BEST RESULT

Custom Search

Sunday, February 9, 2014

اذاصح الحدیث فھومذہبی پر ایک نظر

 ائمہ اربعہ سے ایسے اقوال منقول ہیں جس میں انہوں نے کہاہے اذاصح الحدیث فھومذہبی امام شافعی کی یہ بات ابن کثیر نے اپنی تفسیر میں صلاۃ وسطی کی بحث میں نقل کی ہے اورایسے ہی اوراسی کے ہم معنی اقوال امام عبدالوہاب شعرانی نے اپنی کتاب المیزان الکبری میں نقل کیاہے۔اسے لے کر کچھ لوگوں نے ایساکرنا شروع کردیا کہ ایک طرف کوئی حدیث رکھی اوردوسری جانب ایک حدیث رسول پیش کیااورپھر یہ قول عوام کے سامنے پیش کرکے کہادیکھو امام نے یہ قول کہاہے اورصحیح حدیث یہ ہے۔اس مجلس پر بھی بعض حضرات نے ایساہی کیاہے کہ ایک جانب حدیث رسول سامنے رکھا اوردوسری جانب فقہ حنفی کا کوئی مسئلہ اوریہ تاثر دینے کی کوشش کی کہ فقہ حنفی قرآن وحدیث کے مخالف ہے۔
جب کہ حقیقت یہ ہے کہ اس قول کا محمل کچھ اور ہے اوراس قول کے مخاطب وہ لوگ ہیں جو کم سے کم اجتہاد کی صلاحیت اورائمہ کرام کے دلائل سے واقفیت رکھتے ہوں کیونکہ صرف تنہاحدیث کا جان لینا کافی نہیں ہے یہی وجہ ہے کہ امام ابومحمد عبداللہ بن وہب مصری نے کہاتھا الحدیث مضلۃ الاالعلماء (ترتیب المدارک69/1)حدیث جائے گمراہی ہے سوائے علماء کے۔یعنی اگرکوئی ناواقف حدیث پر عمل کرے اوروہ شرعی علوم میں مہارت حاصل نہ کرے تو وہ گمراہ ہوجائے گا۔ 
ائمہ کرام کے اس قول کے مخاطب وہ لوگ تھے جن کی نگاہ علوم دینیہ پر وسیع ہووہ حدیث کے ساتھ ساتھ فقہ میں بھی گہرے رسوخ کا مالک ہو اوراجتہاد فی المذہب کے درجہ کافقیہہ ہو۔چنانچہ امام نوویٌ امام شافعی کے اس قول کا مطلب بیان کرتے ہوئے کہتے ہیں۔احتاط الشافعی رحمہ اللہ فقال ماھوثابت عنہ من اوجہ من وصیتہ بالعمل بالحدیث الصحیح،وترک قولہ المخالف للنص الثابت الصریح،وقدامتثل اصحابنارحمھم اللہ وصیتہ عملوابہافی مسائل کثیرۃ مشہورۃ کمسالۃ التثویب فی اذان الصبح واشتراط التحلل فی الحج بعذرالمرض ونحوہ وغیرذلک مماھومعروف ولکن لھذا شرط قل من یتصف بہ فی ھذالازمان وقداوضحتہ فی مقدمۃ شرح المہذب امام شافعی کا یہ قول ان کے وصایامیں سے متعدد طرق سے ثابت ہے اورامام شافعی نے اس قول کے ذریعہ دین میں احتیاط پر عمل کیا کہ حدیث پر عمل کیاجائے اوران کا جو قول نص ثابت صریح سے مخالف ہو ترک کردیاجائے۔اورہمارے اصحاب(ائمہ فقہاء)نے امام شافعی کے اس وصیت پر عمل کرتے ہوئے بہت سارے مسائل میں ان کے قول کے برخلاف حدیث پر عمل کیاہے جیسے مسالہ تثویب فی الاذان،مرض کی وجہ سے احرام کھول دینے کی شرط اوراس کے علاوہ دوسرے بہت سے مسائل وغیرہ لیکن اس کیلئے کچھ شرائط ہیں ،کم لوگ ہیں جواس زمانہ میں ان سے متصف ہوں گے اوراس کو میں نے واضح کرکے مہذب کے شرح کے مقدمہ میں بیان کیاہے۔
