مولانا ظفر علی خان ........ تاریخ صحافت کا درخشندہ باب
مولانا ظفر علی خان19 جنوری، 1873ء میں کوٹ میرٹھ شہر وزیر آباد میں پیدا ہوئے۔آپ کے والد کا نام مولوی سراج الدین تھا۔ پہلے آپ کا نام خداداد خاں رکھا گیا بعد میں اُن کی پیشانی پر فتح و جرا¿ت اور شجاعت و ظفر کے آثار دیکھتے ہوئے ان کا نام ظفر علی خاں رکھ دیا گیا۔ علی اللہ کا نام بھی ہے۔ علی ایک ایسا نام ہے جو جنگ ہو یا جلسہ، مسلمانوں میں حوصلہ، جراءت اور جوش و جذبہ پیدا کرتا ہے۔ ظفر علی خاں نے ابتدائی تعلیم مشن ہائی سکول وزیرآباد اور قرآن پاک کی تعلیم برصغیر کے نامور عالم دین حافظ عبدالمنان وزیرآبادی سے حاصل کی۔ بعد ازاں ظفر علی خاں نے اینگلو محمڈن کالج علی گڑھ سے فارغ التحصیل ہو کر ریاست حیدرآباد کے محکمہ داخلہ میں بحیثیت اسسٹنٹ سیکرٹری ملازمت کر لی۔ انہوں نے حیدرآباد میں ایک اطالوی کمپنی کے حیا سوز رقص کے بائیکاٹ کی پرزور حمایت کی جس پر ریاست کے انگریز ریذیڈنٹ سر مائیکل اوڈوائر نے حکومتِ ہند سے مولانا کی شکایت کر دی نتیجتاً انہیں فوری طور پر ملازمت سے فارغ کر دیا گیا۔
مولانا کے والد مولوی سراج الدین نے 1903ءمیں اپنے گاﺅں کرم آباد سے ایک ہفتہ وار اخبار ”زمیندار“ جاری کیا۔ والد کے انتقال کے بعد 1909ءمیں ظفر علی خاں اس کے ایڈیٹر مقرر ہوئے اور بعدازاں 1910ءمیں انہوں نے اپنے والد کے گہرے دوست چوہدری شہاب الدین جو کہ مشہور وکیل تھے، کے مشورے پر اخبار کو لاہور منتقل کر دیا۔ بعدازاں اخبار کو ہفتہ وار کی بجائے روزنامہ بنا دیا گیا اور یکم مئی 1911ءکو روزنامہ ”زمیندار“ کا پہلا پرچہ لاہور سے شائع ہوا۔
مولانا ظفر علی خاں کی شخصیت کا ایک اور اہم پہلو اُن کی صحافت، ادب اور سیاست سے جڑا ہوا ہے۔ اس صف میں مولانا کا کوئی ہم پلہ نہیں۔ نڈر، بے خوف، غرض و لالچ سے بے نیاز، کسی بھی جھوٹے پراپیگنڈے سے آپ کبھی دل برداشتہ نہیں ہوئے۔ جس مشن کو لے کر اُٹھے اُس کا علم بلند رکھا اور ظلم و استبداد کی طاقتوں کی خلاف پوری طرح نبردآزما رہے۔ دینِ اسلام کی سربلندی، شدھی اور سنگٹھن تحریکوں کے خلاف جہادِ مسلسل میں اُن کے پائے استقلال میں کبھی کوئی لغزش نہیں آئی۔ وہ برملا کہتے تھے کہ ”انسان آزاد پیدا ہوا ہے اور آزادی اُس کا پیدائشی حق ہے۔ انسان کا سر صرف خدائے لم یزل کے روبرو جھکنا چاہئے کیونکہ وہی عبادت کے قابل ہے۔“
انگریز کی غلامی اور ہندوستان کی محکومیت کے خلاف روزنامہ زمیندار کا کردار تاریخِ صحافت کا ایک درخشندہ باب ہے۔ مولانا میدانِ عرفات میں بارگاہِ ایزدی میں عرض گزار ہیں:
جو سزا چاہے، ہمیں دے لے کہ تُو مختار ہے
لیکن اپنوں کو نہ غیروں کی نظر میں خوار کر
ہند کو بھی اے خدا قیدِ غلامی سے چھڑا
اپنے گھر کا ہم کو بھی مالک بنا مختار کر
جیل میں چکی کی مصیبت کے ساتھ ساتھ مشق سخن جاری رکھنے کے لیے جو طرفہ طبیعت درکار ہے وہ حسرت کے ایک ہمعصر مولانا ظفر علی خاں کے حصے میں بھی آئی۔ ان دونوں کی مشکلیں اور مشغلے یکساں تھے۔ انگریز سے نفرت اور اس کی پاداش میں نظربندی۔ آزادی کا مطالبہ اور اس کے جواب میں جیل۔ دین کی خدمت، لہٰذا جائیداد قرق۔ اور جب اس احوال کو نظم کیا تو شعر بھی ضبط ہو گیا۔ شوق گناہ ہر سزا کے بعد بڑھتا چلا گیا اور ایک نے شائد گیارہ اور دوسرے نے چودہ سال قید اور نظربندی میں گزار دیئے۔ ان کی ایذا پسندی اور نازک خیالی کا یہ عالم تھا کہ ساری عمر مار کھاتے اور شعر کہتے گزر گئی۔ بالآخر سیاست کی راہ میں زندگی لٹا دینے کے بعد ان دونوں کا وہ سفر جو شور انگیزی سے شروع ہوا تھا، بڑھاپے اور قدر شناسی کی منزل پر ختم ہو گیا۔
مولانا کی شاعری کے دیوان: بہارستان، نگارستان، چمنستان، حبسیات کے صفحات سے درج ذیل چند اشعار پیش خدمت ہیں جن میں وہ جیل کی مشقت کا نقشہ یوں کھینچتے ہیں:
آج جن کی یہ خطا ہے کہ ذرا کالے ہیں
پی رہے ان کا لہو جیل کے رکھوالے ہیں
کبھی کولھو کی مشقت، کبھی چکی کا عذاب
جس سے ہاتھوں میں بچاروں کے پڑے چھالے ہیں
گوشت اور خون کے پرزے ہیں جو انگریزوں نے
قیصریت کی مشینوں کے لیے ڈھالے ہیں!
