BEST RESULT

Custom Search

Tuesday, June 7, 2016

اپنا مزاج بدلنا مشکل ہے۔۔۔۔۔ ناممکن نہیں!!!

اپنا مزاج بدلنا مشکل ہے۔۔۔۔۔ ناممکن نہیں!!!
بعض افراد اپنے خاص مزاج کو جس پر وہ پروان ثرھتے ہیں، جس کے حوالے سے لوگ انھیں پہچانتے ہیں اور جس کی بنیاد پر لوگوں کے ذہنوں میں ان کا تصور ابھرتا ہے، اپنی ذات کا ایسا لازمہ سمجھتے ہیں جسے علیحدہ یا تبدیل کرنا ممکن نہیں۔ اس نوع کے افراد اپنی فطرت کے آگے جُھک جاتے اور اس پر اکتفا کر لیتے ہیں، بالکل اسی طرح جیسے وہ اپنی جسمانی ساضت اور اپنے پیدائشی رنگ کو جنھیں تبدیل کرنا ان کے بس میں نہیں ہوتا، تسلیم کر لیتے ہیں۔ اس کے باوجود وہ آدمی جو اپنے آپ کو حالات کے سانچے میں ڈھالنے پر قادر ہے، سمجھتا ہے کہ انسان کے لیے طبائع کو بدلنا اتنا ہی آسان ہے جتنا لباس کو تبدیل کرنا!
ہمارے مزاج بہے پڑے دودھ کی مانند نہیں کہ اسے اکٹھا کر لانا محال ہو۔ طبع کی زمام ہمارے ہاتھ میں‌ہوتی ہے اور ہم چند مخصوص طریقے استعمال کر کے نہ صرف لوگوں کی عادتیں‌بلکہ اُن کے دماغ تک دوسرے رُخ پر ڈال سکتے ہیں۔
ابن حزم نے اپنی کتاب طوق الحمامہ میں اندلس کے ایک مشہور تاجر کا واقعہ نقل کیا ہے ۔ وہ لکھتے ہیں:
“اندلس میں ایک تاجر اپنی کاروبارہ لیاقت اور ہوشیاری کی وجہ سے مشہور تھا۔ ایک بار اس میں“‌اور دیگر چار تاجروں میں مقابلہ ٹھن گیا۔ انہوں نے مارے حسد کے گتھ جوڑ کرلیا کہ اُسے زِچ کرنے میں کوئی کسر نہیں اٹھارکھیں گے۔
ایک صبھ وہ تاجر سفید براق لباس پہنے اور سفید عمامہ باندھے گھر سے دکان کی طرف روانہ ہوا۔ اُن چار تاجروں میں سے ایک تاجر اُسے راستے میں ملا۔ اس نے پہلے تو بڑی گرم جوشی سے اسے سلام کیا، پھر عمامے کی طرف دیکھ کر کہنے لگا:“کیسا خوش نما ہے یہ پیلا عمامہ!!“
وہ بولا:“تمھیں نظر نہیں آتا؟ یہ سفید عمامہ ہے۔“
اس نے جواب دیا :“ہے تو پیلا ہی، پر ہے خوبصورت۔“
تاجر نے پروانہ کی،اسے چھوڑ کر اور آگے چل دیا۔ ابھی چند قدم ہی چلا ہو گا کہ دوسرا تاجر ملا۔ اس نے بھی سلام کیای اور عمامے کی نظر اٹھا کر کہا:
“آج آپ بڑے خوب صورت نظر آرہے ہیں، لباس بھی اعلی ہے اور یہ سبز عمامہ تو بڑا ہی پیار الگ رہا ہے۔“
تاجر بوالا :“بھائی ! یہ سفید عمامہ ہے۔“
اس نے کہا:“نہیں جناب ، سبز ہے۔“
“سفید ہے یار۔ اب میری جان چھوڑ دو اور مجھے جانے دو۔“اس نے تنگ آکر کہا۔ وہ بے چارہ اپنے آپ سے باتیں کرتا چلتا رہا۔ بار بار یہ اطمینان کرنے کے لیے کہ عماممہ سفید ہے۔شِملے کی طرف دیکھتا جو کندھے پہ لٹک رہا تھا۔اسی شش وپنج میں وہ اپنی دکان پر پہنچا اور تالا کھولنے لگا تو تیسرا تار آگے بڑھا اور بولا:
