BEST RESULT

Custom Search

Monday, May 9, 2016

سلسلہ تصوف اور شجرہ تصوف

سلسلہ

اس سے مراد صحبت اور اعتماد کا وہ سلسلہ ہے جو موجودہ شیخ سے آنحضرت صلی اللہ علیہ والہ وسلم تک جاتا ہے ۔ہند میں چار بڑے سلاسل چل رہے ہیں ۔جو کہ چشتیہ ،نقشبندیہ ،قادریہ اور سہروردیہ ہیں۔جس شیخ سے آدمی بیعت ہوتا ہے تو اس کے ساتھ آدمی اس کے سلسلے میں داخل ہوجاتا ہے ۔ان سلاسل کی مثال فقہ کے چار طریقوں حنفی ،مالکی ،شافعی اور حنبلی یا طب کے مختلف طریقوں یعنی ایلوپیتھی ،ہومیوپیتھی ،آکو پنکچر اوریونانی حکمت وغیرہ سے دی جاتی ہے ۔ان کے اصولوں میں تھوڑا تھوڑا فرق ہے لیکن سب کا نتیجہ وہی روحانی صحت یعنی نسبت کا حاصل کرنا ہے ۔
چاروں سلسلوں کے مشائخ کے اسمائے گرامی

سلسلہ چشتیہ کے سرخیل حضرت خواجہ معین الدین چشتی (رحمۃ اللہ علیہ) ہیں۔ان کے آگے پھر دو شاخ ہیں چشتیہ صابریہ کے سرخیل حضرت صابر کلیری (رحمۃ اللہ علیہ) ہیں اور چشتیہ نظامیہ کے سرخیل حضرت خواجہ نظام الدین اولیاء (رحمۃ اللہ علیہ) ہیں،سلسلہ قادریہ کے سرخیل حضرت شیخ عبد القادر جیلانی (رحمۃ اللہ علیہ)،سلسلہ سہروردیہ کے حضرت شیخ شہاب الدین سہروردی (رحمۃ اللہ علیہ) اور سلسلہ نقشبندیہ کے حضرت شیخ بہاؤالدین نقشبندی (رحمۃ اللہ علیہ) ہیں۔

شجرہ اور اس کی اہمیت
آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے مناسب جو اللہ تعالیٰ نے قُرآن میں بیان فر مائے ہیں چار ہیں۔یعنی قُرآن کی تلاوت سکھانا،صحابہ کرام (رضی اللہ عنہ) کا تزکیہ کرنا، کتاب کی تعلیم دینا اور حکمت کی تعلیم دینا۔قُرآن کی تلاوت کے شعبے کی ذمہ داری قرّا ءحضرات نے ،تزکیہ کی صوفیاء کرام نے اور علم و حکمت کی علماءکرام نے۔علماء کرام میں محدثین کرام نے احادیث شریفہ کو اُمت تک محفوظ طریقے سے پہنچانے کا بیڑا اٹھایا ہے۔اس مقصد کے لئے وہ اپنی سندوں کی حفاظت کرتے ہیں اور اپنی سندوں کو اس ترتیب سے روایت کرتے ہیں جس ترتیب سے ان تک روایت پہنچی ہوتی ہے۔بعینہ اسی طرح صوفیاء کرام اپنی نسبت کو اسی ترتیب سے بیان کرتے ہیں جس ترتیب سے ان تک نسبت پہنچی ہوتی ہے۔نسبت کی اسی ترتیب کا بیان شجرہ کہلاتا ہے۔بعض حضرات نے اپنا شجرہ منظوم انداز میں چھاپا ہوتا ہے اور برکت کو حاصل کرنے کے لئے اس کو پڑھتے ہیں۔یہ دعائیہ شکل میں بھی ہوتی ہے اور مریدین اپنی دعا کی قبولیت کے لئے اس نسبت کو بطور وسیلہ پکڑتے ہیں۔

No comments:

Post a Comment