پھراس کے بعد امام نووی نے جو کچھ شرح المہذب کے مقدمہ میں بیان کیاہے اس کا خلاصہ یہ ہے کہ 

لیس معناہ ان کل احد رای حدیثا صحیحاقال ھذامذھب الشافعی وعمل بظاہرہ وانما ھذا فیمن لہ رتبۃ الاجتہاد فی المذہب وشرطہ ان یغلب علی ظنہ ان الشافعی رحمہ اللہ لم یقف علی ھذاالحدیث اولم یعلم صحتہ وھذاانمایکون بعدمطالعۃ کتب الشافعی کلھاونحوہ من اصحابہ الاخذین عنہ ومااشبھھا،وھذاشرط صعب قل من یتصف بہ وانماشرطواماذکرنا لان الشافعی رحمہ اللہ ترک العمل بظاہراحادیث کثیرۃ راھاوعلمھالکن قام الدلیل عندہ علی طعن فیھااونسخھااوتخصیصھااوتاویلھااونحوذلک(المجموع104/1)اس قول (اذاصح الحدیث فھومذہبی)کا معنی یہ نہیں ہے ہر کوئی جس نے کوئی صحیح دیکھی توکہنے لگے کہ یہ امام شافعی کا مذہب ہے اوراس کے ظاہر پر عمل کرنے لگے اس قو ل کے مخاطب وہ لوگ ہیں جن کا رتبہ کم ازکم اجتہاد فی المذہب کا ہو۔اوراس کی شرط یہ ہے کہ ان کو اپنے گہرے علم وبصیرت اوروسعت اطلاع سے اس کا گمان غالب ہوجائے کہ امام شافعی اس صحیح حدیث سے مطلع نہیں ہوئے یااس حدیث کی صحت ان کومعلوم نہیں تھی اوریہ اسی وقت حاصل ہوسکتاہے جب کوئی امام شافعی کی تمام کتابوں کامطالعہ کرلے اوراسی طرح ان کے شاگردوں کی کتابیں بھی پڑھے لے اوریہ بہت مشکل شرط ہے بہت کم لوگ ہیں جواس شرط کی اہلیت رکھتے ہوں۔یہ شرطیں ہم نے اس لئے ذکر کی ہیں کہ امام شافعیٌ نے خودبہت سارے احادیث کے ظاہر پرعمل نہیں کیاہے حالانکہ ان حادیث کوان کو اطلاع تھی اوران کے صحت سے بھی وہ واقف تھے لیکن اس کے ساتھ ساتھ ان کو حدیث میں کسی خرابی،یااس کے منسوخ ہونے یاخاص ہونے یااس حدیث کا کوئی دوسرامطلب ظاہر حدیث کے برخلاف ہونے کے دلائل ان کے پاس تھے ۔
دیکھنے کی بات یہ ہے کہ امام نووی اپنے زمانہ کا رونا رورہے ہیں اورکہہ رہے ہیں کہ اس زمانہ میں ان اوصاف سے متصف ہونے والے لوگ بہت کم ہیں جوکہ علوم اسلامیہ کے بہترین دور مین سے ایک ہے اوآج کی حالت یہ ہے کہ ہرایک ہماوشما ائمہ کرام کے ان اقوال کا سہارالے کر مجتہد بننے کی کوشش میں لگاہواہے۔
حافظ ابن صلاح جن کامقدمہ علم اصول حدیث میں مشہور ہے وہ محدث ہونے کے ساتھ ساتھ اپنے عہدکے ایک بڑے فقیہہ تھے اورفقہ شافعی میں ان کابڑامقام ومرتبہ ہےچنانچہ وہ اس تعلق سے کہتے ہیں۔