“بھئی واہ! آج کی صبح تو بہت خوب صورت ہے۔ اس پر طرہ یہ تمھارا دلکش لباس، ماشاءاللہ! اور یہ تمھارا نیلا عمامہ تو سونے پر سہاگے کا کام کر رہا ہے۔“
تاجر نے پہلے تو اپنے عمامے کو بغور دیکھا پھر آنکھیں ملیں، پھر دیکھا اور بڑی لجاحت سے کہا:
“بھائی میرے! میرا عمامہ سفید ہے، سفید ہے۔“
وہ بولا:“اور نہی!نیلا ہے۔ مگر فکر کی کوئی بات نہیں، اچھالگ رہا ہے۔“
یہ کہہ کر اس نے سلام کیا اور چل دیا۔ تاجر چیختا رہا:
“عمامہ سفید ہے، سفید ہے، سفید ہے۔“
پھر اس نے عمامہ اتارا اور الٹ پلٹ کر اچھی طرح‌دیکھا۔ جب اطمینان ہو گیا کہ عمامہ سفید ہی ہے تو دوبارہ پہن لیا۔
وہ دکان مین بیٹھا اور اس دوران برابر عمامے کے سملے کو دیکھتا رہا۔ تھوڑی دیر ہی گزری تھی کہ چوتھا تاجر آخری پتا پھینکنے دکان میں داخل ہوا اور بولا:
“بھائی جان! مرحبا ، ماشاءاللہ یہ سرخ عمامہ آپ نے کہاں سے خریدا ہے؟“
تاجر پوری قوت سے چلایا:“میرا عمامہ نیلا ہے۔“
اس نے کہا:“ارے نہیں بھائی جان! یہ تو سرخ ہے۔“
تاجر بدحواس ہو گیا، کہنے لگا:“نہیں، سبز ہے، نہیں، نہیں، سفید ہے۔۔۔۔ نہیں۔۔۔۔۔۔ نیلا۔۔۔۔۔۔ سیاہ۔“
پھر ہنسا، پھر چیخا ، پھر رو دیا اور کھڑا ہو کر اُچھلا ، اس کے بعد باہر کی طرف دوڑ لگا دی۔“
ابن حزم کا کہنا ہے:
“اس کے بعد وہ تاجر پاگل ہو گیا۔ میں نے اسے کئی بار دیکھا۔ وہ اندلس کی سڑکوں پر مارا مارا پھرتا اور بچے اسے کنکر مارا کرتے تھے۔“
ملاحظہ کیجیے کہ کیسے ان لوگوں نے عام حیلوں‌اور مہارتوں کو استعمال کرتے ہوئے ایک آدمی کو نہ صرف اس کے معمول کے کاموں کی انجام دہی سے روک دیا بلکہ اس کا دماغ اُلٹا کر کے پاگل بنا دیا۔ پھر ہمارے لیے کیا مشکل ہے کہ ہم پڑھی لکھی اور قرآن و حدیث کے نور سے روشن مہارتوں کو عمل میں‌لاکر کامیاب زندگی گزارنے کی سعی نہ کریں۔
میرا آپ کو مشورہ ہے کہ آپ اچھے ہنر اور مفید مہارتوں سے سے واقفیت بہم پہنچائیں اور پھر انھیں اپنا کر سعادت مندی سے بہرہور ہوں۔ اور آگر آپ مجھ سے یہ کہیں گے کہ میں اپنی زندگی کونہیں‌بدل سکتا تو میں جوابا کہوں کہ کوشش کرکے تو دیکھیں، آپ بدل سکتے ہیں۔
اگر آپ کہیں گے کہ میں وہ طریقے نہیں جانتا تو میں کہوں گا کہ وہ طریقے سیکھ لیں۔ کیا آپ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وہ حدیث نہیں‌سنی:

انما العلم بالتعلم، وانما الحلم بالتحلم

“علم سیکھنے ہی سے آتا ہے اور تحمل اپنانے سے حاص ہوتا ہے۔“

نقطہ نظر

“بہادر وہ ہے جو نہ صرف اپنی مہارتیں‌بہتر بنائے اور اُنھیں ترقی دے بلکہ لوگوں کی مہارتوں کی مرحلہ وار بہتر بنانے اور بعض اوقات اُنھیں بدل ڈالنے کی صلاحیت بھی رکھتا ہوں۔“

زندگی سے لطف اٹھائیے ۔ محمد العریفی ۔

No comments:

Post a Comment