قید گورے بھی ہیں چوری میں مگر ان کے لیے
جیل سرکار نے گلزار بنا ڈالے ہیں
ہم کسی بات میں کم ان سے نہیں لیکن
اس کو کیا کیجئے وہ گورے ہیں ہم کالے ہیں
رنگ کے فرق پہ موقوف ہے قانونِ فرنگ
یوں نکلتے نئی تہذیب کے دیوالے ہیں
ہو گئے کس لیے کونسل کے سب ارکان خاموش
وہ بھی کیا ان ستم آرائیوں کے آلے ہیں
ہو گئیں زندہ روایاتِ احد زنداں میں
دانت ٹوٹے ہیں انہیں کے جو خدا والے ہیں
1934ء میں جب پنجاب حکومت نے اخبار پر پابندی عائد کی تو مولانا ظفر علی خان جو اپنی جرات اور شاندار عزم کے مالک تھے انہوں نے حکومت پر مقدمہ کردیا اور عدلیہ کے ذریعے حکومت کو اپنے احکامات واپس لینے پر مجبور کر دیا۔ اگلے دن انہوں نے اللہ کا شکر ادا کیا اور ایک طویل نظم لکھی جس کے ابتدائی اشعار یہ ہیں
یہ کل عرش اعظم سے تار آگیا
زمیندار ہوگا نہ تا حشر بند
تری قدرت کاملہ کا یقین
مجھے میرے پروردگار آگیا
مولانا ظفر علی خاں ہندوﺅں کے ساتھ چومکھی لڑائی لڑتے تھے۔ کہیں پنڈت مدن موہن مالویہ کے ساتھ شدھی اور سنگٹھن کی تحریک پر جھگڑا کیا اور اُن کو آڑے ہاتھوں لیا۔ ہندوستان میں مسلمانوں کو شدھ کر کے ہندو دھرم میں شامل کرنے کی یہ سازش سوامی شردانند نے تیار کی تو مولانا کا قلم پوری قوت سے اُن کے مقابلے میں آ گیا اور لکھا:
اک مست الست قلندر نے جب کفر کے چیلوں کو رگڑا
پہلے تو رگڑنے ناک لگے پھر پاﺅں پڑے اور سر رگڑا
وہ شدھی دوڑی جاتی ہے اور پیٹتی چھاتی جاتی ہے
خود کہنے لگی اب جاتی ہے دھڑ مست قلندر دھڑ رگڑا
یہ رگڑے جھگڑے یونہی رہے کچھ روز اگر اخباروں میں
سن لو گے ماتھا بھارت نے اسلام کی چوکھٹ پر رگڑا
ہندوﺅں اور انگریزوں کے مکروہ ارادوں کے آگے آہنی دیوار بن کر مسلمانوں کی آزادی کے تحفظ اور حرمتِ رسول مقبول ﷺ اور دینِ اسلام کی سربلندی کے لیے تن من دھن قربان کرنے والی عظیم شخصیت اور بطلِ حریت مولانا ظفر علی خاں کے بارے میں جس قدر بھی لکھا جائے وہ کم ہے۔
مولانا کے دل میں صرف برصغیر کے مسلمانوں ہی کا درد نہ تھا بلکہ دنیا کے جس حصے میں بھی مسلمانوں پر آفت آتی، مولانا تڑپ اٹھتے۔ انہوں نے دامے درمے سخنے قدمے ان کی مدد کی۔ چندہ ہی نہیں کندھا بھی دیا۔ عثمانیوں پر کوہِ غم ٹوٹا تو مولانا نے ٹرکش ریلیف فنڈ قائم کیا۔ پہلی دفعہ 61 ہزار 815 روپے آئے۔ دوسری دفعہ 24 ہزار پاﺅنڈ تیسری مرتبہ 20 ہزار پاﺅنڈ ترک حکومت کو پیش کیے۔ آپ کی اپیل پر لاکھوں پاﺅنڈ مزید بھیجے گئے جس پر مصطفےٰ کمال پاشا نے مولانا کے نام شکریہ اور تعریفی خطوط ارسال کیے۔
بابائے صحافت مولانا ظفر علی خاں انگریزوں اور ہندوﺅں سے لڑتے لڑتے اور تحریک آزادی کے لیے قوم کو تیار کرتے کرتے 27 نومبر 1956ءکو اپنے خالق حقیقی سے جا ملے اور کرم آباد میں دفن ہیں۔ وہ اپنے پیچھے صحافیوں کے لیے تربیت کا ایک ایسا معیار چھوڑ گئے جو صدیوں تک مشعل راہ رہے گا۔
آسماں اس کی لحد پر شبنم افشانی کرے
مولانا الطاف حسین حالی نے مولانا ظفر علی خاں کے بارے میں لکھا:
اے دیں کے امتحان میں جانباز
اے نفرت حق میں تیغ عریاں
اے صدق و صفا کی زندہ تصویر
اے شیر دل اے ظفر علی خاں
(انور بشیرکی تحریر سے اقتباس)
No comments:
Post a Comment