لیس العمل بظاہر ماقالہ الشافعی بالھین،فلیس کل فقیہ یسوغ لہ ان یستقل بالعمل بمایراہ حجۃ من الحدیث وفیمن سلک ھذاالمسلک من الشافعیین عمل بحدیث ترکہ الشافعی رحمہ اللہ عمدامع علمہ بصحتہ لمانع اطلع علیہ وخفی علی غیرہ کابی الولید موسی بن الجارود ممن صحب الشافعی قال صح حدیث افطرالحاجم والمحجوم،فاقول قال الشافعی افطرالحاجم والمحجوم ،فردواذلک علی ابی الولید لان الشافعی ترکہ مع علمہ بصحتہ ،لکونکہ منسوخاعندہ وبین الشافعی نسخہ واستدل علیہ (ادب المفتی والمستفتی 118)امام شافعی نے جوکہاہے اس کے ظاہر کے مطابق عمل آسان نہیں اورہرفقیہ کیلئے یہ روانہیں ہے کہ جوکچھ اس کو حدیث سے سمجھ میں آتاہو اس پرعمل کرے۔شافعیوں میں سے جنہوں نے امام شافعی کے ظاہر قول پر عمل کرتے ہوئے حدیث پر عمل کیاہےاورامام شافعی کے قول کو چھوڑدیاہے جیسے ابوالولید موسی بن جارود۔وہ ان لوگوں میں سے تھے جنہوں نے امام شافعی کے صحبت کاشرف اٹھایاتھا انہوں نے افطرالحاجم والمحجوم کی حدیث پر عمل کرتے ہوئے کہاتھا کہ (جب امام شافعی نے یہ کہاہے کہ صحیح حدیث ہی میرامذہب تو چونکہ یہ حدیث صحیح ہے)تومیں کہتاہوں کہ امام شافعی کا قول ہے افطرالحاجم والمحجوم ۔لیکن اس سلسلے میں شوافع نے ابوالولید پر اعتراض کیاہے کہ امام شافعی نے اس حدیث کی صحت کی واقفیت کے باوجود بھی اس کوچھوڑدیاہے کیونکہ یہ حدیث امام شافعی کی نظرمیں منسوخ ہےاورامام شافعی نے اس کے منسوخ ہونے کے وجوہات اوردلائل بھی بیان کئے ہیں۔
اس سلسلے میں امام تقی الدین سبکی کا ایک رسالہ بھی ہے ""معنی قول الامام المطلبی اذاصح الحدیث فھومذہبی ""جس میں انہوں نے حقیقت واضح فرمائی ہے۔چنانچہ وہ ابن جارود والا قصہ نقل کرنے کے بعد کہتے ہیں 
ھذاتبیین لصعوبۃ ھذاالمقام حتی لایغتر بہ کل احد ۔یہ قصہ وضاحت کرتاہے کہ یہ مقام کتنا مشکل ہے اس سے کسی کو دھوکہ میں نہیں پڑناچاہئے۔
اس کے بعد امام تقی الدین سبکی اپنا واقعہ نقل کرتے ہیں کہ ابوالحسن محمد بن عبدالملک الکرجی الشافعی جو کہ محدث اورفقیہہ دونوں تھے وہ فجر کی نماز میں دعائے قنوت نہیں پڑھتے تھے وہ کہتے تھے کہ میرے نزدیک یہ بات ثابت ہوچکی ہے کہ رسول اللہ نے فجر کی نماز میں قنوت ترک کیاہے۔اس کے بعد میں نے بھی ایک مدت تک فجر کی نماز میں دعائے قنوت پڑھناچھوڑے رکھا پھر میرے نزدیک یہ بات واضح ہوگئی کہ فجر مین دعائے قنوت پڑھنا ہی صحیح ہے اورامام شافعی کا جوقول اس سلسلے میں ہے وہ درست ہے۔اسی سلسلے میں وہ کہتے ہیں ولیس فی شیء من ذلک اشکال علی کلام الشافعی وانماقصور یعرض لنافی بعض النظر۔اوراس میں کوئی اشکال اوراعتراض امام شافعی کے کلام پر نہیں یہ توہمارے فہم ونظر کاقصور ہے۔
