BEST RESULT

Custom Search

Thursday, June 30, 2016

خلافت سے ملوکیت ، غلطی یا تجدید ؟

ایک دوست نے مولانا مودودی صاحب کے تجزیہ تاریخ اور تنقید اور تحقیق کو اجتہاد اور ایک جدید اور درست راہ قائم کرنے کا نام دیا ہے ، ان کے اپنے الفاظ میں “ دراصل یہ لوگ ایسے ہیں جنہوں نے صدیوں کی منجمد سوچ کو توڑنے کی کوشش کی۔ اور اجتہاد پر زور دیا۔ اور میرے خیال میں یہی تین لوگ تھے جو بڑھتی ہوئی مادی دنیا میں روح اور مادے دونوں کا امتزاج چاہتے تھے۔ “
گور کریں ، مولانا مودودی کو اب تک کے علماء کا نطریہ جو تعدیل صحابہ اور صحابہ کے بارے میں لب کشائی نہ کرنے پر مبنی تھا ، درست نہ معلوم ہوا تو انہوں نے اس بارے میں جراءت سے کام لے کر یہ کارنامہ انجام دیا اور اس سے بہت سارے تاریخی ، تحقیقی اور سبق آموز نتائج اخذ کیے ، اگر یہ کام ہماری نطر میں اجتہاد اور جراءت ہے اور موجودہ دور کی ضرورت ہے تو کیا حضرت معاویہ اس بات کے مستحق نہیں کہ خلافت کو ترک کے ملوکیت اپنانے میں ان کو بھی مجتہد اور ضرورت اور وقت کے تقاضوں پر عمل کرنے والا ، پر عزم ، باہمت قائد قرار دیا جائے ۔ اگر اگلوں کی روش سے اختلاف کا نام اجتہاد ہے ( چاہے وہ بالدلیل ہو ) تو پھر حضرت معاویہ کا خلافت ترک کر کے ملوکیت اپنانا بہت بڑا اور مردانہ اور ہمت والا اقدام ہے ۔ اور یاد رکھیے مولانا مودودی صاحب نے اسی نقطے پر پوری کتاب “خلافت و ملوکیت “ لکھی ہے ۔ ان کی نظر میں امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کا فیصلہ غلط تھا، اور اب تک کے علماء کا ان کے بارے میں خاموش رہنا غلط تھا اور اپنا کام اجتہاد اور نئی راہ قائم کرنا تھا تو کیوں جناب امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کے فعل کو اجتہاد اور جدت کا نام نہیں دیتے ؟ 
اور غور کیا ؟ حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کے زمانہ میں کتنے صحابہ حیات تھے ؟ اور ان میں سے کس نے اختلاف کیا ؟ حضرت حسن رضی اللہ عنہ نے خود خلافت انہیں سونپ دی، حضرت حسین رضی اللہ زندہ تھے، انہوں نے بھی امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کی مخالفت نہیں کی ، اور یزید کی مخالفت کی تو اس کے نا اہل ہونے کی وجہ سے ، خلافت کے ترکے کرنے اور ملوکیت اپنانے پر نہیں ۔حجاج بن یوسف سے ظالم کے سامنے آوازہ حق بلند کرنے والے صحابہ اور تابعین کا دور تو بعد میں آیا ، اس وقت تو اس سے زیادہ صحابہ موجود تھے۔ کتنوں کی مخالفت تاریخ میں درج ہے ؟ اور جناب مولانا مودودی کے اجتہاد کی کتنوں نے مخالفت کی ،اور موافقت کی ؟ تاریخ خود جواب دیتی ہے ۔ خلافت چھوڑ ملوکیت اپنانے کا امیر معاویہ رضی اللہ کا فیصلہ درست تھا یا تعدیل صحابہ کا نظریہ چھوڑ تنقید اور تجزیہ کا راستہ اپنانے کا مولانا مودودی کا فیصلہ درست ہے ؟

