ہندوستان اور ہندو مسلم تنازعہ ۔۔ ایک مختصر تجزیہ
یہاں کے دونوں طبقوں میں دو قسم کی فکر و سوچ پہلے سے چلی آ رہی ہے ۔
مسلمانوں میں جناح والی فکر اور مولانا آزاد و مولانا مدنی والی سوچ ،
ہندووں میں سنگھ و ساورکر والی سوچ اور گاندھی و نہرو والی سوچ ۔
تقسیم کے وقت مسلمانوں کے اس طبقے نے الگ ملک لے لیا ۔ جب کہ ہندووں کے ساورکر والے طبقے کو الگ ملک نہ ملا ۔ یا تو اس لیے کہ
وہ قلیل تھے اور کوئی مستقل علاقہ ان کی سوچ والا نہ تھا جسے الگ مانگ سکتے ۔ یا
گاندھی و نہرو کے سامنے مغلوب ہوگئے ۔ یا
چالاکی سے یوں سوچ کر خاموش ہو گئے کہ یہاں کی اکثریت میں اب ہم ہی ہیں، سو اب الگ ملک کی ضرورت نہیں ۔
خیر ۔
یہ مختصر تجزیہ ہے ۔
دونوں طبقوں میں دونوں قسم کی فکر و سوچ آج بھی موجود ہے اور اپنا اثر دکھاتی رہتی ہے ۔
یہ بھی حقیقت ہے کہ دونوں طرف کے اکابر علماء ایک دوسرے کو مخلص مسلمان و مومن سمجھتے تھے ۔ کسی نے کفر و شرک کا سہارا لے ایک دوسرے کی تردید نہیں کی ۔ ہاں ! سطحی سوچ والے اور ایمان و شرک کی حقیقت نہ سمجھنے والے جذباتی سیاسی قائدین اور کم علم مقررین یا اخبار نویسوں نے کفر کی دکان کھول رکھی تھی ۔
اس حقیقیت کو اقبال تک نہ سمجھ سکے اور حضرت شیخ الاسلام رح پر بو العجبی و بو لہبی کا الزام لگا دیا ۔
یہ بھی ذہن نشین رہے کہ آج بھی وہاں ایسے علماء موجود ہیں جو تقسیم کو نادرست کہتے ہیں اور اقرار کرتے ہین کہ تقسیم بے فائدہ رہی اور مولانا مدنی و آزاد کا موقف زیادہ بہتر تھا ۔
حاصل تحریر یہ ہے کہ اس بحث میں کفر و شرک کا سہارا لینا قطعی درست نہیں ۔