مکالمہ نویسی
مکالمہ دو یا دو سے زیادہ آدمیوں کی باہمی بات چیت کو کہتے ہیں۔ اس بات چیت یا گفتگو کے کئی پہلو ہوتے ہیں۔ اسی گفتگو سے ہم ایک دوسرے تک اپنے دل کی بات پہنچاتے ہیں اور ایک دوسرے کے خیالات سے آگاہ ہوتے ہیں۔
مکالمہ زبانی بھی ہوتا ہے اور تحریری بھی۔ اسی سے ایک دوسرے کے جو ہر و کردار کا پتا چلتا ہے اور کسی کردار کی شخصیت کھل کر سامنے آتی ہے۔ یہی مکالمات ڈراما، ناول اور افسانے کی جان ہیں۔ انہی کی کامیابی سے ناول ، افسانہ اور فلم وغیرہ کی کامیابی کی شہرت پھیلتی ہے اور ان ہی سے ہم ایک دوسرے کی قدر و قیمت کا اندازہ کرتے ہیں۔
مکالمہ ایک فطری بات چیت بھی ہے اور مصنوعی گفتگو بھی۔ مگر بہر حال مصنوعی میں فطرت کا لحاظ رکھنا پڑتا ہے۔ روز مرہ بول چال اور لہبہ کے ساتھ اشارات ایک اچھی مکالمے کی جان ہیں۔ الجھائو اور تکلفا نہ گفتگو مکالمے کو بے مزہ کر دیتی ہے۔ موقع گفتگو کے مطابق ہی تاثر متکلم پر بھی پر بھی طاری ہونا چاہیے۔ خیال رکھنا چاہیے کہ گفتگو شرافت و تہذیب کے دائرے سے باہر قدم نہ رکھے۔ مخاطب کے مرتبے اور درجے کا خیال رکھا جائے ۔ ضرورت کے مطابق اشارات کے ساتھ آواز کی نرمی ، سختی، اتار، چڑھائو بھی زیر نظر رہنا چاہیے۔
گفتگو کا انداز ایسا ہونا چاہیے کہ بات سے بات خود بخود نکلتی آئے۔ ایک ہی بات بار بار دہرانے سے بھی گفتگو میں پھیکاپن پیدا ہوجاتا ہے۔
زبان کا روز مرہ کے مطابق ہونا ضروری ہے۔ زبان جس قدر روز مرہ کے مطابق ہوگی، اتنی ہی موثر ہوگی۔ اب ہم چند مکالمے بطور نمونہ درج کرتے ہیں:
مریض اور طبیب
مریض: السلام علیکم ! حکیم صاحب
طبیب: وعلیکم السلام ! تشریف رکھیے۔
مریض: حکیم صاحب!تشریف رکھنا ہی تو مشکل ہے۔
طبیب: کیوں بھئی ایسی کیا تکلیف ہوگئی ہے۔
مریض: تکلیف ہی تکلیف ہے۔ رات بھر پریشان رہا ہوں۔ گھڑی بھر سو نہیں سکا۔
طبیب: تکلیف تو بھئی تکلیف ہی ہے۔ صحت ٹھیک نہ ہو تو چین نہیں آتا۔
مریض: کچھ دوا بھی دیجیے مرا جارہا ہوں۔
طبیب: بیماری بتائو تو دوا دوں۔
مریض: حکیم صاحب! پیٹ میں سخت درد ہے۔ بیٹھے چین آتا ہے نہ للیٹے ۔
طبیب: یہ درد کب سے ہے؟
مریض: آج رات سے ۔
طبیب: رات کیا کھایا تھا؟
مریض : روٹی کا ایک ٹکڑا۔
طبیب: کیا آپ نے پہلے کبھی روٹی نہیں کھائی؟ رات کی روٹی میں کیا خاص بات تھی؟
مریض: رات کی روٹی میں خاص بات یہ تھی کہ وہ جلی ہوئی تھی۔
طبیب: ارے! تم جلی ہوئی روٹی کھاگئے؟
مریض: صرف ایک ٹکڑا کھایا تھا۔
طبیب: اوہو! کیا آپ کی نظر کمزور ہے۔ لیٹ جائو تمہاری آنکھوں میں دارو ڈالتا ہوں۔
مریض: نظر ٹھیک ہے۔ پیٹ میں کچھ ڈالیے تاکہ درد سے جان بچے ۔
طبیب: وعدہ کرو کہ آئندہ جلی ہوئی روتی نہیں کھائو گے۔
مریض: سو بار وعدہ کرتا ہوں ۔ ہائے میرا پیٹ!