Saturday, June 25, 2016

ملت اسلامیہ اور فرد مسلم ۔

بحرِ حیات کا انمول گوہر ، ملتِ اسلامیہ

گلستانِ دہر میں ہزاروں گل کھلے ، مرجھا گئے ، غنچے مسکرائے ، کمھلا گئے
بحرِ حیات میں ہزاروں سفینے رواں ہوئے ، ڈوب گئے موجیں دب گئیں.
افقِ عالم پہ ہزاروں نقش ابھرے ، مٹ گئے چراغ بھڑکے ، بجھ گئے
تاریخِ عالم میں ہزاروں باب کھلے ، بند ہوگئے، عنوان ابھرے ، محو ہوگئے
عالمِ آب و گل میں ہزاروں گروہ نمودار ہوئے ،گم ہوگئے ، نگر بسے ،اجڑ گئے
مگر
ایک پھول کی نگہت سدا برقرار رہی
ایک چراغ کی لو کبھی مدھم نہ ہوئی
ایک عنوان کی اہمیت کبھی کم نہ ہوئی
ایک گوہر کی تاب کبھی ماند نہ پڑی
اور
بوستانِ دہر کا وہ گلِ سرسبد، افقِ عالم کا وہ تابندہ ستارہ، تاریخِ عالم کا وہ روشن عنوان اور بحرِ حیات کا وہ انمول گوہر ملتِ اسلامیہ ہے جسے قرآنِ کریم نے”خیر امتہ” کے شرف سے مشرف فرمایا اور “انتم الاعلون” کا مژدہ جانفزا سنایا۔
اے مری جان! تو اس ملت کا فرزند ہے جسے اللہ نے اپنے آخری پیغام کا امین ٹھہرایا اور جسے اقوامِ عالم کی امامت کا تاج پہنایا۔جب تک تو نے اپنے منصب کا اکرام کیا اور اپنی نسبت کی ناموس کا احترام کیا، اللہ نے تجھے بڑوں پر غلبہ عطا کیا ، تجھےاپنی نصرت و تائید سے ہمکنار کیا۔جب تک اللہ کا رہا ، اللہ کے لیے جیا اور اللہ کے لیے مرا۔ ہر کہیں تیرا احترام رہا ، اکرام رہا۔جب سے تو جہاں کا بنا،تیرا کوئی بھی نہ بنا اور کچھ بھی نہ بنا۔
تاریخِ عالم کی وہ داستان جس کا عنوان “مسلمان” ہے حیرت انگیز بھی ہے ، عبرت خیز بھی۔
کبھی وہ عالم کہ اس کا نام سنتےہی بحر وبر لرزتے اور کبھی ایسی بے بسی کہ الامان الامان۔ تیرے جوش کا یوں سرد پڑ جانا ، تیری بلندی کا پست میں بدل جانا ، تیری قوت کا ضعف میں ڈھل جانا ، تیرے کمال کا روبہ زوال ہوجانا کوئی معمولی حادثہ نہیں ، تاریخِ عالم کا بہت بڑا انقلاب ہے۔ تیرا یہ زوال انفرادی سطح پر بھی ہوا ، قومی سطح پربھی ، علم میں بھی ہوا ، عمل میں بھی۔ وہ بھی کیا دن تھے کہ تو لعلوں سے مہنگا بِکتا ، جب کبھی نعرہ زن ہوتا بحر وبر کانپ اٹھتے، فلک تیور بدلتا ، کروبیاں انگشت بدانداں ہوتے۔ اگر کوئی تیری غیرت کو للکارتا ، دم بھر کی مہلت نہ دیتا۔کسی قوت کو خاطر میں نہ لاتا ، نہ ہی کسی امداد کی مطلق پرواہ کرتا ، پہاڑوں سے ٹکرا جاتا ، چٹانوں کو ہلا دیتا ، کسی کثرت سے خوف نہ کھاتا۔جس میدان میں اڑ جاتا ، بازی لے جاتا۔ تیرے تیوروں کی تاب لانا کسی کے لیے ممکن نہ تھا۔ تیری سطوت وہیبت سے بحر وبر لرزتے۔ تیری گونج سے شیروں کے پتے پانی ہو جاتے۔ اگر کسی میدان میں موت سے سامنہ ہوتا ، آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر مسکراتا۔ تیری جبیں کی سلوٹ کسی نئے انقلاب کا عنوان بن جاتی۔
