدینہ کے ایک بازار میں ایک عہدہ پر مامور کیا۔ چونکہ انہیں لکھنا پڑھنا آتا تھا، اس لیے کوئی ایسا ہی کام ان کے سپرد کیا گیا ہوگا جس کا تعلق لکھنے پڑھنے سے ہو۔ ایک امکان میرے ذہن میں آتا ہے کہ اس بازار میں عورتیں بھی سامانِ تجارت لاتی ہوں گی لٰہذا ان کی نگرانی ان کی مدد اور ان کی ضرورتوں کو پورا کرنے کے لیے کسی عورت ہی کو مامور کیا جاسکتا تھا۔ بہر حال لکھنے پڑھنے کا رواج عہدِ نبوی کے آغاز کے زمانے میں ایک بلکل نئی چیز تھی اور اسکا نتیجہ یہ تھا کہ اس نے ابھی زیادہ ترقی نہیں کی تھی۔ یہ کہا جاسکتا ہے کہ دنیائے عرب کی سب سے پہلی تحریر میں لائی ہوئی کتاب قرآنِ مجید ہے۔ اس سے پہلے کوئی کتاب نہیں لکھی گئی تھی۔ صرف چند ایک چیزیں مثلاً سبعہ معلقات، جن کو لکھ کر کہتے ہیں کہ بطور اعزاز و احترام کعبہ میں لٹکا دیا گیا تھا۔ اسی طرح بعض معاہدے بھی لکھے گئے ہوں گے۔ ' الفرست' میں ابن ندیم نے لکھا ہے کہ خلیفہ مامون کے خزانے میں ایک مخطوطہ یا ایک کاغذ کا پرچہ تھا جس میں ذرا بھدے خط کی کچھ عبارت تھی۔ لکھا ہے کہ عورتوں کے خط کے مشابہ تھا اور کہا کہ وہ عبدالمطلب کا خط تھا وغیرہ۔
ان چیزوں سے معلوم ہوتا ہے اس زمانے میں لکھنے پڑھنے کا آغاز ہو رہا تھا اور ابھی زیادہ ترقی نہٰں ہوئی تھی۔ اس کی وجہ شاید یہ بھی ہو۔کہ حیرہ سے آنے والا شخص وہی خط سکھائے گا جو حیرہ میں رائج ہے۔ وہاں کی زبان میں کل چوبیس حرف ہیں جب کہ عربی میں حروف کی تعداد اٹھائیس ہے۔ ظاہر ہے حیرہ میں رائج خط اس زبان کے لیے ناکافی ہوگا۔ اسی لیے حیرہ میں رائج خط کی مدد سے عربی زبان کے حروف میں امتیاز کرنا بھی دشوار تھا۔ عربی زبان کے حروف میں امتیاز قائم کرنے کی ایک ہی صورت تھی کہ مختلف حروف کے سلسلہ میں ایک نقطہ نیچے لگا کر 'ب' بنائیں اور اسی حروف پر ایک نقطہ اوپر لگا کر 'ن' بنائیں وغیرہ وغیرہ۔ اس سلسلے میں خطب البغدادی وغیرہ وغیرہ متعدد لوگوں کے بیان سے واضح ہوتا ہے کہ غالباً اس کوتاہی کو دور کرنے کا کام رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہی فرمایا تھا۔ روایت ہے کہ ایک دن خلیفہ حضرت معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے عبید غسانی نامی کاتب کو بلایا اور فرمایا کہ میں تمھیں کچھ لکھواتا ہوں اسے لکھو اور رقش کرو۔ غسان کہتا ہے 'رقش' کیا چیز ہے؟ وہ تبسم کرکے کہتے ہیں کہ میں ایک دن مدینہ منورہ میں تھا ، رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے کاتب کی حثیت سے مجھے یاد فرمایا اور حکم دیا لکھو اور رقش کرو میں نے بھی پوچھا تھا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم رقش کیا چیز ہے؟ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے الفاظ یہ تھے کہ ' حروف پرجہاں ضرورت ہو نقطے لگاؤ' اس چھوٹی سی روایت سے جو ہمیں کئی کتابوں میں ملتی ہے ، گمان ہوتا ہے کہ نقطے لگا کر حروف میں امتیاز پیدا کرنا بہت بعد کی چیز نہیں ہے بلکہ عہدِ نبوی میں اس کا آغاز ہوگیا تھا لیکن کتب رسم المصاحف (یعنی قرآنی املاء) کے مؤلفوں یا خط عربی کے عام مورخوں کے ہاں اس کا کوئی ذکر نہیں ملتا البتہ اس کی تائید میں اب کچھ چیزیں بھی ہمٰں مل گئی ہیں۔ پہلی چیز یہ ہے کہ طائف کے مضافات میں ایک کتبہ ملا ہے۔ حضرت معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے دورِ خلافت میں انہی کے حکم سے طائف کے گورنر نے ایک تالاب تعمیر کرایا تھا، اس پر ایک کتبہ لگایا گیا ۔ اس کتبے کے کئی حروف پر نقطہ ہیں۔ یہ سن 50 ھ کا واقعہ ہے ۔ ظاہر ہے بعد کی جال سازی نہیں ہوسکتی۔ اس کتبے کے سب حروف پر نقطے نہیں بلکہ صرف چند حروف پر ہیں۔ یہ ذرا پرانی دریافت تھی، اب ایک نئی چیز ہمارے سامنے آئی ہے۔ جو اس سے بھی زیادہ موثر ہے۔ مصر میں کچھ جھلیاں (پارچمنٹ)دریافت ہوئی ہیں جن پر کچھ تحریریں لکھی ہوئی ہیں۔ ان میں حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہہ کی خلافت بائیس ہجری کے زمانے کے دو خطوط ہیں۔ ان میں بھی نقطوں کا اہتمام نظر آتا ہے۔ یعنی حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہہ کے زمانے میں بھی ایک حد تک نقطے لگانے کا رواج تھا۔ اسے حجاج بن یوسف یا اس کے بعد کی چیز قرار دینا درست نہیں۔
No comments:
Post a Comment