(طبیت مسہل کی ایک گولی مریض کو کھلاتا ہے)
مریض: حکیم صاحب! شکریہ۔ درد کم ہو رہا ہے۔ میں جاتا ہوں۔
طبیب: ارے میاں ! دوا کی قیمت تو دیتے جائو۔
مریض: دو اکی قیمت درد سے آرام ہی تو ہے۔
طبیب: دوا کی قیمت دام بھی ہیں، جن سے دوائیں خریدی جاتی ہیں۔
مریض: (دواکی قیمت ادا کر کے) السلام علیکم! حکیم صاحب
طبیب: وعلیکم السلام۔ روٹی کھانے سے پہلے دیکھ لیا کرو کہ جلی ہوئی تو نہیں ۔
(مریض شکریہ ادا کرتا ہوا چلا جاتا ہے)۔دوکاندار اور خریدار
خریدار: السلام علیکم!
دوکاندار: وعلیکم السلام۔ آیئے تشریف لایئے۔
خریدار: آپ کی دکان میں رومال بھی ہوں گے؟
دکاندار: رومال ہی نہیں جرابیں، بنیانیں، چھتریاں سبھی کچھ ہے۔
خریدار: رومال دکھایئے۔ کوئی سستا سا سوتی ہو۔
دکاندار: یہ دیکھیے رومال ۔ نہایت نفیس اور نرم
خریدار: آپ نے جرابوں کا ذکر کیا تھا۔ وہ بھی دکھایئے۔
دکاندار: رومال کے متعلق کیا فیصلہ ہے۔ کتنے پیش کروں؟
خریدار: جرابیں دکھایئے تو رومال کا فیصلہ بھی ہوجائے گا۔
دکاندار: یہ دیکھیے جرابیں۔ ریشمی ہیں ریشمی۔ کتنے جوڑے پیش کروں۔
خریدار: آپ مال دکھا رہے ہیں قیمت نہیں بتاتے۔ کیا آپ اپنی چیزیں بن داموں بیچتے ہیں؟
دکاندار: ہاں صاحب! بالکل مفت۔ قیمت برائے نام ہے۔ رومال دس روپے کا ہے۔ اور جرابوں کا جوڑابیس روپے کاْ
خریدار: میاں دکاندار! یہ قیمت تو بہت زیادہ ہے۔ ویسے رومال بھی نفیس ہے اور جرابیں بھی۔
دکاندار: ہم اپنے مال کو چند پیسوں کے نفع پربیچتے ہیں۔ کسی اور دکان سے دریافت کر لیں۔ پھر آپ کی تسلی ہو جائے گی۔
خریدار: رومال اور جرابوں کی صحیح صحیح قیمت بتایئے۔ میں کچھ اور چیزیں بھی خریدوں گا۔
دکاندار: صاحب! ہماری دکان کا حساب ’’باٹا‘‘ جیسا سمجھیے۔ ایک زبان ایک دام۔
خریدار: اگر آپ سچ مچ درست کہتے ہیں تو مجھے آپ کی سچائی پر فخر ہے۔ اب سچی دکان چھوڑ کر جھوٹی دکانوں پر نہیں جائوں گا۔
دکاندار: پھر حکم کیجیے۔ آپ کی قدر دانی کا شکریہ!
خریدار: پانچ رومال، پانچ جوڑے جراب، اور ایک چھتری بھی باندھ دیجیے، مگر اچھی سی ہو۔
دکاندار: یہ لیجیے۔ آپ کی تشریف آوری کا شکریہ۔
خریدار: رقم تو آپ نے نہ بتائی نہ وصول کی۔ شکریہ مفت میں دے مارا۔
دکاندار: یہ لیجیے بل! کل ۱۹۰ روپے ہی تو ہوئے۔
خریدار: یہ لیجیے دو سو روپے ۔ اپنی رقم وصول کیجیے اور بقایا دیجیے۔
دکاندار: یہ تو لینے کے دینے پڑگئے۔ اچھا آپ کی خوشی کے لیے یہ لیجیے دس روپے۔دوہم جماعت
ناصر: کہاں جا رہے ہو؟ باسط میاں!