لیکن افسوس اب لوگ اپنے قلت علم کا اورقلت فہم کا اعتراف کرنے کے بجائے ائمہ کرام کو ہی نشانہ بنادیتے ہیں اوران کے اقوال کو ہی غلط ٹھہراتے ہیں۔
اسی رسالہ میں اس تعلق سے انہوں نے ابوشامہ المقدسی کا ایک طویل کلام نقل کیاہے یادرہے کہ ابوشامہ کی مثال شافعیہ میں ویسی ہی ہے جیسے حنفیہ میں شاہ ولی اللہ محدث دہلوی کی ۔وہ کہتے ہیں ۔ولایتاتی النہوض بھذالامام الامن عالم معلوم الاجتھاد،وھوالذی خاطبہ الشافعی بقولہ،اذاوجدتم حدیث رسول اللہ علی خلاف قولی فخذو بہ ودعو اماقلت ولیس ھذالکل احد(ص106)اوراس جملہ کا مخاطب مجتہد عالم ہے جس کوامام شافعی نے اپنے قول سے مخاطب کیاہے کہ جب تم میراکوئی قول حدیث رسول کے خلاف دیکھو تواس پر عمل کرو اورمیرے قول کو چھوڑدو ۔اس کامخاطب ہرایک نہیں ہے۔دیکھنے کی بات یہ ہے کہ امام ابوشامہ بھی اس کااعتراف کررہے ہیں اوروضاحت کررہے ہیں کہ امام شافعی کے اس جملہ کامخاطب ہرایک فرد نہیں ہے اورہرعامی وجاہل اورسند یافتہ عالم نہیں ہے۔بلکہ و ہ ہے جس کے اندر کسی حد تک اجتہاد کی صلاحیتیں ہوں۔قران وحدیث پر گہری نظر اورعلوم اسلامیہ میں گہرارسوخ ہو۔
اسی تعلق سے امام قرافی لکھتے ہیں
کثیرمن فقہاء الشافعیۃ یعتمدون علی ھذاویقولون مذہب الشافعیۃکذا ،لان الحدیث صح فیہ،وھوغلط لانہ لابد من انتقاء المعارض ،والعلم بعدم المعارض یتوقف علی من لہ اھلیۃ استقراء الشریعۃ حتی یحسن ان یقال لامعارض لھذاالحدیث۔۔۔۔۔۔فھذاالقائل من الشافعیۃ ینبغی ان یحصل لنفسہ اھلیۃ الاستقراء قبل ان یصرح بھذہ الفتیا(شرح التنقیح ص450)
بہت سارے شافعی فقہاء اس قول پراعتماد کرتے ہوئے کہہ دیتے ہیں امام شافعی کا مذہب یہ ہے کیونکہ اس بارے میں صحیح حدیث ہے۔اوریہ غلط ہے کیونکہ اس کے لئے ضروری ہے کہ اس صحیح حدیث کے خلاف کوئی دوسری مضبوط دلیل نہ ہو۔اوراس بات کا علم کہ فلاں صحیح حدیث کے خلاف کوئی دلیل نہیں شرعی علوم میں گہرے رسوخ کی اہلیت کا تقاضاکرتاہے تاکہ یہ کہاجاسکے کہ اس حدیث کی مخالفت میں کوئی معارض نہیں ہے۔توشافعیہ میں ایساکرنے والوں (یعنی صحیح حدیث کو دیکھ کر امام شافعی کاقول چھوڑدینے اوراس کو امام شافعی کافورامسلک قراردینے )کوچاہئے کہ وہ اپنے اندر شرعی اوراسلامی علوم میں گہرارسوخ اورمہارت پیداکریں۔قبل اس کے کہ وہ اس طرح کے فتاوی جاری کریں۔
حنفیہ میں سے امام ابن شحنہ نے بھی یہی بات کہی ہے۔اذاصح الحدیث وکان علی خلاف المذہب عمل بالحدیث ویکون بذلک مذھبہ ولایخرج مقلدہ عن کونہ حنیفا بالعمل بہ فقد صح عنہ عن الامام ابی حنیفہ انہ قال اذاصح الحدیث فھومذہبی وقدحکی ذلک ابن عبدالبر عنا بی حنیفہ وغیرہ من الائمہ ۔
