BEST RESULT

Custom Search

Thursday, July 22, 2021

امارت ‏شرعیہ ‏، ‏جمعیت ‏علماء ‏ہند ‏اور ‏امیر ‏الھند

پہلے یہ سمجھ لیں کہ حکومت  (چاہے اسلامی ہو غیر اسلامی) اور عدلیہ کا نظام دونوں الگ ہوتے ہیں ۔ حکومت کی ذمہ داری عدلیہ کے نظام کو قائم کرنا اور اس کے فیصلوں کے نفاذ کے لیے ضرورت پڑنے پر قوت نفاذ فراہم کرنا ہے ۔ یہ قوت عدلیہ کے پاس نہیں ہوتی ، حکومت کے پاس ہوتی ہے ، اور حکومت کے ہاتھ میں نظام عدل نہیں ہوتا ، وہ عدلیہ کے پاس ہوتا ہے ۔ 
اگر آپ ایک اسلامی حکومت کا تصور کریں،  اور فرض کریں کہ کسی قاضی نے نکاح فسخ کیا، یا دو شخصوں کے مابین آپسی معاملہ میں ظلم و عدل کا فیصلہ کیا جس میں کوئی تعزیر یا حد نہیں ۔۔۔
تو ۔۔۔
ایسا فیصلہ قاضی کے فیصلہ کرتے ہی نافذ ہو جاتا ہے ۔ اس کے لیے کسی کوتوال،  سپہ سالار  یا گورنر کی منظوری ضروری نہیں ۔ خاص کر فریقین مان لیں تو پھر فیصلہ کے نافذ  ہونے میں کوئی رکاوٹ نہیں،  قوت نفاذ کے بغیر بھی وہ نافذ ہوگا ۔ 
اور اسی مسئلہ میں اگر کوئی فریق نہ مانے تو حکومت کی قوت نفاذ کا سہارا لے کر قاضی ، صاحب حق کو اس کا حق دلوائے گا ۔ 
پس 1۔  آپسی تنازعات کے وہ مسائل جو فریقین کے راضی ہونے پر قوت کے بغیر بھی نافذ ہو سکتے ہیں، اور 2  بعض وہ شرعی امور جس کے لیے شرعا فضاء قاضی ضروری ہے ، جیسے فسخ نکاح، ۔۔۔ ایسے معاملات میں شرعی تقاضے کو پورا کرنے کے لیے امارت کا نظام شروع کیا گیا ہے ۔
یہاں پھر سے ابتداء میں لکھی گئی بات ذہن نشین رکھے اور ساتھ میں یہ ملا لیں کہ اسلامی کہی جانے والی حکومتوں میں بھی اگر عدلیہ کے کسی فیصلے پر اسلامی کہی جانے والی حکومت تعاون نہ کرے ، نفاذ میں مدد فراہم نہ کرے تو بھی قاضی کا فیصلہ اپنی جگہ درست رہے گا اور ہر ایک پر دیانتا اس کا ماننا لازم ہے ۔ 
خلاصہ یہ ہوا کہ یہ ہندوستان مین امارت کا یہ نظام قضا کی ضرورتوں کو پورا کرنے کے لیے ہے ۔ امیر المؤمنین یا خلیفہ کہ طرح پوری مملکت یا معاشرہ کی تمام ذمہ داریوں کو احاطہ کرنے کے لیے نہیں ۔