جس جاہ و حشمت کی خاطر دنیا مارے مارے پھرتی ہے تیری لونڈی بن کر تیرے حضور،دست بستہ باریابی کی منتظر رہتی۔تیرے نام کی گونج سے دنیا کا کونا کونا گونجا۔پہاڑ گونجے، صحرا گونجے، مست گونجے، رند گونجے، مدہوش گونجے، ہر کوئی گونجا مگر آج یہ گونج قصہ پارینہ بننے لگی۔تیری تاریخ کے تابناک قصے افسانے بننے لگے،تیری سطوت وہیبت کی داستان قصہ ماضی بننے لگے۔وقت کی گردش نے تیرے کردار کو دھندلا دیا۔آج تیرے کسی میدان میں کوئی علم نہیں لہرا رہا۔نہ دین کے میدان میں نہ دنیا کے۔ نہ علم کے نہ عمل کے، نہ عبادات کے نہ معاملات کے۔
اگر تیرے یہ مشاغل اور محافل جن میں گم ہوکر تو اپنی آب کھو بیٹھا ہے تجھے کچھ فرصت دیں تو اپنا محاسبہ کر۔زندگی تیز رفتاری سے گذر رہی ہے، دیارِ ہستی کی شام ہونے والی ہے ، سانس کا رشتہ ٹوٹنے کو ہے ،شیرازہ بکھرنے کو ہے ، دیا بجھنے کو ہے ، وقت کی قدر کر ۔مہلت کو غنیمت جان۔زندگی یوں گذار کہ تجھے یہاں سے جانے کا افسوس نہ ہو۔
اے ملت کے پاسبان! گزرے ہوئے دور کی داستانوں سے دل نہ بہلا۔
ملت کی داستان کا آغاز جو کسی گزری ہوئی داستان سے کم نہ ہو۔ہرداستان کی ابتدا جدوجہد سے ہوتی ہے۔جدوجہد جب جوبن پر آتی ہے داستان بن جاتی ہے۔جدوجہد کے میدان میں اتر، تاریخِ عالم تیری داستان سننے کی منتظر ہے۔وقت تیری ضرورت کو پھر تسلیم کر رہا ہے۔ اگر تو نے تاریخِ عالم کے صفحات پر نئے عنوان تحریر کرنے ہیں تو وقت کی آواز سن۔اتحاد و اخوت کا علمبردار بن۔ جو دھونی بجھ گئی ہے اسے پھر سے رما،جو آگ سرد پڑچکی ہے اسے پھر سے دہکا، جو شعلہ بجھ چکا ہے اسے پھر سے بھڑکا۔شبشتانِ عشرت سے باہر آ۔ یہ دور بات کا نہیں،صفات کا منتظر ہے۔ زندگی میں کوئی عملی نمونہ پیش کر۔تیرے پاس نمونوں کے انبار لگے پڑے ہیں۔ صدیق کی صداقت ، عمر کی عدالت ، عثمان کی سخاوت ، علی کی شجاعت،حسین کی شہادت ، اویس کی خاموش محبت ، جنید کا مراقبہ توحیدِ افعالی ، بوعلی قلند کا جذب اور مخدوم صابر صاحب کا جلال تیرا قابل فخر سرمایہ ہے۔ روشنی کے ان میناروں سے اپنی راہ منور کر۔ یہ نشانِ منزل بھی ہے جادہ بھی۔ اپنے اسلاف کے نام کی لاج رکھ۔
تیرا چلنا پھرنا عام انسانوں کا سا ہو۔ لیکن سوچ نافعِ الخلائق۔ ملت کی اقبال مندی کیلیے متحد ہو۔ذات کو ملت پر قربان کر۔زندگی،جہاد ہے۔ جہاد میں لڑنا مجاہد کا کام، فتح و نصرت اللہ کے ہاتھ۔اللہ کی رحمت سے محروم نہ ہو۔ اللہ بھی موجود ہے رحمت بھی موجود ہے۔ دنیا بھر کی باطل قوتیں مل کر بھی حق کو مٹا نہیں سکتیں۔ اس چراغ کو بجھا نہیں سکتیں۔ اس سفینے کو ڈبو نہیں سکتیں۔ یہ ہچکولے تیری بیداری کیلیے ہیں۔
ماں نے جب بھی بچے کو پیٹا، دلجوئی ضرور کی اور ہمارا رب تو ماں سے سو گنا زیادہ مہربان ہے۔
اے ہمارے رب! پٹائی تو ہماری ہوچکی، اب دلجوئی باقی ہے۔ تو اپنے حبیبِ اقدس کی ہمیشہ ہمیشہ قائم رہنے والی نبوت و رسالت کے صدقے،ہمیں ہماری کھوئی ہوئی عزت و عظمت، شان وشوکت، سطوت و ہیبت، اور غیرت و تمکنت پھر سے عطا فرما (یا حیی یا قیوم یا ذوالجلال والاکرام) آمین

