اختلاف ہونا اچھی بات بھی ہوسکتی ہے، اور بری بات بھی ہوسکتی ہے، لیکن کسی اختلاف کے سامنے مکبر شیشہ Magnifying Glass رکھ کر اسے کئی گنا بڑا کرکے دکھانا یقینا بہت بری بات ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ امت کا زیادہ گمبھیر مسئلہ اختلافات نہیں ہیں، بلکہ ہر اختلاف کو بہت بڑا کرکے دیکھنا اور دکھانا ہے۔
جاحظ، اسلامی تاریخ کا ایک زبردست تذکرہ نگار ہے، اس نے خلیفہ مامون رشید کا ایک واقعہ ذکر کیا کہ خراسان کے ایک عیسائی پادری نے اسلام قبول کیا، اس کے کچھ عرصے بعد وہ مرتد ہوکر دوبارہ عیسائی ہوگیا۔
جاحظ، اسلامی تاریخ کا ایک زبردست تذکرہ نگار ہے، اس نے خلیفہ مامون رشید کا ایک واقعہ ذکر کیا کہ خراسان کے ایک عیسائی پادری نے اسلام قبول کیا، اس کے کچھ عرصے بعد وہ مرتد ہوکر دوبارہ عیسائی ہوگیا۔
مامون رشید نے اسے اپنے دربار میں طلب کیا اور اس سے بڑے ہی نرم اور ہمدردانہ لہجے میں اسلام سے لوٹ جانے کا سبب دریافت کیا، اس نے کہا، آپ لوگوں کے درمیان اتنے زیادہ اختلافات دیکھ کر میں متنفر اور بیزار ہوگیا ہوں۔ (أوحشني كثرة ما رأيت من الاختلاف فيكم)
مامون رشید نے اسے بتایا کہ ہمارے یہاں دو طرح کے اختلافات ہیں، ایک تو اس طرح کا اختلاف ہے جیسے اذان اور جنازے کی تکبیروں میں، تشہد کے الفاظ میں، عیدین کی نمازوں اور ایام تشریق کی تکبیروں میں، اسی طرح قرأتوں وغیرہ میں، تو یہ دراصل اختلاف ہے ہی نہیں، بلکہ یہ تو اختیار وگنجائش اور سہولت وکشادگی کی بات ہے، کوئی اقامت میں الفاظ کو دو دو بار ادا کرتا ہے تو کوئی ایک ایک بار، اور اس میں کوئی کسی کو نہ تو غلط قرار دیتا ہے اور نہ اس پر نکتہ چینی کرتا ہے۔ دوسرا اختلاف اس طرح کا ہے جیسے قرآن پاک کی کسی آیت کی تفسیر میں یا نبی پاک کی کسی حدیث کی تشریح میں اختلاف ہوجائے، ہمارے یہاں یہ اختلاف ضرور ہے لیکن ساتھ ہی یہ حقیقت بھی ہے کہ کتاب وسنت کی حقانیت اور ان کی اساسی حیثیت پر ہم سب اتفاق رکھتے ہیں۔ اگر اس طرح کا اختلاف ہمارے دین سے تنفر کی وجہ بنا ہے، تو دنیا میں تو کوئی کتاب ایسی نہیں ہے خواہ وہ تورات ہوانجیل ہو یا کوئی اور کتاب ہو، جس کے الفاظ کی تفسیر اور مفہوم کی تعبیر میں اختلاف نہیں ہوتا ہو، بلکہ دنیا میں کوئی زبان ایسی نہیں ہے جس کے الفاظ کے معنی میں اختلاف کی گنجائش نہیں ہو، اگر اللہ چاہتا تو اپنی کتاب اور اپنے رسولوں کے کلام کو اس طرح بنادیتا کہ ہمیں تفسیر وتشریح کی محنت کے بغیر مطلوب رہنمائی مل جاتی لیکن ہم دیکھتے ہیں کہ دین ودنیا کی کوئی چیز ہم کو اس طرح نہیں ملی ہے کہ ہمیں اس کے لئے کوئی محنت نہیں کرنا پڑے، اگر ایسا ہو تو امتحان اور مسابقت کا تصور ہی نہیں رہ جائے، اللہ تعالی نے اس طرح دنیا کی بنا رکھی ہی نہیں ہے۔
تذکرہ نگار کے مطابق اس وضاحت سے وہ شخص مطمئن ہوکر دوبارہ دائرہ اسلام میں داخل ہوگیا۔ (تفصیلات کے لئے ملاحظہ ہو، جاحظ کی کتاب البیان والتبیین)۔
واقعہ میں نصیحت کا پہلو یہ ہے کہ وہ شخص اسلام سے اس لئے متنفر ہوگیا تھا کیونکہ اس نے اختلافات کے بڑھے ہوئے حجم کو دیکھا تھا، جب اس کے سامنے اختلافات کا حقیقی حجم آیا تو اس کی وحشت دور ہوگئی۔
No comments:
Post a Comment