باسط: اخاہ۔ آپ ہیں۔ السلام علیکم۔
ناصر: یہا کیا کہ سر پیر کا ہوش نہیں اور بازار کو بھاگے جارہے ہو۔
باسط: بھائی صاحب! سلام کا جواب تو دیا ہوتا۔
ناصر: وعلیکم السلام۔ سچ مانو تمہیں دیکھ کر سلام کا جواب تک یا نہ رہا۔
باسط: اور اب بھی بے خودی کی کیا بات ہے۔ انگریزی کتاب کا ترجمہ خرید نے جا رہا ہوں۔ انگریزی کمزور ہے نامیری۔
باسط: انگریزی ایسا مضمون نہیں جس کے متعلق پریشان ہونے کی ضرورت ہو۔
ناصر: کیا مطلب؟
باسط: مطلب یہ ہے کہ میں مدد کے لیے حاضر ہوں۔
ناصر: شکریہ دوست! یہ تو بتائو کہ تم کہاں جا رہے ہو؟
باسط: جا کہاں رہا ہوں۔ یہی حساب کا خلاصہ خریدنے ک ارادہ ہے۔
ناصر: حساب میں تمہاری مدد میں کر سکتا ہوں۔
باسط: شکریہ ! مگر یہ دونوں مضمون تیار کیسے ہوں گے اور ہم ایک دوسرے کی مدد کیوں کر کریں گے ۔
ناصر: ہمارے گھر میں آجایا کرو اور حساب کی مشق کر لیا کرو۔
باسط: ٹھیک ہے۔ آئندہ ہم دونوں مل کر سکول کا کام کیا کریں گے اور ایک دوسرے کی مدد سے اپنی کمی پوری کرلیا کریں گے ۔درزی خانے میں
(شاکر اور ناصر دونوں بھائی درزی خانے میں داخل ہوتے ہیں)
شاکر: السلام علیکم!
درزی: و علیکم السلام۔ کہیے کیسے آنا ہوا؟ کہیں بھول تو نہیں پڑے۔
شاکر: آپ کی طبیعت کیسی ہے ماسٹر جی!
درزی : شکر ہے۔
ناصر: ماسٹرجی ! ییہ کپڑا لیجیے۔ میرا سوٹ یار کر دیجیے۔ شاکر کے لیے دو شلواریں اور ایک قمیض تیار کیجیے۔
درزی: کس حساب سے خریدا ہے یہ کپڑا؟
شاکر: ساٹھ روپے فی میٹر۔
ناصر: میری قمیض کے لیے کتنا کپڑا درکار ہوگا؟
شاکر: اڑھائی میٹر۔ یہ کپڑا تین میٹرہے۔ آدھ میٹر کی واسکٹ بنا دیجیے۔
درزی: جو ارشاد ہو، مگر زمانے کے فیشن کا خیال بھی رکھنا پڑتا ہے نا۔
ناصر: اب ہمارے کپڑے کب تک تیار ہو جائیں گے؟
درزی: صرف پندرہ دن تک ۔ آج پیر ہے اگلا پیر چھوڑ کر آئندہ پیر کو آیئے ان شاء اللہ آپ کے کپڑے تیار ہوں گے۔
شاکر: ماسٹر جی! پیروں کے پھیر میں نہ رکھیے گا۔ ہمارے پاس اتنا وقت نہیں۔
درزی: فکر نہ کریں۔ ہمیں اپنے وقت کی بھی قدر ہے۔ کام آرہا ہے اور ختم ہونے میں نہیں آتا۔ سچی بات بھی کہتے ہیں اور لوگوں کو وعدوں پر بھی ٹرخاتے ہیں۔
ناصر: مگر ہمیں نہ ٹرخانا ورنہ ہماری دوستی بھی ٹرخ جائے گی۔
درزی: نہیں یہ صرف باتیں ہی ہیں۔ بھلا نراوعدوں سے کام چلتا ہے کہیں۔
شاکر: شکریہ ماسٹر صاحب!
درزی: دونوں جوانوں کی آمد کا شکریہ۔تاریخ پاکستان
(کلاس میں لڑے شور مچا رہے ہیں۔ استاد صاحب کے آتیھ ہی خاموشی چھا جاتی ہے)
استاد: جاوید! بتایئے پاکستان کب وجود میں آیا تھا؟
جاوید: پاکستان ۱۴ اگست ۱۹۴۷ ء کو وجود میں آیا تھا۔
استاد: سب سے پہلے برصغیر پاک و ہند میں اسلامی سلطنت کی بنیاد کس نے رکھی تھی؟
جاوید: محمد بن قاسم نے برصغیر میں اسلامی سلطنت کی بنیادرکھی تھی اور بعد میں آنے والے فاتحوں کے لیے سلطان محمود غزنوی اور محمد غوری نے راستہ صاف کیا تھا۔
استاد: شاباش! محمد بن قاسم نے کس سنہ میں ہندوستان پر حملہ کیا تھا؟
ناصر: ۹۲ھ تھا جب کہ اس نوجوان فاتح نے راجہ داہر کو شکست دے کر سندھ میں اسلامی حکومت قائم کی ۔
استاد: سلطان محمود غزنوی نے ہندوستان پر کتنے حملے کیے اور اسلامی حکومت کو کس قدر و سعت دی؟