Thursday, June 16, 2016

بچے پر ماں کی محبت کے اثرات

بچے کی جسمانی صحت، ذہنی صحت اور نشوونما اس کی Personal Growth کیلئے ماں اور ممتایعنی ماں کی محبت بہت اہم کردار ادا کرتے ہیں بعد میں یہ بچے کی شخصیت اور مستقبل کی ذہنی صحت پر اثرانداز ہوتے ہیں۔ بچے کی آئندہ شخصیت اور آنے والے کل کا دارومدار انہی دو چیزوں پر ہوتا ہے۔

.1ماں کی محبت
.2 بچے کا ماں سے تعلق
اگر اللہ نہ کرے ماں کا انتقال ہوجائے تو اس کی جگہ کوئی اور نہیں لے سکتا۔ یہ دکھ اور محرومی بچہ ساری زندگی محسوس کرتا ہے۔ ماں اور بچے کے درمیان محبت، الفت، انسیت کا جاری و ساری چشمہ اور تعلق دونوں کی یکساں آبیاری کرتا ہے اور یہ رشتہ دونوں کو اطمینان و انبساط اورخوشی سے ہمکنار کرتا ہے۔
ماں کی محبت اور شفقت سے محرومی کو ہم Maternal Deprivation کہتے ہیں اس کی چندوجوہات ہیں۔
باپ/ ماں کا انتقال، طویل بیماری، جسمانی معذوری، ذہنی معذوری، نفسیاتی بیماری، صاحب خانہ کی بیروزگاری، تنگی ترشی، گھر کا ٹوٹ جانا، طلاق، علیحدگی، ماں کا سارا دن ملازمت اور روزگار پر رہنا، جنگ، قحط، زلزلہ اوراس جیسے دوسرے امور۔
ماں کو بچے سے محبت ہے، بچہ محبت کرنا سیکھ لیتا ہے۔ اب وہ ساری عمر لوگوں سے محبت اور شفقت سے پیش آئے گا۔
اگر بچے کوماں کی محبت نہیں ملے گی تو وہ گرد و پیش سے نفرت کرنا سیکھ لے گا اور ساری عمر لوگوں سے نفرت کرتا رہیگا۔
ان نفسیاتی الجھنوں کو سمجھنے کیلئے ضروری ہے کہ ہم بچپن اور لڑکپن میں پیش آنے والے حالات کا ماں سے محبت کے رشتے کااور باپ سے تعلق کا جائزہ لیں یا چھان بین کریں۔ آگے چل کر زندگی میں پیش آنے والے مسائل انہی روابط اور تعلقات کے چاروں طرف گھومتے ہیں۔ وہ بچے جو اپنی ماں سے محروم ہوجاتے ہیں طرح طرح کی نفسیاتی پریشانیوں کا شکار رہتے ہیں ملنے جلنے والوں کے ساتھ کام کرنے والوں سے ضرورت سے زیادہ محبت‘ توجہ کے طلب گار ہوتے ہیں۔ بسا اوقات یہ لوگ خطرناک حد تک کینہ پرور ہوجاتے ہیں اور بدلہ لینے کیلئے خطرناک حد تک بڑھ جاتے ہیں ان کی ساری زندگی انہی دائروں میں گھومتی رہتی ہے۔ آنے والی زندگی میں نہ وہ کسی سے محبت کرتے ہیں اور نہ محبت کرنا سیکھتے ہیں۔ ایک شرمساری اداسی، افسردگی ساری عمر ان کا پیچھا کرتی ہے۔ وہ ساری عمراضطراب اور بے چینی کا شکار رہتے ہیں وہ اس پر کیسے قابو پائیں انہیں نہیں معلوم کہ انہیںاپنے شدید جذبات، ہیجانات کو کیسے کنٹرول کرنا ہے۔ کس طرح خود کو طوفان سے محفوظ رکھنا ہے وہ اپنی ساری زندگی ان گتھیوں کو سلجھانے اور بھول بھلیوں میں اپنا رستہ تلاش کرنے کی اچھی بری کوشش میں گزار دیتے ہیں وہ خود اپنے ساتھ اور دنیا کے ساتھ قابل عزت تعلقات استوار نہیں کرپاتے۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ ماں کی محبت نہ ملنے سے بچے بڑے ہوکر بے راہ روی کا شکار ہوجاتے ہیں اور اپنی زندگی میں دباﺅ سے مقابلہ کرنے کی صلاحیت نہیں رکھ پاتے اور اگر دباﺅ کا سامنا کرنا پڑے تو وہ حالات سے نمٹنے کے لئے سماج دشمن اطوار اپناتے ہیں اور ان کی شخصیت ٹوٹ پھوٹ کرکجروی کا شکار ہوجاتی ہے۔ نفسیات اور عمرانیات میں اسے Anti Social Personality Psycopath کہتے ہیں۔ یہ لوگ اول عمر سے قانون شکنی کا راستہ اختیار کرتے ہیں۔
اینٹی سوشل پرسنیلٹی کی علامات میں دوسروں کے حقوق کا پاس نہ کرنا‘ معاشرے کے رسموں رواج کا احترام نہ کرنا، دھوکہ دینا، جھوٹ بولنا، دوسرے لوگوں کو ذاتی فائدہ یعنی حصول لذت کیلئے استعمال کرنا، چڑچڑا پن ، لڑنا جھگڑنا، جارحانہ رویہ، دوسروں کا خیال نہ کرنا، مستقل مزاجی سے ملازمت نہ کرنا، غیر ذمہ داری، قرضہ کو واپس نہ کرنا، شرمندہ نہ ہونا، معافی نہ مانگنا۔
والدین کی طلاق ہونے کی صورت میں، سوتیلے باپ یا ماں کے مسترد کرنے کی وجہ سےUnhealthy Relationships بن جاتے ہیں اس تکلیف دہ صورتحال سے بچہ بہت زیادہ متاثر ہوتا ہے۔ یہ کم عمری کے تجربات آنے والی زندگی کا احاطہ کئے رہتے ہیں جس طرح انسان کا سایہ ساری عمر اس کا پیچھا کرتا ہے۔ اسی طرح یہ ناخوشگوار معاملات ساری عمر انسان کے ساتھ رہتے ہیں اوروقت گزرنے کے ساتھ شام کے سائے کی طرح یہ طویل سے طویل ہوتے چلے جاتے ہیں۔
بسااوقات یہ بھی ہوتا ہے کہ ماں اپنی جگہ موجود ہے مگر وہ غربت یا باپ کی بے روزگاری، بیماری یا اپنی بیماری کی وجہ سے بچے پر وہ توجہ نہیں دے پاتی جو بچہ کی Nourishment Nurturance جیسی ضرورت کا اہتمام کرسکے۔ ماں کی جگہ دادی، نانی لے لیتی ہے مگر وہ اپنی صحت و ضعیفی کی وجہ سے وہ توجہ نہیں دے سکتی اور محنت نہیں کرسکتی جو بچے کی پرورش کا بنیادی تقاضہ ہے اور یہ کام ملازمہ بھی نہیں کرسکتی۔
والدین کا بچوں کے ساتھ ناروا سلوک، مارپیٹ کرنا، گالی گلوچ کرنا، مسترد کرنا، غفلت، نظر انداز کرنا ایسا ہی ہے جیسے بچے کے سر پر باپ کا سائبان اور ماں کا سایہ نہ ہو۔ والدین اپنے بچوں کی اچھی اور معیاری پرورش کریں گے تو یہ آگے چل کر اچھے معاشرے اور اچھی ذہنی صحت کے ضامن ہوں گے۔
انسان کی کردار سازی اور شخصیت کی بڑھوتری میں اس کے گھر کا ماحول بہت اہم رول ادا کرتا ہے۔ ہم لوگ اپنے گھر، ہسپتال کی صفائی ستھرائی پر بہت زور دیتے ہیں، اسکول کی کارکردگی پر نظر رکھتے ہیں مگر گھر، گھرانے، گرہستی کے ٹوٹنے اور بکھرنے کو بھول جاتے ہیں۔ انہی Broken homes سے نکل کر یہ بچے، نوجوان آگے چل کر اپنے دشمن آپ بن کر سماج کے تارپود بکھیرتے ہیں، ہر بچے کی ذہنی اور جسمانی نشوونما کے لئے گھر، ماں کی محبت، باپ کا سایہ، بہن بھائی کا ساتھ بہت ضروری ہے۔ اگر بچے کو ماں کی محبت سے محروم کردیا جائے تو وہ بے راہ روی کا شکار ہوجاتا ہے۔ جس طرح بچے کی جسمانی ضرورت کیلئے وٹامن اور پروٹین ضروری ہیں اسی طرح ذہنی صحت کیلئے محبت اور ماں کی آغوش بہت ضروری ہے۔ ہر بچے کی اچھی نگہداشت معاشرے کی ذہنی فلاح و بہبود اور سماج کی ذہنی صحت کیلئے ضروری ہے۔ ٹوٹے پھوٹے گھرانے سے آنے والے بچے بڑے ہوکر باہر کی دنیا میں اپنی جگہ نہیں بناسکتے۔

