BEST RESULT

Custom Search

Wednesday, April 27, 2016

زراعت اور اسلام

زراعت اور اسلام
قرآن مجید نے انسان کی جو ذمہ داریاں بتائی ہیںوہ تین طرح کی ہیں: ایک وہ جس کا تعلق انسان اور پوری کائنات سے ہے، دوسری وہ جس کا تعلق انسان اور اس روئے زمین سے ہے جہاں وہ آباد ہے، تیسری وہ جس کا تعلق انسان اور صرف خالقِ کائنات سے ہے۔ 
یوں تو ساری ذمہ داریوں کا تعلق خالق کائنات سے ہے؛ لیکن ایک خاص پہلو سے دیکھا جائے تو یہ تین ذمہ داریاں سامنے آتی ہیں ۔ جب اللہ تعالی نے فرشتوں کے سامنے تخلیق ِآدم کا ارادہ ظاہر کیا تواس موقع پر ارشاد فرمایا کہ وہ ایک جانشین پیدا کرنا چاہتے ہیں۔ اللہ کا جانشین یقینا تمام مخلوقات سے افضل ہونا چاہیے۔،اسی لحاظ سے انسان کو اشرف المخلوقات بنایا۔گویا خلافت وہ ذمہ داری ہے جس کا تعلق پوری کائنات سے ہے جس کااثر پوری کائنات پر پڑتا ہے۔ 
دوسری ذمہ داری وہ ہے جس کا تعلق صرف ذاتِ الٰہی سے ہے ’وماخلقتُ الجنَّ والانسَ اِلّالِیَعبدون‘ یعنی اللہ کی عبادت ۔یہ ذمہ داری صرف اللہ کی ذات سے تعلق رکھتی ہے۔ انسان اور اللہ کے در میان براہِ راست ربط اسی سے قائم ہوتا ہے۔
تیسری ذمہ داری وہ ہے جس کا تعلق اس روئے زمین سے ہے، اس ذمہ داری کا تذکرہ مختلف آیات میں مختلف انداز سے آیا ہے، ایک جگہ پر ہے کہ واستعمرکم فیھا اللہ تعالیٰ نے تم سے یہ مطالبہ کیا ہے کہ تم اس روئے زمین کو آباد کرو، تعمیرارض اس آیت میں انسان کی ذمہ داری بتائی گئی ہے، اسی لیے زمین کو انسانوں کے لیے متاع کہا گیا یعنی زمین میں تمہارے لیے ایک ایسا وقفہ ہے جس میں تم اس کی نعمتوں سے متمتع ہوسکتے ہو اور زمین سے متمتع ہونے کے لیے ضروری ہے کہ اسے آباد کیا جائے۔
زمین کی آبادکاری کے بارے میں قرآن کریم نے اور احادیث میں رسول اللہ  ﷺ نے متعدد ہدایات دی ہیں۔ واستعمرکم فیھاکی تفسیر میں علا مہ ابن کثیر ؒ نے لکھا ہے کہ ’اس کے معنی یہ ہے کہ اللہ تعالی نے تم کو اس زمین کا آبادکار بنایا ہے، اس سے رزق حاصل کروگے، اس میں کاشت کروگے اور اس سے وہ تمام فائدے حاصل کروگے جو تمہیں اس سے اٹھانے چاہیے‘(محاضرات معیشت : ۲۲)
علامہ قرطبیؒ نے لکھا ہے کہ اس آیت سے اندازہ ہوتا ہے کہ زمین کی آبادکاری انسان کے ذمہ فریضہ ہے، یہ کام دینی طور پر فرض اور واجب ہے، اس لیے کہ جب اللہ تعالی کسی کام کاحکم دیتا ہے یا انسان سے مطالبہ کرتاہے تو وہ مطالبہ یا حکم فرضیت یا وجوب ظاہر کرتاہے۔ ‘(محاضرات معیشت : ۲۲)
علامہ ابوبکر جصاص رازیؒ مزید وضاحت کے ساتھ تحریر فرماتے ہیں کہ واستعمرکم فیھا کے الفاظ سے اندازہ ہوتاہے کہ تعمیر ِارض کا کام واجب ہے، تعمیر ِارض زراعت کے ذریعہ ہو ، شجرکاری اور باغبانی کے ذریعہ ہو یا عمارتیں بناکر ہو جس انداز سے بھی زمین کی آبادکاری ہو وہ قرآن کے اس حکم کی تعمیل ہوگی جس میں انسانوں کو اس زمین کے آباد کرنے کا حکم دیا گیا ہے۔‘(محاضرات معیشت : ۲۲)
تعمیر ِارض اور کاشتکاری ایسا فرض کفایہ ہے جوتمام مسلمانوں پر مجموعی حیثیت سے واجب ہے، اگر کچھ لوگ اس فرض کو بجا لائیںگے تو بقیہ مسلمانوں کے لیے یہ عمل مندوب و مباح ہوجائے گا۔
علامہ قرطبی ؒسورہ بقرہ ، آیت ۲۶۱، مثل الذین ینفقون أموالہم فی سبیل اللہ الآیۃ کی تفسیر میں رقم طراز ہے کہ’ زراعت فرض کفایہ ہے، اس لیے امیرالمؤمنین پر لازم ہے کہ لوگوں کو کھیتی باڑی، باغبانی اور شجرکاری جیسے کاموں پر مجبور کریں۔‘(تفسیر قرطبی : ۴-۳۲۲)
گویایہ فریضہ امت ِمسلمہ پر اس وقت تک باقی رہے گاجب تک اس کی پیداوار مسلمانوں کے لیے کافی نہ ہوجائے اورغیروں سے اس بابت استغناء حاصل نہ ہو جائے، جب کہ یہ اپنی وسعت و قدرت میں بھی ہو۔
چنانچہ امّتِ مسلمہ میں سے کوئی بھی کاشتکاری وغیرہ نہ کرے اوراس سلسلے میں غیروں پر اعتماد کیا جاتا رہے توپوری امّت مسلمہ اس فریضہ میں کوتاہی کرنے والی اوراس کی تارک شمار ہوگی۔
ایسی حالت میںامام المسلمین کوچاہیے کہ وہ لوگوں کو اس کام پر مجبور کریں تاکہ ان شعبوںمیں کفایت حاصل ہو۔ اگر یہ کام کفایت کے طور پر کوئی نہ کرے تو پھرہرشخص پر مستقلاً فرضِ عین ہوجائے گا ۔ خاص طورپرایسے وقت میں جب کہ انسان غذا سے عاجزہوجائے،اور لوگوں کا محتاج ہوجائے۔
 (ابن الحاج،المدخل:۴؍۴، بحوالہ :فضل الزراعۃ والعمل فی الأرض:۲۸) 


No comments:

Post a Comment