مشہور فقیہہ ابن عابدین شامی نے ابن شحنہ کی یہ بات نقل کرکے اس پر لکھاہے۔ ونقلہ ایضاالامام الشعرانی عن الائمۃ الاربعۃ ولایخفی ان ذلک لمن کان اھلاللنظر فی النصوص ،ومعرفۃ محکمھامن منسوخھافاذانظراہل المذہب فی الدلیل وعملوابہ صح نسبتہ الی المذہب(حاشیہ ابن عابدین68/1)یہ قول امام شعرانی نے ائمہ اربعہ سے نقل کیاہے اوریہ بات کسی پر مخفی نہیں ہونی چاہئے یہ کہ اس قول کے مخاطب وہ لوگ ہیں جوکہ نصوص میں غووفکر کی اہلیت رکھتے ہوں۔ اورمحکم ومنسوخ کی پہچان رکھتے ہوں ۔اب آخر میں بہترہے کہ امام فضیلۃ الشیخ عبدالغفار الحمصی الحنفی کا ایک تبصرہ بھی نقل کردیاجائے۔چنانچہ وہ اپنے رسالہ دفع الاوہام عن مسالۃ القراءۃ خلف الامام میں ابن عابدین کے اس تقیید پر صاد کرنے کے بعد لکھتے ہیں۔ھوتقیید حسن ،لانانری فی زمانناکثیراًممن ینسب الی العلم مغترافی نفسہ یضن انہ فوق الثریاوھوفی الحضیض الاسفل،فربمایطالع کتابامن الکتب الستۃ مثلافیری فیہ حدیثامخالفاابی حنیفہ فیقول اضربوامذھب ابی حنیفہ علی عرض الحائط وخذوابحدیث رسول اللہ وقدیکون۔ھذاالحدیث منسوخا اومعارضا بماھواقوی منہ سنداًاورنحوذلک من موجباعدم العمل بہ،وھولایعلم بذلک فلوفوض لمثل ھولاء العمل بالحدیث مطلقالضلوافی کثیرمن المسائل واضلومن اتاھم من سائل
یہ قید لگانا(یعنی اس قول کے مخاطب اہل علم اورقران وحدیث میں گہری نظررکھنے والوں کوقراردینا)بہترہے۔اس لئے کہ ہم اپنے زمانے میں بہت سارے لوگوں کودیکھتے ہیں جوکہ نام نہاد اہل علم ہیں اوراپنے آپ سے دھوکہ میں پڑے ہوئے ہیں۔ان کا خیال ہے کہ علم میں وہ ثریاکی بلندیون کوچھوچکے ہیں جب کہ حقیقت یہ ہے کہ وہ جہالت کے سب سے گہرے گڑھے میں پڑے ہوئے ہیں ۔بسااوقات ایساہوتاہے کہ ایسے مدعیان علم وتحقیق کتب ستہ میں سے کسی میں کوئی حدیث دیکھتے ہیں جوبظاہر امام ابوحنیفہ کے مسلک کی مخالفت میں ہوتی ہے توکہناشروع کردیتے ہیں کہ امام ابوحنیفہ کے قول کو دیوار پر ماردو اورحدیث رسول پر عمل کرو۔ جب کہ بسااوقات ایساہوتاہے کہ وہ حدیث منسوخ ہوتی ہے یااس کے مخالف کوئی اس سے زیادہ قوی حدیث ہوتی ہےیااسی طرح کی کوئی دوسری بات ہوتی ہے جوکہ حدیث کے ظاہر پر عمل کرنے سے مانع ہوتی ہے اوریہ مدعی علم اس کو نہیں جانتا ۔تواگر عمل بالحدیث کواجازت ان مدعیان علم وتحقیق کو بلاکسی قید ورکاوٹ کے دے دی جائے توبہت سارے مسائل میں یہ خود بھی گمراہ ہوں گے اوراپنے ساتھ ساتھ فتوی پوچھنے والوں کوبھی گمراہ کریں گے۔
اللہ ہم سب کواپنے دین پرچلنے اوراس پر قائم ودائم رہنے کی توفیق دے ۔آمین

No comments:

Post a Comment