Monday, June 13, 2016

کامیابی چاہتے ہیں تو 10 مشکل کام ضرور کریں

کامیابی چاہتے ہیں تو 10 مشکل کام ضرور کریں

کامیابی کی خواہش ہر کوئی رکھتا ہے لیکن اس کے حصول کے لیے تگ و دو سب نہیں کرتے- یا تو بعض افراد کامیابی کے سفر میں آنے والی مشکلات کو دیکھ کر ہی سفر ادھورا چھوڑ دیتے ہیں یا پھر کچھ لوگوں کو درست رہنمائی نہیں مل پاتی- ایک کامیاب زندگی حاصل کرنے کے لیے آپ اپنے اندر موجود چند مشکل کاموں کے خوف کا خاتمہ کیجیے جو آپ کو آگے بڑھنے سے روک رہے ہیں- وہ کونسے مشکل کام ہیں جو آپ کو ضرور کرنے ہیں٬ آئیے ہم بتاتے ہیں-
 

یہ ایک حقیقت ہے کہ اکثر لوگ چند مخصوص موضوعات پر کسی سے فون پر بات کرنے سے بھی ہچکچاتے ہیں لیکن آپ کو چاہیے کہ ایسی فون کال ضرور کریں اور کھل کر بات کریں تاکہ آپ میں اعتماد بحال ہو-

بیشتر افراد کے لیے صبح سویرے جاگنا دنیا کا مشکل ترین کام ہوتا ہے تاہم اگر کامیابی چاہیے تو پھر صبح جاگنا بھی پڑے گا-
 

عام طور پر انسان نے پیمانہ بنا رکھا ہے کہ “ جتنا سامنے والا کرے گا ہم بھی اتنا ہی کریں گے“ لیکن اس پیمانے ترک کیجیے اور دوسروں کا خیال اس سے زیادہ کیجیے جتنا وہ آپ کا کرتے ہیں-

چاہے کوئی آپ کی پیروی نہ بھی کر رہا تو بھی خود کو ایک رہنما تصور کرتے ہوئے فیصلہ کیجیے-
 
اس وقت بھی کام مکمل کر کے دینے کی عادت ڈالیے جب آپ اسے بہانہ بنا کر نظرانداز کرنا بھی ممکن ہو-
 

کسی بھی ناکامی کی صورت میں کوشش کرنا نہ چھوڑیے کیونکہ کوشش ہی وہ شے ہے جو آپ کو کامیابی تک لے جائے گی-

ایسے لوگوں کے ساتھ بھی بہترین رویہ اپنائیے جو آپ کو پسند نہیں کرتے یا پھر آپ ان کو پسند نہیں کرتے-
 
ہمیشہ اپنے اقدامات کے جوابات دینے کے لیے تیار رہیں جو حالات کتنے ہی مشکل کیوں نہ ہوجائیں-
 

ہر رکاوٹ کو دور کرتے ہوئے اپنی منزل کی جانب سفر ہر صورت جاری رکھیے کیونکہ اگر آپ نے رکاوٹوں یا مشکلات کو بہانہ بنا لیا تو زندگی صرف بہانے تراشنے میں ہی گزر جائے گی-
 
کسی بھی کام کی مکمل تفصیلات ضرور جانیے چاہے آپ اس سے جان چھڑا بھی سکتے ہوں اور آپ کو یہ آسان بھی معلوم ہورہا ہو-

Saturday, June 11, 2016

قرآن مجید کی سورتیں، آیات، کلمات اور حروف​

قرآن مجید کی سورتیں، آیات، کلمات اور حروف​

قرآن مجید کی سورتوں، آیات، کلمات اور حروف میں مع اختلاف:​

راجح قول کے مطابق قرآن مجید میں114 سورتیں ہیں- 

آیات کی تعداد: اکثر علماء کے نزدیک کل آیات (6666) ہیں- 
بعض کے نزدیک (6616) آیات ہیں- 
بعض کے نزدیک (6216) آیات ہیں-
بعض کے نزدیک (6237) آیات ہیں-

کلمات کی تعداد: قرآن پاک کے کلمات کی تعداد کے بارے میں درج ذیل مشھور اقوال ہیں: ​

1/ (77933)
2/ (77437)
3/ (77277)

حروف کی تعداد: اس میں مشھور قول دو ہیں: ​

1/ (323671)
2/ (323760)

سورتوں کی ترتیب اور اقسام:​

سورتوں کی ترتیب: قرآن مجید کی آیات کی ترتیب اور سورتوں کی ترتیب کو جاںنا بہت ضروری ہے- مفسرین اور علماء کا اس بات پر تو اتفاق ہے کہ آیات کی ترتیب توقیفی ہے یعنی نبی ۖ نے جبرئیل علیہ السلام کی اطلاع کے مطابق ہرسورت کے اندر آیات کو مرتب کیا اور کئی ایک احادیث سے بھی یہ بات واضح ہوتی ہے- البتہ سورتوں کی ترتیب کے بارے میں اختلاف ہے کہ موجودہ مصحف کی ترتیب بھی رسول اللہ ۖ نے بتلائی تھی یا صحابہ کرام رض نے اپنے اجتہاد سے ایسا کیا ہے- 

سورتوں کی اقسام: قرآن پاک کی سورتوں کی مختلف اقسام بتائی گئی ہیں، مثلا:

1/ طواسیم: وہ سورتیں جو"طس" یا "طسم" سے شروع ہوتی ہیں- 

2/ حوامیم: وہ سورتیں جو "حم" سے شروع ہوتی ہیں- 

3/ مسبّحات: وہ سورتین جو "سبّح" یا "یسبّح" سے شروع ہوتی ہیں-

4/ العتاق الاول: یہ 5 سورتیں ہیں: (1) بنی اسرائیل (2) الکھف (3) مریم (4) طہ (5) الانبیاء –

قرآن مجید کی سورتوں کو ایک اور انداز سے 4 حصوں سے تقسیم کیا گیا ہے:​

1/ السّبع الطّوال: سورہ قاتح کے بعد والی 7 لمبی سورتوں کو "سبع الطوال" کہتے ہیں-

2/ المئین: وہ سورتیں جن کے آیات (100) یا اس سے زیادہ ہوں ان کو "المئین" کہتے ہیں- 

3/ المثانی: وہ سورتیں جن کی تعداد (100) سے کم ہوں ان کو مثانی کہتے ہیں- 

"مثانی" کا معنی بار بار دہرائی جانے والی- کہ "طوال" اور "مئین" کی نسبت زیادہ دہرائی جاتی ہیں یا ان میں احکام و قصص کو تکرار سے بیان کیا گیا ہے اس لیے ان کو مثانی کہتے ہیں- 

4/ المفصّل: سورۃ ق یا سورۃ الحجرات سے سورۃ الناس تک کا حصہ مفصل کہلاتا ہے اور اس کی مندرجہ ذیل 3 اقسام ہیں-

1/ طوال المفصّل: سورۃ الحجرات یا سورۃ ق سے سورۃ البروج تک- 
2/ اوساط المفصّل: سورۃ البروج سے سورۃ البیّنہ تک- 
3/ قصار المفصّل: شورت البیّنہ سے سورۃ الناس تک-

قرآن مجید کی سورتوں، آیات، کلمات اور حروف کے اعتبار سے قرآن کا نصف:​

1/ سورتوں کی گنتی کے اعتبار سے"سورۃ الحدید" پر پہلا نصف ختم ہوتا ہے اور "سورۃ الجادلۃ" سے دوسرا نصف شروع ہوتا ہے- 
2/ آیات کے اعتبار سے سورۃ الشعراء کیآیت 45 ( فاالقی موسی عصاہ فاذا ھی تلقف ما یافکون) تا نصف اول ہوتا ہے اور( فاالقی السّحرۃ سجدین) آیت:46 سے دوسرا نصف شروع ہوتا ہے- 
3/ کلمات کے اعتبار سے سورۃ الحج کیآیت نمبر 20 کے کلمہ (والجلود) پر نصف اول ختم ہوتا ہے اور آیت نمبر 21 کے کلمہ (ولھم مّقامع) سے دوسرا نصف شروع ہوتا ہے- 
4/ حروف کے اعتبار سے نصف کے بارے میں 2 قول ہیں:

(1) سورۃ کھف آیت نمبر 19 کے لفط(ولیتلطّف) پر نصف اول مکمل ہوتا ہے- 
(2) سورۃ کھف آیت نمبر 74 کے لفظ(نکرا) کے کاف پر نصف اول مکمل ہوتا ہے- 

Thursday, June 9, 2016

15 ولی اللہی نکات

 ولی اللہی نکات

شاہ ولی اللہ کے افکار کے مطابق انسان اور انسانی معاشرے کے بارے میں یہ پندرہ نکات سامنے آتے ہیں:

 1(الف)   انسان میں ذاتی غرض کی بجائے مفادِ عامہ کو اپنانے کی خصوصیت موجود ہے۔
 (ب)    انسان ہر قسم کی پاکیزگی اور جمالیاتی حِس کا حامل ہے۔
  (ج)    وہ اپنے علم کو بڑھانے اور خود غرضی سے پاک مقاصد کو پورا کرنے کی کوشش میں لگا رہتا ہے۔
اگر انسان یہ تینوں خصوصیات کھو بیٹھے تو وہ انسان کہلانے کا مستحق نہیں۔
 2۔ فرد اور معاشرہ دو الگ الگ چیزیں نہیں ہیں۔ ایک انسان کی تکلیف پوری انسانیت کی تکلیف ہے۔
3۔معاشرے کی ترقی کے لئے تمام انسانوں کو معاشی طور پر خوشحال ہونا ضروری ہے۔
4۔اگر وہ خوشحال نہیں ہوں گے تو وہ مذہب اور اخلاقی ضابطوں کی پابندی نہیں کر سکیں گے اور معاشرہ تباہ ہو جائے گا۔ اس لئے لوگوں کی خوشحالی کا مطلب ہے ایک صالح اور نظریاتی معاشرے کا قیام۔
5۔اگر انسان کو صحیح ماحول اور مناسب تربیت میسر نہیں آئے تو وہ لالچی بن جاتا ہے۔ دوسروں کی محنت پر عیش کا خواہش مند ہو جاتا ہے۔ جب کوئی چیز ملتی ہے تو وہ اس میں اضافے کا خواہاں ہوتا ہے۔
6۔زیادہ سے زیادہ حاصل کرنے کی کوشش سے ایک نظام پیدا ہو جاتا ہے۔ جس میں چالاک لوگوں کا ایک طبقہ تمام وسائلِ پیداوار کا مالک بن بیٹھتا ہے۔ اس نظام میں غریبوں اور مزدوروں کی کوئی عزت نہیں ہوتی۔ وہ دولت مند غاصبوں کے رحم و کرم پر ہوتے ہیں۔ یہ نظام قیصر و کسریٰ کا نظام ہے۔
7۔اسلام قیصر و کسریٰ کے نظام کو توڑنے کے لئے آیا تھا۔
8۔ دولت کا حقیقی مالک خدا ہے۔ بنیادی طور پر کوئی چیز کسی کی ملکیت نہیں۔
9۔خدا کی ساری زمین ایک مسجد اور سرائے کی طرح ہے جو اس نے تمام مسافروں کے لئے وقف کر دی ہے۔ اس سے فائدہ اٹھانے میں سب انسان برابر کے شریک ہیں۔
10۔معدنیات کی کانیں (اور دیگر وسائلِ پیداوار) کسی ایک فرد کی ملکیت نہیں ہو سکتیں۔
11۔معاشرے میں امدادِ باہمی کے اصول کو اس طرح رائج کیا جائے کہ کوئی شخص کسی دوسرے شخص کے لئے معاشی تنگی کا باعث نہ بننے پائے اور ہر شخص خوشحال زندگی بسر کر سکے۔
12۔ایسے معاشی ادارے جڑ سے ختم کئے جائیں جن کے ذریعے دولت چند ہاتھوں میں جانے کا موقع ہے۔
13۔معاشی استحکام اور غیر استحصالی نظام کے لئے ضروری ہے کہ ہر شخص کوئی نہ کوئی کام کرے اور اپنی روزی خود کمائے۔ دوسرے کی محنت سے فائدہ نہ اٹھا سکے۔
14۔ایسے پیشے جو نہ تو براہ راست ملکی پیداوار میں مدد دےتے ہیں اور نہ پیداواری اداروں کی فہرست میں آتے ہیں یا جو پیشے صرف دولت مندوں کی عیش و عشرت میں مددگار کا کام دےتے ہیں ختم ہو جانے چاہئیں۔ ان پیشوں سے معاشرہ اخلاقی اور معاشی دونوں طرح زوال پذیر ہو جاتا ہے۔
15۔صرف دَس بیس درہم، گھر کی ضرورت کا سامان، استعمال کی چیزیں اور دن رات کے کاروبار میں استعمال ہونے والی رقم اکتناز نہیں۔ اس سے زیادہ دولت کا ذخیرہ اکتناز ہے جو اسلام میں حرام ہے۔

Tuesday, June 7, 2016

اپنا مزاج بدلنا مشکل ہے۔۔۔۔۔ ناممکن نہیں!!!