باسط: سلطان محمود غزنوی نے ہندوستان پر سترہ حملے کیے اور پنجاب و سندھ کو اسلامی حکومت میں شامل کیا۔
استاد: سلطان محمد غوری نے دہلی کو فتح کیا اور اسلامی سلطنت کا بانی کون تھا؟
شکیل: ہندوستان میں مستقل اسلامی حکومت کا بانی سلطان قطب الدین ایبک تھا۔ اس کے بعد خلیجی ، تغلق، لودھی خاندان حکمران رہے ۔
استاد: مغلیہ خاندان کا بانی کون تھا اور اس دورکے مشہور حکمرانوں کے نام بتایئے؟
قاسم: مغلیہ خاندان کے بانی کا نام ظہیر الدین بابر تھا۔ اس خاندان کے مشہور بادشاہ ہمایوں، اکبر، جہانگیر، شاہجہاں اور اورنگ زیب ہیں۔
استاد: ہندوستان پر ہزار سالہ اسلامی حکومت کا خاتمہ کس بادشاہ پر ہوا؟
ناظم: ہندوستان میں مسلمانوں کی ہزار سالہ حکومت بہادر شاہ ظفر پر ختم ہوئی اور انگریز ہندوستان کے حاکم ہوگئے۔
استاد: پاکستان کس طرح قیام پزیر ہوا؟
نعمان: برصغیر پاک وہندمیں مسلمانوں کی حالت نہایت ابتر ہوگئی تھی۔ انگریز اور ہندو دونوں مسلمانوں پر مظالم کے پہاڑ توڑ رہے تھے۔ علامہ اقبال نے قوم جھنجھوڑا اور پاکستان کا نظریہ پیش کیا۔ جسے قائداعظم محمد علی جناح کی شبانہ روز محنت اور جہدوجہد نے انگریز اور ہندو کو شکست دے کر قائل کر لیا کہ پاک وہند کے وہ علاقے جن میں مسلمانوں کی اکثریت ہے پاکستان کے نام سے آزاد و آباد رہیں۔ چنانچہ ۱۴ اگست ۱۹۴۷ء کو پاکستان کے قیام کا اعلان ہوا اور قائداعظم پاکستان کے پہلے حاکم مقرر ہوئے۔ہوٹل میں
(مسٹر حامد اپنے بارہ سالہ بیٹے کے ساتھ ہوٹل میں داخل ہوتے ہیں)
حامد: السلام علیکم!
منیجر: وعلیکم السلام۔ خوش آمدید۔ کیا حکم ہے؟
حامد: مجھے دو بستر کا کمرہ چاہیے۔
منیجر: آج کل مہمانوں کی آمد زیادہ ہے۔ تیسری منزل پر صرف ایک کمرہ خالی ہے۔
حامد: منیجر صاحب! کمرہ صاف ستھرا اور ہوا دار ہوناچاہیے۔
منیجر: ہمارے ہوٹل کا ہر کمرہ نہایت صاف ستھرا ہے۔ آپ اوپر جا کر دیکھ لیں۔
حامد: مجھے آپ کی باتوں پر اعتماد ہے۔
منیجر: آپ کتنے دن تک ٹھہریں گے؟
حامد: صرف دو دن تک۔ ہم مری جارہے ہیں، واپسی پر پھر دو دن ٹھہریں گے۔
منیجر: ۲۸۵نمبر کمرہ کی چابی لیجیے۔ امید ہے کہ ہماری خدمت سے خوش ہوں گے۔
حامد: شکریہ!
بیرا: کیا تناول فرمائیںگے آپ ؟
حامد: طاہر بیٹے! آپ کیا کھائیںگے؟ کھانوں کی فہرست دیکھتا ہے۔
طاہر: دہی پلائو اور شامی کباب۔
حامدـ: بیرے! میرے لیے بھنا ہوا مرغ اور بچے کے لیے ایک پلیٹ پلائو، ایک پلیٹ شامی کباب، دہی اور سلاد لائو۔
(بیرا سب کچھ حاضر کرتا ہے۔ کھانے سے فارغ ہو کر)
حامد: بیرے ! بل لائو۔
بیرا: یہ لیجیے حضور!
حامد: ایک سو پچیس روپے ہوئے سب۔ یہ لو پانچ روپے بخشش۔
بیرا: شکریہ جناب!۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔بشکری القلم لائبیری۔
BEST RESULT

Custom Search
Friday, July 22, 2016
اردو مکالمہ نویسی برائے طلبہ
Subscribe to:
Post Comments (Atom)
I hate this
ReplyDeletethis is terrible
بے روزگاری پر بھی مکالمہ لکھ دیں🤕
ReplyDeleteGda gri ki muzzamat par bi likh lai
ReplyDeleteGas par
ReplyDeleteWalid Sahab aur bacche ke darmiyan chalana imtihan ke baare mein bhi bata de aaj main cal Mera Urdu ka paper hai usmein hi aana hai
ReplyDelete