اپنا مزاج بدلنا مشکل ہے۔۔۔۔۔ ناممکن نہیں!!!
بعض افراد اپنے خاص مزاج کو جس پر وہ پروان ثرھتے ہیں، جس کے حوالے سے لوگ انھیں پہچانتے ہیں اور جس کی بنیاد پر لوگوں کے ذہنوں میں ان کا تصور ابھرتا ہے، اپنی ذات کا ایسا لازمہ سمجھتے ہیں جسے علیحدہ یا تبدیل کرنا ممکن نہیں۔ اس نوع کے افراد اپنی فطرت کے آگے جُھک جاتے اور اس پر اکتفا کر لیتے ہیں، بالکل اسی طرح جیسے وہ اپنی جسمانی ساضت اور اپنے پیدائشی رنگ کو جنھیں تبدیل کرنا ان کے بس میں نہیں ہوتا، تسلیم کر لیتے ہیں۔ اس کے باوجود وہ آدمی جو اپنے آپ کو حالات کے سانچے میں ڈھالنے پر قادر ہے، سمجھتا ہے کہ انسان کے لیے طبائع کو بدلنا اتنا ہی آسان ہے جتنا لباس کو تبدیل کرنا!
ہمارے مزاج بہے پڑے دودھ کی مانند نہیں کہ اسے اکٹھا کر لانا محال ہو۔ طبع کی زمام ہمارے ہاتھ میں‌ہوتی ہے اور ہم چند مخصوص طریقے استعمال کر کے نہ صرف لوگوں کی عادتیں‌بلکہ اُن کے دماغ تک دوسرے رُخ پر ڈال سکتے ہیں۔
ابن حزم نے اپنی کتاب طوق الحمامہ میں اندلس کے ایک مشہور تاجر کا واقعہ نقل کیا ہے ۔ وہ لکھتے ہیں:
“اندلس میں ایک تاجر اپنی کاروبارہ لیاقت اور ہوشیاری کی وجہ سے مشہور تھا۔ ایک بار اس میں“‌اور دیگر چار تاجروں میں مقابلہ ٹھن گیا۔ انہوں نے مارے حسد کے گتھ جوڑ کرلیا کہ اُسے زِچ کرنے میں کوئی کسر نہیں اٹھارکھیں گے۔
ایک صبھ وہ تاجر سفید براق لباس پہنے اور سفید عمامہ باندھے گھر سے دکان کی طرف روانہ ہوا۔ اُن چار تاجروں میں سے ایک تاجر اُسے راستے میں ملا۔ اس نے پہلے تو بڑی گرم جوشی سے اسے سلام کیا، پھر عمامے کی طرف دیکھ کر کہنے لگا:“کیسا خوش نما ہے یہ پیلا عمامہ!!“
وہ بولا:“تمھیں نظر نہیں آتا؟ یہ سفید عمامہ ہے۔“
اس نے جواب دیا :“ہے تو پیلا ہی، پر ہے خوبصورت۔“
تاجر نے پروانہ کی،اسے چھوڑ کر اور آگے چل دیا۔ ابھی چند قدم ہی چلا ہو گا کہ دوسرا تاجر ملا۔ اس نے بھی سلام کیای اور عمامے کی نظر اٹھا کر کہا:
“آج آپ بڑے خوب صورت نظر آرہے ہیں، لباس بھی اعلی ہے اور یہ سبز عمامہ تو بڑا ہی پیار الگ رہا ہے۔“
تاجر بوالا :“بھائی ! یہ سفید عمامہ ہے۔“
اس نے کہا:“نہیں جناب ، سبز ہے۔“
“سفید ہے یار۔ اب میری جان چھوڑ دو اور مجھے جانے دو۔“اس نے تنگ آکر کہا۔ وہ بے چارہ اپنے آپ سے باتیں کرتا چلتا رہا۔ بار بار یہ اطمینان کرنے کے لیے کہ عماممہ سفید ہے۔شِملے کی طرف دیکھتا جو کندھے پہ لٹک رہا تھا۔اسی شش وپنج میں وہ اپنی دکان پر پہنچا اور تالا کھولنے لگا تو تیسرا تار آگے بڑھا اور بولا:
“بھئی واہ! آج کی صبح تو بہت خوب صورت ہے۔ اس پر طرہ یہ تمھارا دلکش لباس، ماشاءاللہ! اور یہ تمھارا نیلا عمامہ تو سونے پر سہاگے کا کام کر رہا ہے۔“
تاجر نے پہلے تو اپنے عمامے کو بغور دیکھا پھر آنکھیں ملیں، پھر دیکھا اور بڑی لجاحت سے کہا:
“بھائی میرے! میرا عمامہ سفید ہے، سفید ہے۔“
وہ بولا:“اور نہی!نیلا ہے۔ مگر فکر کی کوئی بات نہیں، اچھالگ رہا ہے۔“
یہ کہہ کر اس نے سلام کیا اور چل دیا۔ تاجر چیختا رہا:
“عمامہ سفید ہے، سفید ہے، سفید ہے۔“
پھر اس نے عمامہ اتارا اور الٹ پلٹ کر اچھی طرح‌دیکھا۔ جب اطمینان ہو گیا کہ عمامہ سفید ہی ہے تو دوبارہ پہن لیا۔
وہ دکان مین بیٹھا اور اس دوران برابر عمامے کے سملے کو دیکھتا رہا۔ تھوڑی دیر ہی گزری تھی کہ چوتھا تاجر آخری پتا پھینکنے دکان میں داخل ہوا اور بولا:
“بھائی جان! مرحبا ، ماشاءاللہ یہ سرخ عمامہ آپ نے کہاں سے خریدا ہے؟“
تاجر پوری قوت سے چلایا:“میرا عمامہ نیلا ہے۔“
اس نے کہا:“ارے نہیں بھائی جان! یہ تو سرخ ہے۔“
تاجر بدحواس ہو گیا، کہنے لگا:“نہیں، سبز ہے، نہیں، نہیں، سفید ہے۔۔۔۔ نہیں۔۔۔۔۔۔ نیلا۔۔۔۔۔۔ سیاہ۔“
پھر ہنسا، پھر چیخا ، پھر رو دیا اور کھڑا ہو کر اُچھلا ، اس کے بعد باہر کی طرف دوڑ لگا دی۔“
ابن حزم کا کہنا ہے:
“اس کے بعد وہ تاجر پاگل ہو گیا۔ میں نے اسے کئی بار دیکھا۔ وہ اندلس کی سڑکوں پر مارا مارا پھرتا اور بچے اسے کنکر مارا کرتے تھے۔“
ملاحظہ کیجیے کہ کیسے ان لوگوں نے عام حیلوں‌اور مہارتوں کو استعمال کرتے ہوئے ایک آدمی کو نہ صرف اس کے معمول کے کاموں کی انجام دہی سے روک دیا بلکہ اس کا دماغ اُلٹا کر کے پاگل بنا دیا۔ پھر ہمارے لیے کیا مشکل ہے کہ ہم پڑھی لکھی اور قرآن و حدیث کے نور سے روشن مہارتوں کو عمل میں‌لاکر کامیاب زندگی گزارنے کی سعی نہ کریں۔
میرا آپ کو مشورہ ہے کہ آپ اچھے ہنر اور مفید مہارتوں سے سے واقفیت بہم پہنچائیں اور پھر انھیں اپنا کر سعادت مندی سے بہرہور ہوں۔ اور آگر آپ مجھ سے یہ کہیں گے کہ میں اپنی زندگی کونہیں‌بدل سکتا تو میں جوابا کہوں کہ کوشش کرکے تو دیکھیں، آپ بدل سکتے ہیں۔
اگر آپ کہیں گے کہ میں وہ طریقے نہیں جانتا تو میں کہوں گا کہ وہ طریقے سیکھ لیں۔ کیا آپ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وہ حدیث نہیں‌سنی:

انما العلم بالتعلم، وانما الحلم بالتحلم

“علم سیکھنے ہی سے آتا ہے اور تحمل اپنانے سے حاص ہوتا ہے۔“

نقطہ نظر

“بہادر وہ ہے جو نہ صرف اپنی مہارتیں‌بہتر بنائے اور اُنھیں ترقی دے بلکہ لوگوں کی مہارتوں کی مرحلہ وار بہتر بنانے اور بعض اوقات اُنھیں بدل ڈالنے کی صلاحیت بھی رکھتا ہوں۔“

زندگی سے لطف اٹھائیے ۔ محمد العریفی ۔